یوم آزادی سے ایک روز قبل نومنتخب اراکین قومی اسمبلی نے آئین اور ریاست سے وفاداری کا حلف اٹھایا۔ 14 اگست برصغیر کے مسلمانوں کی آرزوئوں کا مظہر ہے۔ اس روز ہم نے بطور قومی عالمی برادری میں سرفرازی پانے کا سفر شروع کیا تھا۔ آج پاکستانی قوم ایک بار پھر تازہ دم ہو کر منزل کی طرف رواں ہورہی ہے۔ سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین نے بھی حلف اٹھایا کہ وہ ریاست کی طرف سے تفویض کی گئی ذمہ داریوں کو خلوص نیت سے پورا کریں گے۔ نومنتخب ارکین نے 1973ء کے جس آئین کے تحت حلف اٹھایا ہے وہ واضح کرتا ہے کہ مملکت خداداد پاکستان خدا تعالیٰ کی امانت ہے۔ ریاست کے حکمران جن اختیارات کو استعمال کریں گے وہ عوام کے دیئے ہوئے ہیں۔ نئی اسمبلی کے پہلے روز ایوان کی فضا خاصی پرامن اور ایک دوسرے کے لیے خیرسگالی پر مبنی دکھائی دی۔ پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کی قیادت کے ساتھ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مصافحہ کیا۔ سپیکر ایاز صادق سے شدید سیاسی اختلافات کے باوجود عمران خان نے حاضری لگاتے ہوئے پرجوش انداز میں ہاتھ ملایا۔ اس بار میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی، آفتاب شیرپائو، محمود اچکزئی، امیر مقام، طلال چودھری، دانیال عزیز اور دیگر کئی لوگ ایوان کا حصہ نہ بن سکے۔ پہلے دن جو ماحول دیکھنے کو ملا وہ جاری رہا تو قوم کو لاحق مسائل پر سنجیدہ آراء اور تجاویز سامنے آنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کا حصول کس طرح ممکن ہوا اور ہمارے آباء نے اس کے لیے کیا قربانیاں دیں یہ ہماری قومی تاریخ کا حصہ ہے۔ ہم نے پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لیے کیا خدمات انجام دیں یہ آج کا سوال ہے۔ ایک طویل عرصہ تک سٹیٹس کو کے شکنجے میں رہنے کے بعد پاکستان کے عوام ایسی حکومت کے منتظر ہیں جو موروثی اور خاندان اجارہ داری سے پاک ہو گی۔ یوم آزادی کے موقع پر سیاسی آزادی کا بھرپور احساس ایک لازوال خوشی ہے جس نے پوری قوم کو متحد ہو کر آگے بڑھنے کی راہ دکھائی ہے۔ ستر برس تک ہم ایسے نظام کو برداشت کرتے آئے ہیں جو عوامی خواہشات کے خلاف تھا۔ کئی فوجی حکومتوں کے طویل دورانیے رہے۔ پھر جمہوریت کے نام پر جو حکومتیں بنیں ان کا تعلق عوام کی بجائے حکمران اشرافیہ کے مفادات کی حفاظت سے رہا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی طرح علاقائی اور چھوٹی جماعتیں بھی مخصوص مفادات کی اسیر بن کر رہ گئیں۔ عوام کو امن و امان کی بہتری درکار تھی، بدعنوانی ہر شعبے میں سرایت کر چکی تھی، جرائم پیشہ افراد با اختیار بن کر لوگوں کی جان، مال اور آبرو کے لیے خطرہ بن رہے تھے۔بہتر تو یہی ہوتا کہ نئی منتخب اسمبلیاں چودہ اگست کو حلف اٹھاتیں یا پھر وزیر اعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ اس مبارک دن اپنے عہدے کا حلف اٹھا کر قومی خدمت کا آغاز کرتے مگر بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ اراکین پارلیمنٹ کے سامنے اپنی ساکھ بہتر بنانے کا چیلنج موجود ہے۔ سماجی سطح پر یہ تصور پختہ ہو چکا ہے کہ اسمبلیوں میں وہ لوگ جاتے ہیں جو موروثی حاکمیت سے وابستہ ہیں یا پھر آسان ذرائع سے ڈھیروں دولت جمع کرنے کے بعد ووٹ خریدتے ہیں۔ اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد سیاست کو عوامی خدمت کی بجائے ذاتی کاروبار اور معاشی اختیار میں اضافے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ تھانے، کچہری اور محکمہ مال میں اس وقت تک کام نہیں ہوتا جب تک رکن اسمبلی کی سفارش نہ ہو، ہسپتالوں میں جاں بہ لب مریض کا اس وقت تک علاج شروع نہیں ہوتا جب تک کوئی سیاستدان اس کی سفارش نہ کرے۔ تعلیمی اور تفریحی سہولیات بھی سیاستدانو ںکی سفارش سے منسلک ہو چکی ہیں۔ ان حالات میں عوام سیاستدانوں کو اپنا مددگار نہیں بلکہ ایسا شخص سمجھنے لگے ہیں جو جان بوجھ کر مسائل پیدا کرتا ہے تا کہ لوگ اس کے پاس درخواست لے کر آتے رہیں۔ عوام کی بڑی تعداد اس طرز سیاست اور سیاستدانوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے پولنگ سٹیشنوں پر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ شاید ہی کبھی 55فیصد سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے ہوں۔ نو منتخب اسمبلی میں اکثریت نوجوان اور متحرک افراد کی ہے۔ یہ نوجوان سیاست کے مقاصد کو نئے سرے سے ترتیب دینا چاہتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں موجود افراد نے اپنے آئینی کردار کو پس پشت ڈال کر سابقین سا طرز عمل اختیار کیا تو جمہوریت اور ووٹ پر یقین رکھنے والے بددلی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں پارلیمنٹ کی بالادستی کا نام بہت لیا جاتا ہے۔ یقیناً یہ کسی اعلیٰ اقدار کے مالک سماج میں مثالی تصور ہو گا لیکن ہمارے ہاں پارلیمنٹ کا کام مخصوص خاندانوں کے جرائم کا تحفظ رہا ہے۔ اس وجہ سے عوام تک جمہوریت کے فوائد نہیں پہنچ سکے۔ عمران خان اپنی سیاسی جدوجہد میں جمہوریت کی مثالی شکلوں کا حوالہ دیتے رہے ہیں۔ اب جبکہ ان کو مرکز اور تین صوبوں میں حکومت سازی کا موقع مل رہا ہے تو ستر سال کی خرابیاں سامنے آ کھڑی ہوئی ہیں۔ کئی طرح کے گروہ خود کو کمزور ہوتا دیکھ کر ملک اور قوم کی خود مختاری اور آزادی کی علامتوں کو متنازع بنانے پر تل گئے ہیں۔ اختلاف رائے کو طاقت سے دبایا جاتا رہا ہے۔ نئی آزادیوں میں اختلاف رائے ظاہر کرنے کی سہولت موجود ہے لیکن اس بات میں امتیاز ضرور کیا جانا چاہیے کہ تنقید اصلاح کے پیرایہ میں ہو اور اس میں ایسا مواد نہ ہو جو دشمن کے مقاصد پورے کرتا ہو۔ اداروں پر تنقید سے قبل سیاستدانوں کو خود میں ایسی صلاحیتیں پیدا کرنا ہوں گی جو لوگوں کو ان کی بات پر بھروسہ پر مائل کر سکیں۔ ہمارے ہاں میثاق جمہوریت، سیاسی مفاہمت اور ایسے دیگر دلکش نعرے خاصے مقبول رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان معاہدوں اور تصورات نے عوام کی زندگی میں گھلی تلخیوں کو کم نہیں کیا۔ میثاق جمہوریت کا مطلب ایک دوسرے کے گناہوں اور خرابیوں سے چشم پوشی ہے، مفاہمت کا مطلب ہر مخالف کو ریاستی وسائل کی لوٹ مار کی اجازت دے کر اسے حامی بنانا اور این آر او کا مطلب سب کے جرائم پر مٹی ڈال کر انہیں پھر سے جرائم کرنے کی آزادی دینا ہے۔ حالیہ انتخابات میں عوام نے ووٹ کے ذریعے بتا دیا ہے کہ وہ کس طرح کے لوگوں کو اپنا نمائندہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ چودہ اگست یوم آزادی کے طور پر منایا جاتا رہا ہے۔ اس بار پاکستان کے عوام اسے جمہوری تبدیلی اور استحکام کی خواہش کے ساتھ منا رہے ہیں۔ پاکستان میں جمہوری شعور میں اضافہ ہوا ہے۔ ہمیں خطے کے ممالک سے تعلقات استوار کرتے ہوئے عوامی خواہشات اور قومی مفاد کو اہمیت دینا ہو گی۔ سیاست کو بدعنوانی سے پاک کرنا ہو گا۔ ترقی کے مواقع خاص طبقے تک محدود رکھنے کے بجائے سب کے لیے مساوی ہونے چاہئیں۔ یوم آزادی نوجوان افراد کی اکثریت والے پاکستان سے مطالبہ کرتا پی آئی اے میں سات ارب کی مالی بے ضابطگیاں قومی ایئر لائن پی آئی اے کی آڈٹ رپورٹ میں 7ارب روپے کے ہیر پھیر کا انکشاف ہوا ہے آڈیٹر جنرل پاکستان نے سپریم کورٹ کے حکم پر قومی ایئر لائن میں مالی بے ضابطگیوں کی چھان بین شروع کر دی ہے اور اس حوالے سے سی پی او پی آئی اے کو خصوصی مراسلہ جاری کر دیا گیا ہے۔ مراسلے میںپی آئی اے انتظامیہ کو 10سالہ ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ’’باکمال لوگ لاجواب سروس‘‘ اور ’’گریٹ پیپل فلائی ود پی آئی اے‘‘ جیسے سلوگنوں کی علمبردار قومی ایئر لائن پی آئی اے کو گدھوں کی طرح اس طرح نوچا گیا ہے کہ کوئی دن ہی ایسا گزرتا ہو گا کہ جب اس کے زوال کی داستان اخباروں کی زینت نہ بنتی ہو۔ 60ء کی دہائی میں اصغر خان اور نور خان جیسے قومی ہیروز نے پی آئی اے کو رفعتوں سے ہمکنار کیا اور بعد میں آنے والوں نے کبھی نجکاری، کبھی سیاسی بھرتیوں اور کبھی اقربا پروری سے اس کا بیڑا غرق کر دیا اور آج پی آئی اے سب سے زیادہ خسارے میں جانے والا ادارہ بن چکا ہے اور امریکہ سمیت متعدد ملکوں کے لیے اس کی پروازیں بند ہو چکی ہیں، مسافر اس سے اس قدر نالاں ہیں کہ اس کی کارکردگی لطائف کا روپ دھار چکی ہے، پی آئی اے پاکستان کی ترقی کا علامتی ادارہ تھا جسے مل کر لوٹا گیا ہے، یہ لوگ صرف اس ادارے کے ہی نہیں قوم کے بھی مجرم ہیں، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی وقار کی علامت اس ادارے میں ہونے والے تمام گھپلوں کو طشت ازبام کیا جائے اور اسے لوٹنے والوں سے پائی پائی کا حساب لیا جائے اور پی آئی اے کو پھر سے ماضی کی طرح کاباوقار ادارہ بنانے کی سعی کی جائے ۔ ہے کہ اس ملک کو قائد اعظمؒ کا پاکستان بنانے کا وقت آ گیا ہے۔