چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی کے 186ارکان سے اعتماد کا ووٹ لے کر بتا دیا کہ لاہور میں دوسری بار ڈیرے لگانے والے آصف علی زرداری اور اسلام آباد سے آ کر پنجاب حکومت لے کر جانے کی خواہش مند نواز لیگی قیادت کو وہ ٹکر دے سکتے ہیں۔چودھری پرویز الٰہی کی دوسری بار کامیابی پر میں فوری لکھنا چاہتا تھا لیکن کچھ معلومات کا انتظار تھا۔دیکھنا تھا کہ ناکام رہنے والے اپنے طوفانی دعووں کا ٹھوٹھا الٹ جانے کے بعدسوالات کا سامنا کیسے کرتے ہیں۔ پرویز الٰہی کو اس بار دو طرفہ محنت کرنا پڑی۔ وہ جانتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے حملے کو روکنے کے لئے کہاں اور کن لوگوں سے بات ہو سکتی ہے۔ وہ عمران خان کو بہت سی باتوں پر قائل کرنے میں کامیاب رہے۔عمران خان کو جاننے والے بتا سکتے ہیں کہ وہ اپنے معاملات میں عام طور پر بے لچک ہیں۔سیاست میں ان کی ناکامی اور کامیابی دونوں کا انحصار اسی بے لچک رویے پر رہا ہے۔ وہ اپنے قریبی احباب کی چھوٹی چھوٹی شکایات پر کبھی نرم نہیں پڑے جس سے دوست ان سے دور ہوتے گئے۔وہ کرپشن کے خلاف اپنے موقف سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے جس سے ان کی مقبولیت برقرار رہی۔ پرویز الٰہی عملیت پسند ہیں۔انہوں نے چند ماہ میں اہل پنجاب کی شکائتیں دور کر دیں۔ مسلم لیگ ن کی یہ بڑی سیاسی غلطی رہے گی کہ اس نے عثمان بزدار حکومت ختم کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا۔عثمان بزدار وزیر اعلیٰ رہتے تو پنجاب میں مسلم لیگ سیاسی طور پر مقبول ہو چکی ہوتی۔ رانا ثناء اللہ اور عطا تارڑ دو روز تک پنجاب اسمبلی جا رہے تھے۔ان کی اسمبلی آمد پر ایک خاص ماحول بنایا گیا۔یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ مسلم لیگ ن کی چند خواتین ارکان ان دونوں وفاقی نمائندوں کے ساتھ مل کر پرویز الٰہی حکومت کو چلتا کریں گی۔ ہنگامہ آرائی اور اشتعال پیدا کر کے گورنر راج کا ماحول بنانے کی منصوبہ بندی ہوئی ۔رانا ثناء اللہ نے تو خیر یہ بیان بھی جاری کر دیا کہ ’’پنجاب حکومت لئے بنا اسلام آباد واپس نہیں جائوں گا؟پنجاب حکومت تو نہیں ملی اب وہ جانے کس ویرانے کی طرف منہ کر جائیں۔عطا تارڑ پی ٹی آئی کے بعض اراکین کا سفری ریکارڈ اور گوگل لوکیشن نکالے بیٹھے تھے۔پچھلے دنوں میں کٹاس راج چکوال گیا۔واپسی پر دیکھا تو گوگل میری لوکیشن اگلے دن صبح تک چکوال بتا رہا تھا۔شائد عطا تارڑ کے گوگل نے بھی ایسا ہی گمراہ کیا۔تاہم اس سے ایک بات سمجھ میں آئی کہ مسلم لیگ ن نے جن پتوں پر تکیہ کر رکھا تھا وہی ہوا دے کر اس کے وعدوں کے جال سے اڑ گئے۔ اعتماد کا ووٹ لینے کی حکمت عملی انتہائی خفیہ رکھی گئی۔ہنگامی فیصلے کے بعد رحیم یار خان سے پی ٹی آئی کے ایم پی اے عامر چانڈیا اور چکوال کے عمار یاسر کو بدھ کی رات خاموشی سے لاہور لایا گیا۔پانچ ارکان ووٹ دینے نہ آسکے۔ ان کے خلاف پی ٹی آئی نے نا اہلی کی کارروائی شروع کر دی ہے ۔مسلم لیگ ن کے ایک سینئر رکن جو سابق وزیر خزانہ ہیں‘ انہوں نے پنجاب اسمبلی کا دروازہ توڑ دیا‘ وہی ن لیگی جو عدالت کو کہہ رہے تھے کہ پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لیں، ووٹنگ کے دوران شور شرابا کرتے رہے۔ دکھائی دیتا ہے کہ ملکی سیاست میں نئے رجحانات پروان چڑھنے کو ہیں۔ یہ پہلی بار دیکھا گیا کہ وفاق اور سندھ حکومت نے پنجاب میں سیاست کو اپنے حق میں کرنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن ان کے ہاتھ کچھ نہ آ سکا۔ مجھے ایک نکتہ بار بار متوجہ کرتا ہے۔یہ نکتہ اس وقت سے ذہن سے چپکا ہوا ہے جب پی ڈی ایم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے مشورے کر رہی تھی۔ایسے ہی ایک اجلاس میں آصف علی زرداری نے رانا ثناء اللہ کو نئی حکومت کا وزیر داخلہ بننے کی پیشگی مبارکباد دیدی۔ رانا ثناء اللہ کا کردار اہم رہا ہے۔ تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو روکنے کے لئے پنجاب پولیس اور وفاقی ایجنسیوں نے جس طرح کردار ادا کیا اس کے پیچھے رانا ثناء اللہ تھے۔ارشد شریف کی شہادت ہوئی اور عمران خان پر حملہ ہوا تو ملزموں میں رانا ثناء اللہ شمار ہوئے ۔ رانا ثناء اللہ کو اعظم سواتی‘ شہباز گل اور دیگر واقعات میں بھی ملوث بتایا جاتا ہے۔آصف علی زرداری کیا ان امور میں شریک سمجھے جائیں یا پھر یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ مستقبل کی سیاست میں پی ٹی آئی کو مقبول رکھنے کے کسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ پی ٹی آئی نے وفاق میں حکومت گنوانے کے بعد کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پہلی کامیابی اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت دوبارہ حاصل کی‘ دوسری کامیابی پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کی صورت میں سیاسی آزمودہ کار اتحادی ملے‘ تیسری کامیابی ضمنی انتخابات میں کامیابی اور چوتھی کامیابی اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے وفاداری کا بے مثال اظہار۔ پچھلے نو مہینوں کے دوران پی ڈی ایم کی دو جماعتوں جے یو آئی اور پی پی پی نے نظام میں اپنے لئے گنجائش پیدا کی ہے۔مسلم لیگ ن نے اپنا زور عمران خان کو دبانے پر لگایا۔اس بار زمینی حقائق بدل چکے ہیں اس لئے ہر وار الٹا پڑ رہا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے ٹوٹنے سے تاثر مسلم لیگ ن کی شکست اور تحریک انصاف کی فتح کا بنا ہے ۔ الیکشن صرف پنجاب اور کے پی کے اسمبلی میں ہوں اس فتح کے ثمرات پی ٹی آئی کو پہنچیں گے ۔ نواز لیگ کو اگر پنجاب نہیں ملتا تو پورے ملک میں اسے کسی جگہ حکومت کی توقع نہیں رکھنی چاہئے ۔ ایک بات جس کا ادراک سبھی جماعتوں کو کر لینا چاہئے کہ اپنی صفوں سے گالم گلوچ اور بد تمیزی کرنے والے افراد کو اب نکالنا ہو گا ،دوسرا اسٹیبلشمنٹ خود کو انتخابی جوڑ توڑ سے دور کر چکی ہے ،اب فیصلہ عوامی مقبولیت سے ہو گا ۔عوام کیا چاہتے ہیں اس بات کو اہمیت دینا ہو گی۔ ٭٭٭٭