9 اپریل 2022ء کو قومی اسمبلی کا اجلاس رات کے دوسرے پہر کو چیرتے ہوئے گھڑیال کی ٹن ٹن کے ساتھ کیلنڈر پر 10 اپریل میں داخل ہوگیا۔ پورے ملک کی سڑکوں پر سناٹا طاری تھا۔ اس رات کیا ہونے والا تھا؟ صحافیوں، باخبر حلقوں اور اس سکرپٹ لکھنے والوں کو سارا علم تھا کہ کیا ہو رہا ہے؟ پوری ملک میں سناٹا طاری تھا، اقتدار کے کھیل کو 75 سالوں سے انجوائے کرنے والوں کو البتہ احساس ہو رہا تھا کہ میدان میں مد مقابل کھلاڑی کے اعصاب بہت مضبوط ہیں۔ پورے ملک کے برعکس شہر اقتدار میں بھونچال برپا تھا۔ رات کو سرکاری سکارڈ کے سائرن کی آوازیں خاموشی کو توڑتی رہیں، رات کی عدالتیں لگیں، مختلف اطراف سے انقلابی بیانات کی گونج نعروں کی صورت میں سامنے آئی، پورے ملک کے جمہوریت کے دعویدار یک جان اور یک سوار ہوچکے تھے، ان کی صفیں بھی ایک صف میں تبدیل ہوچکی تھیں، وہ 14 اگست 1947ء سے بیوقوف بنتی قوم پر اپنے ماہرانہ طرز عمل کے نشتر سے تابڑ توڈ حملے کررہے تھے۔ ملک بھر کا میڈیا، چند کے سوا وہی سکرپٹ رپورٹ کر رہا تھا جو انھیں یا تو پہلے سے دیکھایا اور پڑھایا جا چکا تھا ۔ جسے محض "انھوں نے کہا" کی گردان کرنے والے میڈیا کے پاس اور کچھ رپورٹ کرنے کو نہیں تھا، اس رات ویسے تو بہت کچھ ایسا ہوا اور ہوا ہوگا، جسے تاریخ اپنے دامن سے ایک نہ ایک دن ضرور اگل دے گی۔ لیکن دو کام ایسے ضرور ہوئے؛ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکمران اتحاد ریزہ ریزہ ہو کر مخالف سمت میں جا بیٹھا، تمام تر ہنگامہ آرائی کے بعد اعصاب شکن مراحل نے سب کو تھکا دیا، کمان کیسٹوڈین ہاؤس مقرر کر کے ایک عالم دین کی سربراہی میں قائم کردہ پی ڈی ایم اتحاد کے ممبر ایاز صادق کے سپرد کر دی گئی، وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے بعد مخالف نعروں کی گونج میں منظور کر لی گئی۔ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے تمام اراکین اسمبلی سے چلے گئے، عدم اعتماد کی تحریک منظور کرنے کے بعد تمام پی ڈی ایم اتحاد کی 13 جماعتوں کے سربراہوں نے باری باری لمبی لمبی تقاریر کیں، اب پی ٹی آئی کیونکہ سابقہ حکمران جماعت بن چکی تھی اور اسے اسی اجلاس میں ابھی ابھی وزیراعظم عمران خان پر عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کی صورت میں اقتدار سے اتارا گیا تھا، لہذا تند و تیز تنقید ہوتی رہی، دنیا کا شائد ہی کوئی ایسا الزام تھا یا ملک میں اس کے قیام سے اس وقت تک شائد ہی کوئی ایسا مسئلہ یا بحران تھا، جس کا الزام عمران خان اور پی ٹی آئی حکومت کے سر تھونپا نہیں گیا اس دوران قومی اسمبلی میں سابقہ حکومتی بنچز ویران ہوچکے تھے، ایک شخص مگر ان بنچز میں ایک بینچ پر چھاتی تان کر بیٹھا تھا، اس کے چہرے پر اطمینان تھا، آنکھوں میں چمک تھی، یہ شخص علی محمد خان پاکستان تحریک انصاف کا قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر تھا، اس شخص نے اس رات تاریخ رقم کردی، جب اس کا خطاب شروع ہوا تو ملک کی سیاست کو انجوائے کرنے والوں کا مذا کرکرا ہوگیا، قومی اسمبلی میں سناٹا طاری ہوگیا، اس تن تنہا شخص کے جذبہ اور شعلہ نوائی نے 13 جماعتی حکومتی اتحاد کو ایک مرتبہ پھر جذباتی ہونے اور بڑھکنے پر مجبور کردیا، وہ شور و غوغا کر کے اسے خاموش کروانے کی کوشش کرتے رہے، یہ بھی مگر ایسا مرد نر تھا کہ بات مکمل کر کے ہی تھما! موجودہ حکمران پی ڈی ایم اتحاد اس رات سے اب تک مسلسل اسی گھبراہٹ میں ہر لمحہ، ہر موقع اور ہر روز تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، اس جماعت کے دیگر رہنماؤں اور ان کے حامی عوام کو دبانے میں مصروف ہے لیکن کامیاب نہیں ہو پارہا بلکہ مسلسل ناکامی کا منہ دیکھ رہا ہے، اس رات دوسرا کام یہ ہوا کہ عدالتیں کھلنے کے علاؤہ پولیس وین وغیرہ کی اطلاعات کی خبروں اور تمام تر ہنگامہ خیزیوں کے بعد عمران خان وزیراعظم ہاؤس سے ایک ڈائری ہاتھ میں تھام کر ایک سوال چھوڑتے ہوئے چل دئیے کہ کوئی رہ تو نہیں گیا جو میرے خلاف نہ ہو؟ پورے ملک میں سناٹے کا راج تھا، شہر اقتدار کی ہنگامہ خیزیاں مگر عوام ٹی وی سکرینوں پر دیکھ رہی تھی اور اس طرح پورے ملک میں عوام کے ذہنوں میں چاہے وہ پی ٹی آئی حامی تھے یا مخالف، شور برپا تھا، جاندار تجزیہ نگاری کہ عمران خان نے جو کچھ کردیا ہے، وہ آئندہ بھی اقتدار میں نہیں آسکیں گے، ان جملوں نے عوام میں اشتعال پیدا کردیا، ماہ مقدس رمضان المبارک ہونے کے باوجود اگلے روز افطار کے فوراً بعد ملک کے تمام شہروں میں بغیر کسی احتجاجی کال کے عوام سڑکوں پر نکل ائی، ملکی سیاست میںنئی انگڑائی لے چکی تھی، سکرپٹ لکھنے والوں نے اسے کچلنے کا فیصلہ کیا، اندھی طاقت استعمال میں لائی گئی، سول سوسائٹی، صحافیوں، سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں کی جانے لگیں مگر کوئی فائدہ نا ہوسکا، عمران خان کا ہر جلسہ پہلے جلسے کا ریکارڈ توڑتا رہا، ملک کے عوام کی اکثریت نے اپنا فیصلہ سنا دیا، اسے منوانے کیلئے لانگ مارچ کا اعلان ہوا، 25 مئی کی بدترین ظلم و بربریت سامنے آئی اور تمام 13 جماعتوں کے چہروں پر چڑھا جمہوریت کا ماسک اتر گیا، پھر لانگ مارچ شروع کیا گیا تو عمران خان پر وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ ہوگیا، اس حملے کے بعد کے سارے حقائق ہمارے سامنے ہیں، تاہم عمران خان نے زخمی حالت میں اس لانگ مارچ کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے: اس نظام کا مذید حصہ نہ بننے، پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا، جس کے بعد سازشوں، دھمکیوں، بولیوں، دھونس، دھاندلی کا ایک نیا دور شروع ہوا مگر اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد پرویز الہی نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کردئیے، نواز شریف اور ن لیگ تاحال عوام کا فیصلہ نہیں سمجھ پا رہے، یہی پی ڈی ایم حکومت کی ناکامی کی بنیادی وجہ ہے، ن لیگ اب بھی نہ سمجھی تو پنجاب میں اگلی پیپلز پارٹی بن جائیگی، عوام کی محرومی دیکھیے، ناراضگی دیکھیے، بغاوت دیکھیے اور فوری طور پر انتخابات کی طرف بڑھیے، وہ ایک رات عوام کے ذہنوں کو تبدیل کر کے معاشرے کو انگڑائی دے چکی ہے، مذید اٹکل پچو بننے سے کام نہیں چلے گا!