جمعرات یکم نومبر کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (UNHRC) میں یونیورسل پیریڈک ریویو (UPR) کے دوران ہندوستان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر تحفظات کا اِظہار کرتے ہوئے، بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ مذہبی امتیاز اور جنسی تشدد پر سخت موقف اپنائے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (UNHRC) میں یونیورسل پیریڈک ریویو کے تحت رکن ممالک کا ہر چار سال بعد اجلاس منعقد ہوتا ہے ،جو رکن ممالک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو جانچنے کا طریقہ کار ہے۔کوئی بھی رکن ریاست سوال پوچھ سکتا ہے اور زیر غور ریاست کو سفارشات دے سکتا ہے۔ UPRکا جائزہ لینے کا طریقہ کار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2006 ء میں قائم کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک ہر چار سال بعد اس جائزے سے گزرتے ہیں۔ رکن ممالک کو ایک دوسرے کو سفارشات دینے اور پچھلے اجلاسوں سے ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کرنے کی بھی اجازت ہے۔ انسانی حقوق کونسل اقوام متحدہ کے تحت ایک بین الحکومتی ادارہ ہے، جو پوری دنیا میں انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے لیے ذمہ دار ہے۔ ہندوستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر جمعرات کو جنیوا میں منعقد ہونیوالے چوتھے UPR جائزے کے دوران، رکن ممالک نے ہندوستان سے "انسداد دہشت گردی" کے قوانین کے وسیع اطلاق کو کم کرنے کا بھی کہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندوستان کی ہندو قوم پرست حکومت غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ (یو اے پی اے) کے استعمال کے لئے جانچ کی زد میں ہے،خاص طور پر اقلیتی گروپوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو منصفانہ ٹرائل کا موقع فراہم کیے بغیر نشانہ بنانے کی غرض سے۔ یو اے پی اے ایک "انسداد دہشت گردی" کا قانون ہے جس کے تحت حکام شک کی بنیاد پر کسی کو "دہشت گرد" قرار دے سکتے ہیں اور بغیر ضمانت کے مہینوں تک حراست میں لے سکتے ہیں۔ اِس قانون کو اَقلیتی گروپوں خصوصاً مسلمانوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کے اَرکان کے خلاف اِستعمال کرنے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان میں جو مخصوص قوانین نافذ ہو رہے ہیں، وہ اس کے اپنے آئین کے مطابق نہیں ہیں۔ اِس ضمن میں شہریت ترمیمی ایکٹ سی اے اے کا حوالہ دیا جاسکتا ہے، جو ہندوستان کے آئین کے مطابق نہیں ہے اور ایک متنازعہ قانون ہے، جسے ہندوستانی پارلیمنٹ نے 2019 میں منظور کیا تھا۔ یہ قانون پڑوسی ممالک سے "ستائی ہوئی" اقلیتوں کو ہندوستانی شہریت کی سہولت فراہم کرتا ہے البتہ ہمسایہ ملکوں سے ہندوستان آنیوالے مسلمانوں پر اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کرنے پر طلباء اور کارکنوں سمیت سینکڑوں مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا اور بہت سے لوگوں کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت کاروائی عمل میں لائی گئی۔ حالانکہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے مطابق نہ ہونے کی وجہ شہریت ترمیمی ایکٹ کو تنقید کا سامنا ہے۔ ہندوستان میں اقلیتی طبقوں بالخصوص مسلمانوں کو وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست حکومت کے سخت مظالم کا سامنا ہے جبکہ ھندوستان کی عدالتیں اور حکومتی ادارے بھی امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں۔ کرناٹکا میں بی جے پی کی حکومت کی طرف سے اِس سال جنوری میں سرکاری سکولوں اور کالجوں میں مسلمان طالبات کو حجاب پہننے سے روکنے کا فیصلہ ہندوستان میں مسلمانوں سے اِمتیازی سلوک کی مثال ہے جبکہ کرناٹکا کی ھائی کورٹ نے بھی حکومتی فیصلے کو برقرار رکھا۔ حجاب تنازعہ جنوری میں اس وقت شروع ہوا جب کرناٹکا کے اڈپی ضلع میں ایک سرکاری اسکول نے حجاب پہننے والی طالبات کو کلاس رومز میں داخل ہونے سے روک دیا، جس سے مسلمانوں نے مظاہرے شروع کر دیے جن کا کہنا تھا کہ انہیں تعلیم اور مذہب کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے زعفرانی شالیں پہنے ہوئے ہندو طلبا کی طرف سے جوابی مظاہرے ہوئے، زعفرانی رنگ ہندو مذہب سے قریبی تعلق رکھتا ہے اور ہندو قوم پرستوں کی طرف سے شناخت کے طور پر اِستعمال کیا جاتا ہے۔بھارت میں، جہاں مسلمان ملک کی 1.4 بلین آبادی کا 14 فیصد ہیں، حجاب کو تاریخی طور پر عوامی سطح پر نہ تو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور نہ ہی محدود کیا گیا ہے۔ خواتین کا سر پر اسکارف پہننا پورے ملک میں عام ہے، جس کے قومی چارٹر میں مذہبی آزادی کو سیکولر ریاست کی بنیاد کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ تاہم بھارتیہ جنتا پارٹی کی موجودہ قیادت اِنتہا پسند ہندو قوم پرستی کے خیالات کی حامل اور پرچارک ہے اور سیاسی مبصرین کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی نسل کش پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ مثال کے طور پر، دن کے اجالے میں مسلمانوں کو قتل کیا جاتا ہے۔ ان کے گھروں کو بلڈوز کردیا جاتا ہے جبکہ ہندو اس عمل کی تعریف کرتے ہیں۔ حجاب پہننا یا داڑھی رکھنا ناشائستہ قرار دیا جا رہا ہے اور بنیاد پرست ہندو مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بھارت انٹرنیٹ کی بندش میں دنیا میں سرفہرست ہے۔ بھارت کے زیر انتظام مسلم اکثریتی خطے کشمیر میں اِنٹرنیٹ کی بندش کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ ہے۔اقلیتوں اور مسلمان کش پالیسیوں کا یہ دور ایک نسلی ہندو ریاست کیلئے RSS-BJP کے ایجنڈے کا لازمی جزو ہے جیسا کہ ہندو نظریات کے حامل ونائک دامودر ساورکر اور مادھو سداشیو راؤ گولوالکر نے ترتیب دیا تھا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اِس سال پندرہ مارچ کو ایک قرارداد منظور کی جس میں اِسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے 15 مارچ کو عالمی دن کا اعلان کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور انسانی حقوق کے احترام، مذاہب اور عقائد کے تنوع کی بنیاد پر تمام سطحوں پر رواداری اور امن کے کلچر کے فروغ کے لیے عالمی مکالمے کو فروغ دینے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کو مضبوط کرنے پر زور دیا گیا۔اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی قرارداد پر عمل درآمد کو یقینی بنائے، جو اس نے اتفاق رائے سے منظور کی ہے اور بھارت میں پسماندہ گروہوں جیسے دلت، خواتین، آدیواسی (مقامی کمیونٹیز) اور دیگر مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ رکھے گئے ناروا سلوک اور ان کے مذہبی اور بنیادی اِنسانی حقوق کی سلبی کا نوٹس لیتے ہوئے بھارتی حکومت پر زور دیا جائے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو حقِ خود ارادیت اور ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں سمیت تمام اقلیتی طبقات کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم نہ رکھا جائے۔