اپنا مسکن مری آنکھوں میں بنانے والے خواب ہو جاتے ہیں اس شہر میں آنے والے شکریہ تیرا کہ تو نے ہمیں زندہ رکھا ہم کو محرومی کا احساس دلانے والے عمران خاں کے اس فقرے پر بہت لے دے ہو رہی ہے کہ ’’سکون تو صرف قبر میں ہی ہے‘‘ اصل میں اس بات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر مضحکہ خیز بنا دیا گیا۔ وگرنہ خان صاحب کا مقصد یہ نہیں تھا بلکہ وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ زندگی تو کوشش اور جدوجہد کا نام ہے۔ یا پھر آپ اسے ساغر کی زبان میں جبر مسلسل کہہ لیں یا پھر غالب کی طرح طرحدار بات کر جائیں کہ ’’موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں‘‘ حسرت موہانی کی طرح میں لکھی ایک ہماری غزل میں بھی ایک شعر تھا: آرام کا نہ سوچ تو جب تک کے سانس ہے اک دن اتر ہی جائے گی تیری تھکن تمام کچھ شرارتی لوگوں نے سانس کا نقطہ غائب کر کے اسے ساس بنا دیا۔ مطلب پھر بھی نہیں بدلا۔ جو لذت سفر میں ہے وہ منزل میں کہاں! ’’چلنا چلنا مدام چلنا‘‘ کیا اچھا کہا تھا خالد احمد نے ’’پائوں میں بیڑیاں نہیں خالد۔ حلقۂ اختیار سا کچھ ہے‘‘ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ خان صاحب نے تو سعی کی ترغیب دی جو فارغ بیٹھا ہے وہ بے معنی ہے، جو سویا ہوا ہے وہ موت کی ہی کیفیت میں ہے۔ بیداری ہی اصل میں زندگی ہے۔ یعنی خواب بھی وہ دیکھو جو سونے نہ دے۔ ہم رہروانِ شوق تھے منزل کوئی نہ تھی منزل بنے ہیں نقش ہمارے دھرے ہوئے نبیٔ آخرالزماں نے فرمایا تھا ’’جس کا آج کل سے بہتر نہیں وہ اپنے آپ پر غور کرے‘‘۔ اس مفہوم پر غور کرتے جائیے۔ یہاں حکمت کی بات تلاش کریں گے تو حکمت کو سمجھنا پڑے گا کہ القرآن میں کہا گیا کہ جسے حکمت دی گئی اسے خیر کثیر عطا کی گئی۔ کچھ کچھ یہ بات بھی دیکھنے والی ہے کہ کہا گیا مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ سیدھے الفاظ میں بھائی جان یہ جو منزل من اللہ ہے یہی تو حکمت ہے۔ ہم پتہ نہیں کہاں ٹامک ٹوٹیاں مارتے پھر رہے ہیں۔ ہماری جدوجہد کی سمت نمائی بھی تو ضروری ہے۔ بات اللہ کی ہو اور مرضی اپنی، یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ شاید میں ثقیل بات کر گیا ہوں مگر بن کثافت لطافت بھی تو نہیں، نہ سبزہ نہ آئینہ۔ آئینہ لفظ سے مجھے ایک اور واقعہ یاد آ گیا جس میں نکتہ آفرینی موجود ہے۔ پیر نصیرالدین گولڑوی نے بیان میں بتایا کہ مغل شہزادی زیب النسا نے اپنی ملازمہ کو آئینہ اٹھا لانے کو کہا جو چین سے تحفہ آیا تھا اور وہ بہت مہنگا تھا۔ ملازم کو ٹھوکر لگی، آئینہ اس کے ہاتھ سے گرا اور ٹوٹ گیا۔ اتفاق یہ کہ زیب النسا کی ملازمہ بھی کوئی عام ملازمہ نہیں تھی۔ اس نے اپنی بے بسی اور خوف میں ایک شعر نہیں ایک مصرع موزوں کر دیا: از قضا آئینۂ چینی شکست زیب النسا بھی کوئی عام شہزادی نہیں تھی اس نے ناراض ہونے کی بجائے فوراً مصرع اٹھایا اور دوسرا مصرع لگا کر شعر مکمل کر دیا۔ از قضا آئینۂ چینی شکست خوب شد سامان خود بینی شکست (مقصد یہ کہ آئینہ قدرت کی منشا کے مطابق ٹوٹا۔ اس چینی آئینہ کی تقدیر تھی۔ اچھا ہوا خود بینی کا سامان نہیں رہا) آپ سوچتے جائیے کہ خود بینی سے نکلنا، خود سے بلند ہو کر سوچنا ہی اصل زندگی ہے۔ آپ کو دیکھنے والا ہر ادا میں آپ کو چاہے گا۔ آئینہ تو دل کا صاف رکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے ایک اور شاعر کا شعر پڑھا تو بات دو آفشہ ہو گئی: آئینہ پھینک دے کہ تماشہ نہ چاہیے تو چاہے جسے اسے تجھ سا نہ چاہیے بات تو خوبصورت ہے کہ آئینے میں تو مثل ہوتی ہے۔ آپ تو آئینے سے باہر ہوتے ہیں۔ محبتوں میں تو آئینے بھی بعض اوقات آئینے نہیں رہتے۔ مندرجہ ذیل شعر کا لطف اٹھائیے: محبتوں میں تعصب تو در ہی آتا ہے ہم آئینہ نہ رہے تم تو روبرو کر کے اب آگے کی بات جو عمران خان نے کہی کہ وہ نوکریاں نہیں دے سکتے تو یہ بھی اچھا کہا کہ آخر انہوں نے سچ بول دیا۔ وہ جو کسی نے کہا تھا ’’کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے‘‘ ابھی تو وہ بجلی اور مہنگی ہونے پر کہنے والے ہیں کہ بجلی پر کسی کا بس نہیں کہ یہ کب کس پر گر پڑے۔ ایسے پٹرول جب مرضی گرانی کی آگ پکڑ لے۔ گیس بھی اسی مد میں آتی ہے کہ وہ بھی اہم ہے۔ خان صاحب نے یہ بھی کتنی بڑی آفاقی سچائی بیان کر دی کہ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنا صرف کہانیوں میں ہے۔ کہانیاں بھی زیادہ تر دُکھ بھری ہوتی ہیں۔ خوشی صرف خیالی پلائو میں ہے جو خان صاحب نے کنٹینر پر خوب پکایا تھا۔ بہرحال خان صاحب آرام سے نہیں بیٹھے ہوئے اور ان کی وجہ سے دوسرے بھی آرام میں نہیں۔ اب ایک اور کام کے پیچھے وہ نکلے کہ ریلوے کی زمین بیچ کر انہیں کمرشل بنائیں۔ ظاہر ہے یہ کام پچھلی حکومتوں سے رہ گیا تھا۔ یہ سب فلاحی کام ہو رہے ہیں کہ ان کا قوم سے یہ وعدہ ہے۔ اس سے پہلے آرام گاہیں یا پناہ گاہیں بن چکیں۔ وہ بھی پبلک سیکٹر میں آئیں گی کہ انہیں بنائیں گے لوگ مگر افتتاح خان صاحب کریں گے۔ ہر جگہ ریونیو جنریٹ ہو رہا ہے۔ اورنج ٹرین کے بارے میں فیصلہ ہوا کہ 40روپے ٹکٹ ہو گا مگر یہ چلے گی پھر بھی نہیں کہ اس کا حال سی پیک ہی کے سائے میں ہے۔ کام کی باتیں چھوڑیے ڈھنگ کی باتیں بھی نہیں ہیں۔ ایک سے ایک نابغہ خان صاحب کے پاس ہے۔ ایک فواد چودھری ہی کو دیکھ لیں۔ بقول منیر نیازی بعض لوگ صرف منہ کھول دیتے ہیں اور باتیں اس سے خود بخود برآمد ہوتی رہتی ہیں۔ واپس آتے ہیں سکون والی بات کی طرف کہ سکون تو صرف قبر ہی میں ملے گا۔ یہ بات خان صاحب کی دل کو لگتی ہے۔ بعض لوگ تو ہم نے ایسے بھی دیکھے جو زندگی ہی میں ایک قبر نما کمرہ بنا کر اس میں رہنے کی تپسیاکرتے دیکھے گئے۔ ویسے بھی قبر کو یاد رکھنا چاہیے۔ قبر ہی کیا قبرستان سے زیادہ پرسکون کون سی جگہ ہو سکتی ہے یہ جہاں نہ شور شرابا سے نہ طعن نہ غیبت اور نہ دوسرے معاملات۔ نہ جانے اچانک میرے ذہن میں امرتا پریتم کیوں آ گئی کہ جسے مدد کے لیے قبروں کی طرف دیکھنا پڑا ’’اج اکھاں وارث شاہ نوں، توں قبراں وچوں بول‘‘ ایک شعر کے ساتھ اجازت: اس زندگی کا سانحہ کتنا عجیب ہے ہم دیکھتے ہیں موت کو لیکن کسی کے ساتھ