جب کالم نگاری شروع کی تو طنزیہ مزاحیہ اسلوب اختیار کیا۔اس زمانے میں کالم اسی کو کہا اور سمجھا جاتا تھا کہ کالم نگار واقعات حاضرہ پر اپنا ہلکا پھلکا تبصرہ طنزو مزاح کے لبادے میں لپیٹ کر پیش کرے۔ابن انشاء اور نصراللہ خاں اس دور کے مقبول کالم نگار تھے۔چنانچہ ہم نے بھی یہی انداز اپنایا اور خود ستائی معاف بہت مقبول ہوا۔کسی کو یقین نہ آئے تو بزرگ کالم نگار مجیب الرحمان شامی صاحب سے تصدیق کر لے۔ بقول ان کے پھر نہ جانے کیا ہوا کہ ہمارے قلم کو شاید کسی کی نظر لگ گئی کہ ہم نے کالموں میں پندو نصیحت کی دکان کھول لی اور لگے پڑھنے والوں کو صلواتیں سنانے اور یہی سمجھانے کہ بھائیو! قبلہ درست کر لو اور یہ نہیں کر سکتے تو اپنے آپ ہی کی اصلاح کر لو۔قوم کی درگت یوں ہی تو نہیں بن رہی۔مال و دولت کے پیچھے نہ پڑو نوٹ نہ پکڑو‘ عبرت پکڑو۔پکڑنے کے لئے یہی مفید چیز ہے۔اس انداز تخاطب کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو قاری تفریح طبع کے لئے کالم پڑھتے تھے وہ تو بھاگ نکلے اور رہ گئے نیک و سادہ دل لوگ تو انہوں نے ہمیں پڑھا بھی اور خوب داد بھی دی۔ایسے کالموں کو جمع کر کے ہم نے ایک کتاب بنائی۔عنوان تھا ’’دل سوز سے خالی ہے‘‘ کتاب کے بیک ٹائٹل اور آخری صفحات پر قارئین کے تنقیدی و تعریفی خطوط اور ان کے اقتباسات بھی چھاپ دیے ہمارا گمان تھا کہ اس طرح کے اصلاحی اور خطیبانہ کالموں سے ہدایت کا چشمہ پھوٹ نکلے گا۔ آج پندرہ بیس برس بعد جب اپنے ماضی کا حساب کتاب کرنے بیٹھا ہوں تو ایک احساس شرمندگی اور ندامت کے سوا دامن میں کچھ نہیں ہے کیا ہم اور کیا ہماری اصلاحی و تبلیغی کوششیں۔جو حال ہمارے ملک کا اور ہماری اس دنیا کا ہے وہ کم سے کم لفظوں میں ناگفتہ بہ ہے لوگ باگ آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے کل تک تھے۔کیسی اصلاح اور کہاں کی راہ ہدایت۔ انسان اور انسان کی فطرت اور تقدیر کے کھیل کو نہ سمجھنے کا نتیجہ یہ ہے کہ کالم نگار نے ہتھیار پھینک دیے ہیں اور قلم کانوں پہ رکھ کر سوچنے پہ مجبور ہے کہ جس نے زندگی خلق کی ہے اور جس حکمت و تدبر سے خلق کی ہے وہی مالک و مختار ہے۔تبدیلی معاشرے میں آئے یا معاشرے اور دنیا میں۔اسی کے حکم اور اسی کی مصلحت سے آتی ہے۔انسان مجبور و بے اختیار ہے۔ہاں اپنی بات کہتے رہنا اور سمجھاتے بجھاتے رہنا‘ اس کا انسان کو اختیار بھی ہے اور شاید حکم بھی ہے لیکن نتیجہ آخری نتیجہ اسی مالک کے ہاتھوں میں ہے اور وہ اس میں کسی کی دخل اندازی برداشت نہیں کرتا۔جو لوگ انقلاب اور تبدیلی لانے کے دعوے کرتے ہیں‘ ان کی بابت شاعر نے کیا خوب کہا ہے: دنیا کو بدلنے اٹھے تھے دنیا نے بدل ڈالا کہ نہیں ہاں جو دنیا کو بدلنے کا دعوے دار ہوتا ہے دنیا ایک جھٹکے میں خود اسی کو بدل ڈالتی ہے ۔ زمانہ طالب علمی سے ہم انقلاب کی صدائیں سن رہے ہیں۔تب دو گرو ہ تھے ایک ماسکو اورپیکنگ برانڈ انقلاب لانے کا مدعی تھا اور دوسرا مکّہ معظمہ اور مدینہ منوّرہ کے اسلامی انقلاب کے لئے نعرہ زن تھا۔پھر کیا ہوا۔دونوں گروہوں کے نعرے دونوں کے خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے۔یہاں تک کہ اب یہ نعرے بھی سننے میں نہیں آتے۔تعلیمی اداروں پہ جمود طاری ہو گیا اور سڑکیں آج بھی بے معنی و بے مطلب جلسوں اور جلوسوں سے آباد اور پرشور ہیں لیکن جو خواب تھے وہ بکھر گئے اور جو بحث و مباحثے تھے وہ بھی ہوا میں تحلیل ہو گئے۔یہ ہے انسانی‘ بشری کوششوں اور جہدو عمل کا انجام۔تو پھر ہم کیا کریں اور تم کیا کرو۔ایک آگ کا دریا ہے اور تیر کے جانا ہے۔ہاں زندگی‘ یہ ہماری اور تمہاری زندگی اور اس کی صعوبتیں ایک آگ کا دریا ہی ہیں جن میں ہم اترے ہوئے ہیں۔ کشت و خون‘ دنگا فساد‘ بیماریاں اور چار اطراف موت کا رقص‘ صعوبتیں‘ دکھ اور پریشانیاں۔کیا ہے یہ سب اذیتیں ہی اذیتیں ہیں۔مہنگائی ‘ لاقانونیت اور کرپشن کا رونا کیا رویا جائے کہ یہ تو ہمارا مقدر ہیں۔لیکن باقی جو کچھ ہا ہا کار ہے۔نفسا نفسی ہے اور دکھوں کے میلے ہیں کہ کبھی کبھی جی کرتا ہے کہ مالک الملک سے حدّ ادب میں رہتے ہوئے پوچھیں کہ کیا تُو نے ان ہی اذیتوں کو بھگتنے کے لئے ہمیں خلق کیا تھا؟ لیکن یہ پوچھنے کی ہمت نہیں پڑتی۔حکیم الامت کو بھی شکوہ لکھنے کے بعد جواب شکوہ تخلیق کرنا پڑا تھا جس میں بتا دیا گیا خالق کی طرف سے کہ اپنی اذیتوں اور دکھوں اپنے زوال و انحطاط کے ذمہ دار تم خود ہو۔ اپنے ہاتھوں اور اپنی حرکتوں سے اپنے لئے تم خود مصیبتیں خریدتے ہو۔خدا نے تو کوئی حقیقت چھپائی نہیں کوئی راز نہیں رکھا۔سب کچھ بتا دیا ہے تو تم راہ راست پہ کیوں نہیں آتے؟ اور جب اصلاح احوال کے لئے اپنے تم خود کچھ نہیں کرتے تو پھر شکوہ کیسا اور شکایت کیسی۔کتنے مصلحین اور ناصحین اس قوم میں پیدا ہوئے‘ کیسی کیسی تحریکیں بیداری کے نام پہ اٹھیں لیکن ہم ویسے کہ ویسے ہی رہے۔قوم جیسی کل تھی ویسی آج بھی ہے بلکہ حال آج کچھ زیادہ ہی ابتر ہے۔تو پھر کیا کیا جائے اس کھیل سے اکتا کر زندگی کو اسی شکل میں قبول کر لیا جائے جیسی کہ وہ ہے۔یا اسے بدلنے کی تگ و دو میں کوئی کمی نہ کی جائے ہر مسجد اور ہر منبر سے ہدایت کی ہی صدائیں ہیں۔آڈیو ویڈیو کلپس کا ایک سیلاب بلاخیز ہے جو وٹس ایپ پہ امنڈا آ رہا ہے‘ فیس بُک پہ پھیلتا جا رہا ہے لیکن جیسے جیسے گرد آلود کمرے میں جھاڑو پھیرا جا رہا ہے گرد اڑ اڑ کر آنکھوں میں پڑ رہی ہے اور کچھ دیکھنا بھی محال ہوتا جا رہا ہے۔شاید صفائی باطن کا میکانزم یہی ہے یا شاید یہ مایوسی کی گرد ہو پر تبدیلی کے امکان کو معدوم کر رہی ہو۔کیا ہے اور کیا نہیں ہے یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔لیکن ایک بات ہے کہ اندر سے ایک ہی صدا ہے جو پکار رہی ہے لاتقنطوا من الرحمۃاللہ ۔خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہو ۔ امید کی لو لگائے رکھنا ہی حاصل ایمان ہے۔اس کی مصلحتیں وہی جانے۔تو پھر مجھے کیا کرنا چاہیے۔سارے معاملات اس خالق حقیقی کے سپرد کر کے اپنے قلم کو اسی جانب موڑ دینا چاہیے جہاں سے آغاز کیا تھا۔کہتے ہیں ہنسی علاج غم ہے اور آج کی پر اذیت زندگی میں اگر کوئی مسکرا اٹھنے پر یا ہنس دینے پر مجبور کر دے تو یہ بھی ایک خدمت ہے۔دکھے دلوں پر پھاہارکھ دینا بھی انسانیت کو سہولت بہم پہنچا دینا ہے۔ اب لکھنے والوں کے ہجوم میں ایک آدھ ہی ایسے ہوں گے جو یہ کار خیر کر رہے ہوں گے۔مجھے بہ حیثیت کالم نگار آئندہ کیا کرنا ہے اور کیسے لکھنا ہے۔اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔لیکن یہ ضرور ہے کہ موجودہ اسلوب سے اب دل مطمئن نہیں۔ ٭٭٭٭