ہم نے اخبار پڑھنا تقریباَ چھوڑ رکھا ہے۔ کل کا اخبار اٹھایا سیاہ حاشیے میں کوئٹہ کے بم دھماکے اور ان میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد درج تھی۔ ہم نے یہ اخبار اٹھا کے ایک طرف رکھ دیا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ دل و دماغ کی کیا کیفیت ہوئی، ایک گھونسہ ساپڑا، دل بیٹھنے لگا، آنکھیں تو عرصہ ہوا خشک ہو گئی ہیں، آئندہ کیا ہو گا؟ کیا بم دھماکے اور متواتر ہلاکت خیزی ہی ہماری تقدیر میں لکھ دی گئی ہے۔ پھر حکومت قانون نافذ کرنے والے ادارے، ایجنسیاں ان سب کا جواز کیا ہے؟ وہ جو عوام کے جان و مال کے محافظ ہیں وہ کیا کر رہے ہیں؟ کیا ان کا کام فقط… لاشیں گننا اور اٹھانا رہ گیا ہے۔ مقتولین کے لواحقین کو کچھ رقم تھما کر یہ سمجھ لینا کہ فرض ادا ہو گیا۔ آخر کب تک؟ دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کی کامیابی پر اب تک فتح اور کامیابی کے شادیانے بجائے گئے، ان کا کیا مطلب تھا۔ دہشت گرد اب بھی ہمارے درمیان ہیں اور جب چاہتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں، بم دھماکے کرکے حکومت، پولیس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بے بس و بے کس ظاہر کر دیتے ہیں۔ آخر یہ ادارے ناکامی۔۔۔ اپنی ناکامی کا اعتراف کیوں نہیں کر لیتے۔ یہ اعلان کیوں نہیں کر دیتے کہ عوام اپنی جانوں کی خود حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ اگر آئندہ خودکش حملہ آور کسی مذموم ارادے سے آئیں تو عوام خود انہیں پہچانیں اور ان سے نمٹیں، حکومت اور اس کے محافظ اداروں کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ اگر یہ اعلا ن کر دیا جائے تو حکومت اور اداروں کی بھی عوام کی حفاظت اور امن و امان کے تحفظ کی ذمہ داری سے جان چھوٹ جائے گی اور عوام سوچیں گے کہ وہ اپنی حفاظت کیسے کریں۔ بازاروں میں آنا جانا چھوڑ دیں، عبادت گاہوں سے دور رہیں، سڑکوں پر سفر کرنے سے احتیاط برتیں یا کم کریں۔ یہ سب باتیں عوام کے سوچنے کیلئے رہ جائیں گی اور ہمیں یقین ہے کہ عوام اپنی حفاظت کیلئے کو ئی نہ کوئی راستہ نکال لیں گے۔ عوام دو تین دہائیوں سے دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہیں، حکومت بجائے اس کے کہ وہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے کوئی جامع منصوبہ بندی کرتی، ان سوراخوں کو بند کرنے کی کوشش کرتی جن سے دہشت گردی بہہ بہہ آتی اور ہمارے معاشرے کو ویران کرتی ہے، وہ بدعنوان سیاستدانوں سے پنجہ آزمائی میں مصروف ہے۔ وزیراعظم جو مصلح اعظم بن کر آئے ہیں، سمجھتے ہیں کہ وہ ان بدعنوان سیاست دانوں کو جیل پہنچا کر یا بھیج کر پورے معاشرے کو پاک صاف کر دیں گے اور پھر ملک میں راستبازی اور پرہیزگاری کا راج ہو گا۔ قومی مسائل اور چیلنجوں کا جو ہمیں درپیش ہیں، اتنی سادہ دلانہ تعبیر کچھ وزیراعظم ہی کو زیب دیتی ہے۔ ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ وزیراعظم اپنی ترجیحات درست کریں۔ جمہوری سطح پر اتفاق رائے پیدا کریں بلکہ اصلاح و تعمیر کے عمل میں سب کو یہاں تک کہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی شریک کریں لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ نئے پاکستان کی تعمیر کا کام تن تنہا کرنا چاہتے ہیں اور اس کا کریڈٹ بھی خود ہی لینا چاہتے ہیں۔ دنیا کے کسی انقلابی نے اپنے ملک میں اکیلے کوئی تبدیلی نہیں لائی۔ یہ سارا کام ٹیم ورک کا ہے اور عوام کی تائید و حمایت سے کرنے کا ہے۔ اس کیلئے دور رس منصوبہ بندی، حکمت عملی اور قومی و ملکی صورتحال کے ادراک اور درپیش مسائل اور چیلنجوں میں ترجیحات مقرر کرنے کا ہے۔ قوم بم دھماکوں میں مر رہی ہو اور وزیر اعظم بدعنوان سیاستدانوں کو دھمکانے یا ان سے مک مکا میں لگے ہوں۔ وزیر اعظم حکومت میںآنے سے پہلے ایک اچھی حکومت اور ایک فلاحی ریاست کا جو تصور پیش کرتے تھے وہ اتنا جاذب نظر اور خوش دلانہ تھا کہ ہم نے بھی جوش میں آ کر ان ہی کی پارٹی کو ووٹ دیا اور دوسروں کو بھی اکساتے رہے کہ بھائی خان صاحب کے امیدوار کو کامیاب کراؤ۔ ملک انشاء اللہ خان صاحب کے تصورات کے مطابق ایک فلاحی ریاست بن جائے گا۔ یہاں تعلیمی نصاب یکساں ہو جائے گا، پولیس قانون نافذ کرنے میں چوکس اور خودمختار ہو جائے گی۔ معاشی طور میں ملک پاؤں پر کھڑا ہو جائے گا، کاسہ گدائی ٹوٹ جائے گا، یہ ہو گا اور وہ ہو گا لیکن وائے ناکامی کہ یہ ساری امیدیں اور توقعات ایک ایک کرکے دم توڑ جاتی ہیں۔ حقیقی تبدیلی کیلئے جیسی بے غرض اور ان تھک محنت کرنے والی انقلابی ٹیم درکار ہوتی ہے، وہ خان صاحب کے پاس نہ ہے اور نہ انہوں نے اس کی کوشش ہی کی۔ وہ سارے سمجھوتے جو انہوں نے الیکشن جیتنے کیلئے کئے کہ ہر قسم کے مفاد پرست اور بدعنوان عناصر کو پارٹی میں قبول کرنا، الیکشن جیتنے کیلئے انہیں ٹکٹ دینا، یہاں تک کہ جنہیں تاعمر سیاست سے نااہل قرار دیا گیا، ان سے اپنی حکومت بنانے کیلئے مدد اور وسائل لینا اور انہیں استعمال کرنا۔ کیا یہ باتیں ثابت نہیں کرتیں کہ ہر حال اور ہر قیمت پر اقتدار ہی مقصد و منزل تھا۔ اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں۔ ملکی سیاست جس غلاظت و گندگی میں جا پڑی ہے کہ اقتدار کا راستہ صاف ستھرا، ایماندارانہ رہا ہی نہیں۔ لیکن اگر خان صاحب نے یہ دعویٰ اور عوام سے یہ وعدہ کیا تھا تو پھر اقتدار میں آ کر انہیں اپنی پالیسیوں اور ترجیحات کو بدلنا چاہئے تھا۔ اس کے برعکس حالات و معاملات سے سمجھوتے کرنا، حکومت میں بدعنوان عناصر کو برداشت کرنا اور مہنگائی پر بلبلا اٹھنے والے عوام کو مزید دو ایک سال تک یہ کڑوا گھونٹ پی لینے کی مہلت مانگنا۔ یہ بتاتا ہے کہ انہیں صورتحال کی ہولناکی اور دردناکی کا ذرا بھی اندازہ نہیں۔ چند سو ہییلتھ کارڈ تقسیم کرکے اور پچاس ہزار گھروں کی تعمیر کی نوید سنا کر وہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے قوم کے دکھوں کا مداوا کر دیا۔ انہیں ذراا بھی احساس نہیں کہ قوم و ملک کتنی اذیت ناک صورتحال سے گزر رہی ہیں۔ خودکش بم دھماکے بھی ان ہی اذیت ناک مسئلوں میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ان کی حکومت نے ان کی کابینہ اور پارٹی نے اس مسئلے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے کتنا غوروخوض کیا، کیا تدابیر اختیار کیں حکومت کرنے کا یہ انداز کیا وزیراعظم کو زیب دیتا ہے جو بزعم خود تبدیلی لانے کے دعویدار، ہمیں لگتا ہے کہ اگر صورتحال غفلت کی یہی رہی تو کہیں تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ہارے مایوس و ملول عوام کا صبر و تحمل جواب نہ دے جائے۔