سینیٹ الیکشن کے نتائج کو اپوزیشن نے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے عدالت میں جانے کا اعلان کیا ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی پارٹی آسانی سے اپنی شکست کو تسلیم نہیں کرتی۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہارنے والے ہمیشہ دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں۔جیسا کہ پی ٹی آئی برسراقتدار ہونے کے باوجود سید یوسف رضا گیلانی کے سینیٹر منتخب ہونے پر کہا تھا کہ دھاندلی ہوئی ہے۔وزیراعظم نے کل ہی کہا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں بکرا منڈی لگی ہوئی تھی ،ووٹوں کی خریدو فروخت ہوئی ،اور نظام انصاف بھی خاموش رہا۔گیلانی کی موجودہ شکست نے بھی بہت سے سوالات پیدا کر دئیے ہیں ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ملتان اور سرائیکی وسیب میں گیلانی کی شکست پر سب سے زیادہ مایوسی ہوئی ،اور جشن منانے کی تیاریاں کرنے والوں کے عزائم دھرے کے دھرے رہ گئے ۔دوسری طرف تجزیہ نگاروں نے یہ بھی کہاکہ سنجرانی کی فتح میں بلوچستان نے اہم کردار ادا کیا جبکہ گیلانی کی شکست اس بناء پر بھی ہوئی کہ سرائیکی صوبہ موجود نہ تھا ۔ اگر صوبہ ہوتا تو یقینا نتائج مختلف ہوتے ۔ سینئر صحافی اور تجزیہ نگار مظہر جاوید نے کہا ہے کہ چونکہ سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور حکومت میں سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ صوبے کا بل پاس کرایا تھا ، مخالف قوتوں کو خدشہ تھا کہ اگر وہ چیئرمین سینیٹ بنتے ہیں تو صوبے کے بل کو زندہ کریں گے اورصوبے کی راہ ہموار ہو گی، اسی بناء پر ان کو شکست سے دوچار کرایا گیا ۔ گیلانی کی شکست پر وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ضمیر فروشوں کی شکست اور جمہوریت کی فتح قرار دیا ہے۔وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہاکہ سنجرانی کی کامیابی کے بعد سیاست میں ٹھہرائو پیدا ہو گا ،الیکشن سے پہلے شیخ رشید نے کہاتھا کہ سنجرانی حکومت کے ساتھ ساتھ ریاست کے بھی امیدوار ہیں۔ یوسف رضا گیلانی آخر وقت تک کہتے رہے کہ فوج سینیٹ الیکشن کے معاملے پر غیر جانبدار ہے۔سنجرانی کی کامیابی پر تحریک انصاف کی طرف سے توہین آمیز جملہ بازی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ گیلانی سے بدلہ لے لیا ’’ہور کوئی خدمت ساڈے لائق‘‘۔ ضیاء الحق کے بیٹے اعجاز الحق نے کہاکہ گیلانی کو (ن) لیگ نے شکست سے دوچارکرایا۔جمعیت العلمائے اسلام کے سابق رہنما حافظ حسین احمد نے کہاکہ پی پی اور ن لیگ والے مولانا فضل الرحمان کو ماموں بنائے ہوئے ہیں ۔ سینیٹ الیکشن میں ٹوٹل 8ووٹ مسترد ہوئے ،ایک ووٹ اس بناء پر مسترد ہوا کہ دونوں امیدواروں کے خانے پر مہر تھی ، جبکہ سات ووٹوں کے استردادکو ووٹر ز کی نیت کی حیثیت سے دیکھنا ہو گا ۔اگر ووٹرگیلانی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں تو سینیٹ الیکشن کو مشکوک نہیں کرنا چاہیے اور میرٹ کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے ، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ الیکشن میں اگر شفافیت نہ ہو تو بہت سے سوال پیدا ہوتے ہیں صرف سینیٹ انتخابات تک محدود نہیں،قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور بنیادی جمہوری اداروں کے انتخابات میں بھی شفافیت کے تشویشناک سوالات پیدا ہوتے ہیں، مگر ان مسائل کے حل کی جانب کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا، چنانچہ ہمارے ہاں انتخابی نظام میں پائے جانیوالے سقم بدستور موجود رہتے ہیں اور ملک میں پائیدار جمہوری اقدار پروان چڑھنے میں یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس صورتحال میں قومی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی آئین اور قانون کی روشنی میں یقینی بنائیں کہ انتخابی عمل صاف اور شفاف انداز سے مکمل ہو اور جہاں رخنہ اندازی یا نا جائز ہتھکنڈوں کی شکایات سامنے آئیں وہاں قانون اور آئین کے مطابق فوری کاروائی کی جائے۔ سیاست دانوں کو بھی اس سلسلے میں سر جوڑنے کی ضرورت ہے۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا یہ الزام کہ حکومتی بینچوں پر تین ٹھیکیدار پیسے دے کر سینیٹر بنے توجہ کا طالب ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے ان ٹھیکیداروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ یہ وہی افراد ہیں جن پر اسی حکومت نے ملتان میں میٹر و کا کیس بنایا تھا۔بہر حال تبصرے اور تجزیے ہوتے رہیں گے مگر یہ حقیقت ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کا مرحلہ بھی بالآخر مکمل ہو گیا ۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ صادق سنجرانی اور مرزا محمد آفریدی بالترتیب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہو گئے ہیں۔ تاہم سینیٹ کے حالیہ انتخابات نے ہمارے جمہوری رویوں کے کئی پردے چاک کئے اور یہ ثابت کیا ہے کہ مستحکم جمہوری سوچ پروان چڑھانے کے لئے ہمیں ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر یہ بھی کہوں گا کہ جمہوری نصاب میں ووٹ کو ضمیر کی آواز کہا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ ثابت ہوا ہے کہ ووٹ دراصل ایک قابل فروخت جنس ہے جس کی بولیاں لگتیں اور لین دین ہوتا ہے ۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ جن قوتوں نے جمہوری نظام کو اعتما د مہیا کرنا ہوتا ہے وہی اس کی بے توقیری کی ذمہ دار ٹھہری ہیںاس بے توقیری کو روکنا ہو گا اور ووٹ کو عزت دینے کی بات صرف نعرے کی حد تک نہیں حقیقی معنوں میں اسے آگے بڑھانا ہو گا ۔ سینیٹ کے الیکشن پر اعتراضات کو دیکھنے کی ضرورت ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے لئے صدر مملکت کی طرف سے مقرر کیے گئے پرائیڈنگ آفیسر سینیٹر مظفر حسین شاہ نے جمعہ کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ گیلانی کے سات ووٹ ان کے حامیوں نے بدنیتی سے خراب کیے۔اگر ایسا ہے تو اس بارے بھی قانون موجود ہے الیکشن کمیشن کو کارروائی کرنی چاہیے ۔ سید یوسف رضا گیلانی کے ووٹ مسترد ہونے کے حوالے سے سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا یہ بیان ا ہمیت کا حامل ہے کہ نام کے اوپر مہر لگانے سے ووٹ مسترد کرنا نہیں بنتا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پرائز ہیڈنگ آفیسر نے خود لائن آف ایکشن لیا کہ PDMامیدوار ووٹ مسترد ہونے کے خلاف الیکشن ٹربینل میں جائیں دراصل پرائز ہیڈنگ آفیسر کی یہ رولنگ سپریم کورٹ میں PDM کو فائدہ دے سکتی ہے ۔ PDMکے پولنگ ایجنٹ فاروق نائیک کی طرف سے موقع پر اپنا اعتراض ریکارڈ کرانا ا ور یہ کہنا کہ نام کے اوپر یا نیچے مہر لگانے سے قانونی طور پر ووٹ مسترد نہیں ہو سکتا مگر پرائز یڈنگ آفیسر کا غصے کی حالت میں یہ جواب دینا کہ میں ووٹ مسترد کر رہاہوں۔ آپ الیکشن کمیشن میں جائیں پرائذینڈنگ آفیسر کی غیر جانبداری کو مشکوک بنا تا ہے۔