میرے وہ دوست اب بھی حیات ہیں اور کراچی میں ہیں اللہ انہیں صحت اور ایمان والی لمبی زندگی دے جب میں کراچی میں ہوتا تھا تو وہ مجھے میرے دفتر سے لیتے اور کلفٹن کے ساحل کے ساتھ ساتھ بچھی سڑک پرآجاتے ،کار کے شیشے گرا دیئے جاتے، رفتار بالکل کم کردی جاتی اور اسکے بعد وہ بولنا شروع ہوجاتے۔وہ جہاندیدہ آدمی ہیں۔حالات واقعات کے تجزیئے میں انہیں کمال حاصل ہے۔ سیدزادے مہاجرین وطن کی اس پیڑھی سے ہیںجن کے پرکھوں نے پاکستان کے لئے بھرے پرے گھرچھوڑے اور گود کے بچے لے کر چلے آئے،ان سے زیادہ محب وطن کون ہوسکتا ہے ؟ لیکن سیاست کی نیرنگیاںمحرومیوں اور شکایات کے ساتھ مل کر انہیں بھی پاکستان کے سامنے کھڑا کرنے کو تھیںکہ ان کی جیسے آنکھ کھل گئی اور وہ ہوش میں آگئے۔کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کے اردو داں طبقے کی تحریک جسے مہاجر قومی موومنٹ کا نام دیا گیا ۔ ایک سیلاب ہی تھا جس میں اردو بولنے والے تقریبا بہہ گئے ۔کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا طوطی بولنے لگا۔الطاف حسین نے بانیان پاکستان کی اولادوں کو ایک قوم قرار دیا۔ ایم کیو ایم کے مطابق کوئی بھی اردو بولنے والا خوا ہ وہ کسی بھی مسلک عقیدے علاقے کا ہو۔ وہ مہاجر قوم کا حصہ تھا لسانیت کا جادوایسا ظالم تھا کہ لوگوں کے سروں پر چڑھ کر بولنے لگا تھا۔میرے اسی دوست کے سر پر بھی یہی جادو جا چڑھا تھا وہ تو جب انہوں نے ایم کیو ایم کے کرتوت دیکھے تو دبے قدموں پیچھے کھسکنا شروع ہوگئے پھر اس کے بعد وہ سیاست میں سرگرم نہیں ہوئے ،ایک دن وہ مجھے اسی طرح کلفٹن لے گئے اور باتوں باتوں میں کہنے لگے احسان! یقین کرو گے ہم ایسے شدید قسم کے قوم پرست ہوگئے تھے کہ جب آپس میں کہیں ملتے تو سلام نہیں کرتے تھے بلکہ جئے مہاجر کہا کرتے تھے۔ مجھے اپنے دوست کی وہ ملاقات بلتستان کے قوم پرست لیڈر حید ر شاہ رضوی کے بیٹے مہدی شاہ کے اعترافی بیانات سے یادآگئی۔ حیدر شاہ سے میری کبھی ملاقات نہیں رہی۔ لیکن نوے کی دہائی میں بلتستان اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے واقف ضرور ہوچکا تھا ،کراچی میں ڈی جے سائنس کالج جاتے ہوئے آرام باغ کے بالکل سامنے داؤد کالج آف انجینئرنگ کے ہاسٹل کی دیواروں پر بی ایس ایف او ر قراقرم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی چاکنگ اپنی جانب متوجہ کرتی تھی۔اردو آرٹس کالج طلباء تنظیموں کا گڑھ تھا وہ تنظیم جو کہیں بھی وجود نہیں رکھتی ہو وہ اردو آرٹس کالج میں مل جاتی۔ بی ایس ایف بھی بس اردو آرٹس کالج ، داؤد کالج اور جامعہ کراچی کی حد تک موجود تھی، ان کے اکا دکا کارکن ہوا کرتے تھے، داخلوں کے وقت یہ تنظیم زیادہ متحرک ہوتی اور تعلیمی اداروں میں آنے والے بلتی طلباء تک رسائی کی کوشش کرتی ،داخلے کے مرحلے میں ہرممکن مدد کرتی جس کے بعد ان کا کام ان بلتی طلباء کے سینوں پر بی ایس ایف کا بیچ لگا کر کارکن بنانا ہوتا تھا ،زبان علاقے میں بڑی کشش ہوتی ہے، یہ طلباء متوجہ ہوہی جاتے تھے اب یہ الگ بات ہے کہ بعد میں جب ان تنظیموں کے نظریات سامنے آتے تو عقلمند پیچھے ہوجاتے جو رہ جاتے وہ قومیت کے ریلے میں بہہ کر ’’مہدی شاہ ‘‘ بن جاتے یا بنتے بنتے رہ جاتے۔ مہدی شاہ بی ایس ایف کے اسی رہنما حیدر شاہ رضوی ہی کا بیٹا ہے حیدر شاہ رضوی بلتستان کے سخت گیر موقف رکھنے والے قوم پرست رہنماؤں میں سے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے مہدی شاہ جانشین کے طور پر سامنے آئے لیکن بلتستان کے قوم پرست حلقوں میں وہ کوئی خاص پہچان نہیں بنا سکے۔ انہیں شہرت ان وڈیوز کی وجہ سے ملنا شروع ہوئی ،جس میں وہ پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف بولتے اور مظاہرے کرتے پائے گئے۔ یہ وڈیوز ابھی بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں جس میں مہدی شاہ پاکستان کے خلاف بھڑکتا ہوا پایا اور یہ کہتا ہے ملا کہ قوم پرست بلتی رہنماؤں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے ان کی زندگیوںکو خطرہ ہے عالمی اقوام نوٹس لیںاب ان وڈیوز کے ساتھ ہی مہدی شاہ کی ایک اور وڈیو بھی موجود ہے جس میں اس نوجوان کے چہرے پر ندامت عیاں ہے اوروہ شرمندگی کے ساتھ اعتراف کر رہا ہے کہ اس نے اب تک جو کچھ کیا اس پر نادم ہے و۔ہ اعتراف کرتا ہے کہ اسے ’’استعمال ‘‘ کیا گیا،اسے بھارتی ادارے ’’را‘‘ کے ایجنٹوں نے پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔ وہ بتاتا ہے کہ کس طرح والد کے انتقال کے بعد اس سے کچھ قوم پرستوں نے رابطہ کیا۔وہ اسے پاکستان کے خلاف بھڑکاتے رہے پھر یہ نوجوان بیرون ملک تعلیم کے لئے اٹلی گیا وہاں بھی را کے ایجنٹ اسے رابطے میں رہے، اسکو پیسے دیتے رہے اور پاکستان کے خلاف اکساتے رہے،مہدی شاہ کی بہن نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ اسلام آبادکے نیشنل پریس کلب میں نیوزکانفرنس میں بھائی کی طرف سے معافی مانگی اورسارا کچا چٹا کھول دیا۔یہ نیوز کانفرنس اور مہدی شاہ کے اعترافات دراصل ای یو ڈس انفولیب کی رپورٹ پر مہر تصدیق ثبت کررہے ہیں جس میں پاکستان مخالف پروپیگنڈے کے لئے ڈھائی سو سے زائدجعلی ویب سائیٹس کا انکشاف کیا گیاتھا ،بھارت مہدی شاہ جیسے نوجوانوں کو استعمال کرکے ان جعلی ویب سائیٹس کے ذریعے دنیا میں پاکستان کوبدنام کرنے کے لئے کوئی کسر نہیںاٹھا رکھتا ،مہدی شاہوں سے پاکستانی سفارتخانوں کے باہرپاکستان مخالف مظاہرے کروا کر اسے 1000سے ضرب دے کر دنیا میں پھیلانا ان جعلی ویب سائیٹس کے ہینڈلر کا کام تھا اور یہ ہینڈلر سری واستو گروپ تھا لیکن میرا مدعا یہاں ای یو ڈس انفو لیب یا سری واستو گروپ نہیں ،بھارت کا یہ نیٹ ورک تو بے نقاب ہوگیایقیننا اس گروپ کی جگہ کوئی اور گروپ کام میں لگ چکا ہوگا میرا سوال تو یہ ہے کہ آخرپاکستان دشمنوں کو وطن کے خلاف بولنے والے منہ قوم پرستوں میں ہی اتنے آرام سے کیوں مل جاتے ہیں ! ایم کیو ایم سے لے کر جئے سندھ تک اور جئے سندھ سے پشتون تحفظ موومنٹ اوربلوچ،گلگت بلتستانی قوم پرستوں تک ،سری واستو گروپ کو کام کے بندے قوم پرستوں سے ہی کیوں ملتے ہیں !