پچھلے دنوں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچرلاہور (پلاک) کی سربراہ محترمہ صغریٰ صدف ملتان آئیں ، سرکٹ ہائوس میںاجلاس سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ نے کہا کہ وسیب کے ادیب ، شاعر اور دانشورتعاون کریں کہ ملتان آرٹس کونسل میں پنجاب رنگ کے نام سے پروگرام کرا رہے ہیں ، اس موقع پر میں نے عرض کیا کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں پلاک کے قیام سے قبل ڈاکٹر شہزاد قیصر ملتان تشریف لائے ، وسیب کے شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں کو بلایا گیا اسی سرکٹ ہائوس میں اجلاس ہوا، ڈاکٹر شہزاد قیصر نے اس موقع پر خوشخبری دی کہ مجوزہ انسٹیٹیوٹ پنجابی ، سرائیکی اور پوٹھوہاری کی ترقی کے لئے بنایا جا رہا ہے ، لاہور ، راولپنڈی اور ملتان میں دفاتر قائم ہوں گے اور پنجاب حکومت ایکٹ کے ذریعے ایک ایسے ادارے کو وجود میں لا رہی ہے جو پنجابی ، سرائیکی و پوٹھوہاری زبانوں کا بڑا ادارہ کہلائے گا، ہر دفتر میں آڈیٹوریم ، لائبریری، میوزیم و دیگر سہولتیں موجودہوںگی ، تینوں جگہوں پر ادارے کی طرف سے ٹیلی ویژن اور ایف ایم ریڈیو بھی بنائے جائیں گے۔میں نے اس موقع پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ضابطے کی کارروائی پوری کرنے کے لئے وسیب کو استعمال کیا جاتا ہے مگر جب کام کی باری آتی ہے تو وسیب کو بھلا دیا جاتا ہے ، اب بھی اسمبلی سے ادارے کا ایکٹ پاس کرانے کے لئے وسیب کے ارکان اسمبلی سے بھی تائید حاصل کر لی جائے گی اور بعد میں کچھ نہیں ہوگا۔ 2004ء اور آج 2019ء گزشتہ 15 سالوں میں کچھ بھی نہیں ہوا، نہ ملتان میں ادارہ قائم ہو سکا اور نہ ہی راولپنڈی میںجبکہ ایکٹ پاس ہونے کے بعد لاہور میں ادارہ بھی بن گیا اور سینکڑوں ملازم بھی سرکاری خرچ پر تعینات ہو گئے ۔ میرا سوال اتنا ہے کہ پلاک کے اخراجات میں وسیب اور پوٹھوہار بھی اپنا حصہ دے رہا ہے کہ صوبے کا بجٹ مشترکہ ہے، کتنی سرائیکی یا پوٹھوہاری کتابیں شائع ہوئیں؟اس ادارے میں پوٹھو ہار اور وسیب سے ملازمین کا تناسب کیا ہے ؟پلاک کے ریڈیو اور ٹیلیویژن سے کتنے سرائیکی یا پوٹھوہاری پروگرام نشر ہوتے ہیں؟ اس کے ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ سرائیکی اور پوٹھوہاری سے ہٹ کر وسیب اور پوٹھوہار میں جو تخلیق کار ادب تخلیق کر رہے ہیں ان کی کتنی کتابیں شائع ہوئیں؟۔ کسی بھی ملک و قوم کے لئے ادبی اداروں کی اہمیت محتاج تعارف نہیں ، بدقسمتی سے قیامِ پاکستان سے لیکر آج تک ادبی و ثقافتی اداروں کے قیام کی طرف کم توجہ دی گئی ، وفاق کی طرف سے اردو اداروں کے قیام کے لئے کوششیں ہوئیں جبکہ پاکستان میں بولی جانے والی مختلف زبانوں کو نظر انداز کیا گیا، صوبہ سندھ کے علاوہ دوسرے صوبوں میں وہاں کی زبان و ادب کی ترقی کے لئے ادارے وجود میں نہ آ سکے ۔ ادبی اداروں کی تاریخ پر نظر ڈالیں توں معلوم ہوتا ہے کہ 1962ء میں یونیسکو کے تعاون سے نیشنل بک کونسل کے نام سے ایک ادارہ وجود میں آیا مگر حکومت کی کم توجہی کے باعث آگے نہ بڑھ سکا، ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں ایک ایکٹ کے ذریعے نیشنل بک فائونڈیشن قائم کی ، صدر دفتر اسلام آباد ،چاروں صوبوں کے دارالحکومتوں میں صوبائی دفاتر اور مختلف شہروں میں مزید برانچیں قائم ہوئیں، اس ادارے کی ذمہ داری تھی کہ وہ خود کتابیں شائع کرے اور سال میں 50 مصنفین سے پانچ پانچ سو کتابیں خرید کر لائبریریوں کو مفت بھجوائے، اس کے علاوہ مصنفین کے لئے سالانہ ایوارڈ و انعامات کیلئے بھی بجٹ مختص تھے، افسوس کہ یہ ادارہ بھی سیاست اور اقربا پروری کی نذر ہو ا، من پسند افراد سے کتابیں لکھوا کر سرکاری خزانے سے خرید کی جاتی رہیں، مجھے نہیں معلوم کہ سرائیکی وسیب سے کسی مصنف کی کوئی کتاب خریدی گئی ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1976ء میں اکادمی ادبیات کے نام سے بھی ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد پاکستانی زبانوں سندھی ،سرائیکی ، پنجابی ، بلوچی ، پوٹھوہاری، براہوی اور کشمیری و دیگر کا فروغ تھا مگر یہ ادارہ بھی اردو زبان کی ترقی کا ادارہ بن کر رہ گیا کہ اس ادارے کی نوے فیصد کتابیں اردو میں ہیں ، مجھے آج تک سرائیکی زبان میں شائع ہونے والی کوئی کتاب نہیں نظر آئی ۔ پاکستان کے پالیسی سازوں سے سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے پاکستانی زبانوں کو نظر انداز کیا ۔ 1979ء میں جنرل ضیاء الحق نے اردو زبان کے فروغ کے لئے ’’مقتدرہ قومی زبان ‘‘ کے نام سے ادارہ قائم کیا جس کے مقاصد میں اردو ذریعہ تدریس، اردو کا دفاتر میں نفاذ، اردو لغات کی تیاری، اردو تدریس کیلئے نصاب کی تیاری ، دفتری و عدالتی اصطلاحات کی تیاری ، دستاویزات کے اردو میں تراجم کی تربیت اور مقابلے کے امتحانوںکے لئے انگریزی اصطلاحات میں اردو کے مترادف تیار کرنا شامل تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس زبان کو مذکورہ بالا امور کے لئے تیار کیا جا رہا تھا اس میں پہلے سے وہ چیزیں نہ تھیں ، افسوس کہ 72 سال کا عرصہ اور کھربوں کے وسائل خرچ کرنے کے باوجود بھی اردو میں اتنی وسعت پیدا نہیں ہو سکی کہ وہ درسی و دفتری تقاضوں کو پورا کر سکے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی زبانوں کو ترقی دی جائے جس سے پاکستان کے ادب کو فروغ حاصل ہوگا اور پاکستانی کلچر پاکستانیت کو مضبوط و مستحکم کرے گا، پاکستان میں سندھی واحد خوش قسمت زبان ہے جو سندھ کے تعلیمی اداروں میں بھی پڑھائی جا رہی ہے اور دفتری و عدالتی امور بھی سندھی زبان میں نبھائے جا رہے ہیں اور صوبہ سندھ میں شناختی کارڈ بھی سندھی میں بنے ہوئے ہیں، سندھی ادبی بورڈ ، سندھیالوجی ، سندھ لینگویج اتھارٹی اور سندھ یونیورسٹی ، سندھی زبان و ادب کے فروغ کے لئے دن رات کام کر رہے ہیں ، سرکاری سرپرستی میں پنجابی ، پشتو اور بلوچی ادارے بھی کام کر رہے ہیں ، کوئٹہ سے پی ٹی وی بولان سارا دن بلوچی نشریات دیتا ہے مگر ان کو وسعت دینے کی ضرورت ہے ، سرائیکی محرومی کا شکار ہے، یہ زبان چاروں صوبوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔سوال اتنا ہے کہ اردو اکیڈمی ، اردو کالج ، اردو یونیورسٹی اور اردو بازار جائز ہیں تو سرکاری سطح پر سرائیکی ادبی اداروں سے انحراف کیوں؟۔