سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک یہ ہے : زندگی ایک ایسی سواری ہے کہ آدمی اس پر سوار نہ ہو تو وہ آدمی پر سوار ہو جاتی ہے ۔ کیا سول اور عسکری قیادت نے کشمیر کا سودا کر لیا ہے؟حیرت انگیز طور پر ایک ایسے دانشور نے بھی یہ سوال پوچھا ، جو عمران خان سے حسنِ ظن رکھتے ہیں ۔ مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی ۔ اپنے ساتھ اندیشوں اور بدگمانیوں کا طوفان لیے آتی ہے ۔ شوشا یہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وزیرِ اعظم عمران خاں واشنگٹن میں ملے تو سی پیک کو محدود کرنے کا وعدہ کیا اور کشمیر پر لین دین کر لیا ۔ سازش میں شریک تھے تو دفعہ 370اور 35اے کی تنسیخ کے بعد قصاب نریندر مودی کو ہٹلر سے تشبیہ کیوں دی ؟پندرہ اگست کو یومِ سیاہ منانے کا اعلان کیوں کیا ؟ پہلی فرصت میں مظفر آباد کیوں پہنچے ؟ کل یہ کیوں کہا کہ دنیا بھر میں کشمیر کا میں سفیر بنوں گا اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ عسکری قیادت نے یہ اعلان کیوں کیا کہ پاکستان آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہے ۔ سازش کا الزام تو مضحکہ خیز اور احمقانہ ہے ۔ پرلے درجے کے بدگمان لوگ ہی اس پہ یقین کر سکتے ہیں ۔ عمران خان کے طرزِ حکومت میں بہت سی خامیاں ہیں ۔ سب سے بڑھ کر تو یہی کہ نیب اور عدالتوں پر چھوڑ دینے کی بجائے ،دن رات احتساب کا ڈھنڈورا وہ پیٹتے رہتے ہیں مردم شناسی نام کو نہیں ۔مشیر ناقص ہیں اور ترجیحات طے کرنے کا سلیقہ کم ۔ مگر یہ اندیشہ ہرگز نہیں کہ قوم کو بیچ ڈالیں گے۔ چھوٹی موٹی شکایات تجارتی راہداری پر ہو سکتی ہیں مگر چینی حکومت کو شکایت ہے اور نہ سنجیدہ ماہرین کو ۔ کام کی رفتار شاید زیادہ تیز ہو سکتی تھی ۔ معاملات کو زیادہ حسنِ خوبی سے نمٹایا جا سکتا تھالیکن امریکہ سے سودے بازی کا کیا سوال ؟ سی پیک کے بدلے میں امریکہ پاکستان کو کیا دے سکتا ہے ؟ کشمیر کا حادثہ اتنا بڑا اور اچانک ہے کہ حکمتِ عملی کی تشکیل میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ ویسی امداد دوست ممالک سے نہیں ملی ، جس کی امید کی جا رہی تھی ۔ اسباب اس کے آشکار ہیں ۔ قوموں کے تعلقات باہمی مفادات پہ استوار ہو تے ہیں ۔ افراد کی طرح اقوام بھی مجبوریاں پالتی اور ان کا شکار ہوتی ہیں ۔ بھارت ایک بڑی منڈی ہے ۔امریکہ کے اثر میں عرب ممالک ہندوستان میں سرمایہ کاری کے مرتکب ہیں ۔ آخری تجزیے میں یہ ایک مضحکہ خیز حکمتِ عملی ہے کہ عالمی سطح پر وہ اسرائیل، امریکہ، بھارت اتحاد کی تائید کریں۔ اس لیے کہ یہ اتحاد بالاخر انہی پر ٹوٹ پڑے گا ۔ عربوں کوجلد یا بدیر نظرِ ثانی کرنا ہوگی ۔ 2003ء میں عراق پر امریکی حملے سے پہلے برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلئیر اور امریکی صدر بش جونئیر کی گفتگو کچھ عرصہ بعد منظرِ عام پر آئی تھی ۔ گھمنڈ سے بھرے دونوں لیڈر طے یہ کر رہے تھے کہ عراق کے بعد سعودی عرب ، ایران ، پاکستان اور کوریا کو بھی نمٹا دیا جائے ۔ کیا ایسا کرنے میں وہ کامیاب رہے ؟ عراق میں تین ہزار ارب امریکی ڈالر غرق ہوئے اور کچھ بھی حاصل نہ ہوا ۔ ایک ہزار ارب ڈالر افغانستان میں ڈوب گئے ۔ شرمندگی کے ساتھ اب پسپائی کا سفر درپیش ہے ۔ کوریا سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مصالحت کے لیے مذاکرات کرنا پڑے اور برابری کی سطح پر ۔ عسکری اعتبار سے امریکہ آج بھی سپر پاور ہے لیکن معاشی قوت سمٹ رہی ہے ۔ اللہ نے اپنی دنیا شیطان کے حوالے نہیں کر دی ہے۔ زمین پر نہیں ، انسانوں کی تقدیر کے فیصلے آسمان پہ ہوتے ہیں ۔ کتنی ہی عالمی طاقتوں کو ہم نے سمٹتے ہوئے دیکھا ہے ۔ ہٹلر ایک طوفان کی طرح اٹھا اور آدھی دنیا فتح کر لی ۔ بالاخر تاریخ کا ایک عبرت ناک باب بن کے رہ گیا ۔ برطانوی سلطنت پہ سورج غروب نہ ہوتا تھا لیکن اب ایک جزیرے تک محدود ہے اور معاشی بقا کی جنگ میں مصروف ۔ دسمبر1979ء میں روسیوں نے افغانستان پر حملہ کیا ۔ تیرہ لاکھ افغانوں کو قتل کر ڈالا ۔ تیرہ لاکھ کو اپاہج کر دیا لیکن آخر کو کیا ہوا ؟ 12آزاد ریاستیں سوویت یونین کے بطن سے ابھر آئیں۔ انسانی تاریخ عالمی طاقتوں کا قبرستان ہے ۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ بعض کو بعض کے ذریعے دفع کر دیا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین فساد سے بھر جاتی ۔ عبادت گاہیں ویران ہو جاتیں اور انسانوں کی اکثریت جانوروں کی سی زندگی جیتی ۔ آدمی کا معاملہ یہ ہے کہ افتاد آپڑے تو ہاتھ پائوں چھوڑ دیتا ہے ۔ ایک ہزار برس کے بعد آزادی حاصل کرنے اور بہت تیزی سے گھمنڈ کا شکار ہو جانے والے بھارت نے جو قدم کشمیر میں اٹھایا ہے ، کیا وہ اس کی پیہم توسیع اور پاکستان کی پسپائی پر منتج ہو گا ؟ جی نہیں ، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ برہمن اس قابل نہیں کہ پاکستان کو تاراج کر سکے ۔ ستائیس رمضان المبارک کو یہ ملک اس لئے نہیں بنا تھا کہ بت پرست اسے اڑا لے جائیں۔وہ ایک جنگجو قوم نہیں ۔ہمیشہ اس وقت وہ حملہ کرتے ہیں ، جب انہیں فتح کا یقین ہو ۔ بھارت کی عسکری بالاتری محض ایک سراب ہے ۔آٹھ لاکھ بھارتی فوج کشمیر میں ملوث ہے ۔ مشرقی پنجاب سمیت خصوصی اختیارات رکھنے والی کئی بھارتی ریاستوں نے بھارتی اقدام کی تائید کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ فروری 2019ء میں مہم جوئی کی جو کوشش نریندر مودی نے کی تھی ، اس کا انجام کیا ہوا ۔ پاکستانی سرحدوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں ارب روپے صرف کر کے ہوائی اور فوجی اڈوں کی جو زنجیر بھارت نے تشکیل دی تھی ، نصر میزائل کے بعد بڑی حد تک یکسر بے معنی ہو چکی ۔ نئی بھارتی چھائونیاں پاکستانی سرحدوں سے اوسطاً ستّر کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں ۔ نصر میزائل 65کلومیٹر تک ایٹمی اور غیر ایٹمی مواد لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ کئی بار کے تجربے سے واضح ہوا کہ نشانہ اس کا بے خطا ہے ۔ صحرا میں ایک سوئی گاڑدی جائے تو زیادہ سے زیادہ تین فٹ کے فاصلے پر وہ گرے گا ۔ میزائل فائر کرنے کے لیے پانچ منٹ کا وقت اگر میسر ہو تو ریڈار اسے پا نہیں سکتا ۔ جوابی ردّعمل کا وقت میسر نہیں آتا ۔ ہدف تک پہنچنے کے لیے نصر میزائل کودو منٹ درکار ہوتے ہیں ۔ پاکستانی فوج جنگ کی بھٹی سے گزر کر صیقل ہو چکی ۔ اس کے جوان اور افسر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی طور پر بے تاب ہیں ۔ بلوچستان ، قبائلی پٹی اور کراچی میں بھارتی سازشیں منہ کے بل آن گریں ۔ سیاسی طور پر الطاف حسین کی موت واقع ہو چکی ۔ بلوچستان اور قبائلی خطے میں تعمیرِ نو کا عمل جاری ہے، مکمل امن سے ہم کچھ زیادہ فاصلے پر نہیں ۔ عسکری قیادت کے علم میں ہے کہ گاہے بھارتی جنرل آزاد کشمیر پر محدود حملے کا خواب دیکھتے ہیں ۔ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں لیکن تعبیر بھیانک ہوگی ۔ مقبوضہ کشمیر مکمل طور پر بھارت کے ہاتھ سے نکل جائے گا ۔ یہ ہمارے لیے خودشناسی کا وقت ہے ۔ وہ لمحہ بالاخر آن پہنچا ہے ، جب ایک متحد اور منظم پاکستانی قوم کی تشکیل ممکن ہے۔تاریخ کا سبق یہ ہے کہ مواقع بحرانوں میں چھپے ہوتے ہیں ۔ افراد یا اقوام ،اپنی قوت وہ تب دریافت کرتے ہیں ، جب ان کا وجود خطرے میں پڑ جائے ۔ قدرت نے ایک عظیم تاریخی موقع ہمیں فراہم کر دیا ہے ۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہوشمندی ، حکمت ، ریاضت اور تحمل کے ساتھ اوپر اٹھیں یا اندیشوں کے طوفان میں گھرے رہیں ۔سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک یہ ہے : زندگی ایک ایسی سواری ہے کہ آدمی اس پر سوار نہ ہو تو وہ آدمی پر سوار ہو جاتی ہے ۔