دولت و زر کے بغیر قدیم طرز معیشت پر زندگی گزارنے کا دل چسپ رجحان 

ترقی یافتہ ممالک میں کئی افراد دولت اور کرنسی پر قائم مالیاتی نظام کو فطرت 

سے دور کرنے والی خواہشات و ضروریات کی جڑ تصور کرتے ہیں 

 

رانا محمد آصف

  

 جب ٹھیک دل کے اوپر بنی جیب خالی ہو تو ہر دھڑکن کے ساتھ کوئی خواہش حسرت میں بدل جاتی ہے یا کوئی ضرورت پوری نہ ہونے کا خوف سر اٹھاتا ہے۔ بازار دنیا میں خالی جیب دو قدم چلنا بھی محال محسوس ہوتا ہے۔ قدم قدم پر ہمیں اپنی کس ضرورت یا خواہش کو پورا کرنے کے لیے دھات کے سکے یا کاغذ کے نوٹ درکار ہوتے ہیں۔ یہ ہماری بے بسی اور مفلسی کی ترقی یافتہ صورت ہے ورنہ قدیم انسان اپنی محنت کے نتیجے میں کسی جنس یا شے کے حصول کی کوشش کرتا تھا۔ تبادلے کے اُس نظام میں شے کے بدلے شے ہی خرید و فروخت کا ذریعہ تھا، پھر رفتہ رفتہ قوت خرید کا میزان کرنسی قرار پائی۔ یہ کرنسی مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی آج کاغذ کے نوٹوں کی صورت ہماری جیب میں ہے اور اس کی بہتات کی خواہش دل و دماغ میں! خرید و فروخت کے لیے ’’زر‘‘ کا درجہ قرار پانے والے کاغذی نوٹوں میں ہماری ہر ضرورت اور خواہش قید ہوچکی ہے اور یہ قید ایسی مضبوط اور پختہ تصور کی جاتی ہے کہ اس کے بغیر زندگی محال تصور ہوتی ہے۔دنیا کے کچھ لوگوں  نے اس معاشی اور معاشرتی قدر کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ خاص طور پر مغرب میں living without monyیعنی روپوں پیسوں کے بغیر زندگی گزارنے کو بعض افراد نے باقاعدہ طرز زندگی کے طور پر اپنا کر یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پیسے کے بغیر بھی زندگی نہ صرف گزر سکتی ہے بلکہ ٹھاٹ کے ساتھ گزر سکتی ہے۔ 

اب سوال یہ ہے کہ اگر جیب میں پیسے نہ ہوں تو ضروریات پوری کرنا ممکن کیسے ہوگا؟ اس کے لیے نہ صرف ایسے افراد نے ایک خاص حکمت عملی اپنائی ہے بلکہ اس سلسلے میں باقاعدہ ویب سائٹس بھی اب کام کررہی ہیں جو لوگوں کو کرنسی نوٹوں کے بغیر زندگی گزارنے کے طریقے سکھاتی ہیں اور مختلف تجاویز اور مشورے بھی دیتی ہیں۔مغرب میں قدرے تیزی سے معروف ہوتا یہ چلن مختلف شکلوں اور مثالوں کی صورت ذرایع ابلاغ کی خبروں اور کہانیوں کی زینت بنتا رہتا ہے۔ آسٹریلیا میں ایک جوڑے نے ایک سال تک بغیر کرنسی نوٹوں کے زندگی بسر کرنے کا ایسا ہی ایک انوکھا تجربہ کیا ہے۔ 

ایک برس تک بغیر نقد رقم کے زندگی کا گزارنے کا فیصلہ کرنے والے راچل نیوبے اور لیام کلبرسٹون ابھی نوجوان ہیں۔ اس جوڑے نے ’’سونا نہ چاندی نہ کوئی محل‘‘ کے اصول پر ایک چھوٹا سا گھر ضرور بنایا ہے مگر اس میں بھی کچھ خرچ نہیں کیا۔ گھر بنانے کے لیے زمین انھیں ایک دوست نے دی۔ اس دوست کے پاس دیہی علاقے گبسلینڈ میں اچھی خاصی زمین تھی جس کا کچھ حصہ اس نے اپنے ان دو دیوانے دوستوں کو دے دیا۔ رہی چار دیواری تو بغیر کوڑی ٹکہ خرچ کیے ان دونوں میاں بیوی نے کچرا کنڈی سے قابل استعمال سامانا تلاش کیا، گاؤں کے آس پاس جنگل سے لکڑیاں جمع کیں اور سر پر چھت بن گئی۔ رہا مسئلہ کھانے کا تو یہ دونوں اس کے انتظام کے لیے علاقے کے کسانوں کا کچھ کام کاج کردیتے ہیں، جس کی اجرت کے طور پر انھیں تازہ سبزیاں اور اناج مل جاتا ہے اور دو وقت کا کھانا میسر آتا ہے۔ کپڑوں کے لیے دھاگا  وغیرہ بھی وہ اسی طرح حاصل کرتے ہیں۔ اس فاقہ مستی میں ان دونوں کے لیے اگر کوئی قابل اطمینان بات ہے تو وہ یہ کہ ’’ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ ہم اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزار رہے ہیں، ہماری ساری محنت اور کوشش زندگی گزارنے کے لیے ہے، نوٹ کمانے کے لیے نہیں۔ اب جب جیب میں پیسے ہی نہیں تو دیکھیے زندگی کتنے سکون سے گزرتی ہے۔ ہمیں کھانے پینے اور سفر کرنے کے لیے کرائے اور قیمت کی صورت میں پیسے خرچ ہی نہیں کرنا ہوتے۔ اچھے لباس کی آرزو دل میں پیدا ہی نہیں ہوتی کیوں کہ ان سب کاموں کے لیے کرنسی درکار ہوتی ہے اور ہمیں کرنسی ہی درکار نہیں اس لیے ہم ان فکروں سے آزاد ہیں اور اپنا وقت اپنے من چاہے کام کرنے میں گزارتے ہیں۔‘‘

یہ دونوں اپنے اس نئے گھر میں 2010 برس جنوری میں منتقل ہوئے تھے۔ لیکن یہ پہلا موقع نہیں کہ راچیل اور لیام انوکھے انداز میں اپنی زندگی بسر کررہے ہوں۔ اس سے قبل وہ کینیڈا میں ایک آرگینک فارم پر رہے اور اس سے پہلے ایک اور جگہ انھوں نے اسی انداز میں بسیرا کیا۔ یہ اکثر مقامی پیداوار اجناس یا پھل وغیرہ پر گزر بسر کرتے ہیں اس لیے ان کا خیال ہے کہ ان کا طرز زندگی کسی بھی اعتبار سے سب سے زیادہ ماحول دوست ہے۔ 

ماضی کے تجربات کے مقابلے میں یہ دونوں اپنے اس تجربے کو زیادہ دشوار قرار دیتے ہیں۔ اس کی سب سے بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ اس وقت جہاں انھوں نے ڈیرہ جمایا ہے اس علاقے کی زمین زیادہ زرخیز نہیں اس لیے انھیں چھوٹی سطح پر کاشتکاری کرنے میں شدید مسائل کا سامنا ہے۔ اڑھائی اسکوائر میٹر کے لکڑی اور کاٹ کباڑ سے بنے اس گھر میں انھیں اور بھی کئی ایس پریشانیوں کا سامنا رہتا ہے جو اس سے قبل انھیں درپیش نہیں رہیں۔ پینے اور استعمال کے لیے پانی کا ذریعہ برسات کا پانی ہے جسے یہ چھت پر بنی ایک ٹنکی میں جمع کرتے ہیں۔ چوں کہ گھر میں نہ بجلی ہے نہ گیس اس لیے سارے کام اپنے ہاتھوں ہی سے انجام دینا ہوتے ہین۔ کپڑے تالاب پر دھوتے ہیں اور باقی کام بھی خود ہی انجام دیتے ہیں۔ 

دن بھر دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے کے لیے ان دونوں کی کوئی مصروفیت نہیں اس لیے بھلے سے ان کی جیب میں دھیلا نہیں لیکن وقت کی کمی کا انھیں کسی صورت سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ وہ دن کا زیادہ تر وقت مقامی کسانوں کے چھوٹے موٹے کاموں میں ہاتھ بٹانے میں گزارتے ہیں، کچھ وقت اپنے گھر کے آس پاس سبزیاں اگانے میں نکل جاتا ہے اور باقی وقت جنگلی بیر جمع کرنے میں گزار دیتے ہیں تب جاکر ان کے لیے کھانے کا انتظام ہوتا ہے۔ راچل اورلیام کے پاس پانچ عدد بطخیں بھی ہیں جن سے انھیں تازہ انڈے حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن جب حالات زیادہ ہی تنگی کے ہوں تو یہ دونوں کچرے دانوں کا رُخ کرتے ہیں اور ان میں سے سبزیاں پھل، روٹی اور دیگر کھانے پینے کی اشیا جمع کرتے ہیں۔ 

تمام تر کوششوں کے بعد ان کی ایک سال کی ہی محنت مکمل طور پر ’’کیش فری‘‘ نہیں ہوسکی۔ اس دوران میں لیام کو ایک مرتبہ دانتوں کے شدید درد ہوا جس کے علاج کیلیے انھیں 300ڈالر خرچ کرنا پڑے، اسی طرح راچل نے لیام کے لیے ایک موٹر سائیکل بھی خرید کر دی تاکہ وہ گاؤں میں جاکر کام کاج اور کھانے کی تلاش بہ آسانی کرسکے۔  اس کے علاوہ انھوں نے سال بھر کوئی اور خرچ نہیں کیا۔ 

اب جب کہ اس جوڑے نے اپنے لیے جو ’’کیش فری ایئر‘‘ منانے کا فیصلہ کیا تھا، اس کے چند ہی ماہ باقی رہ گئے ہیں مگر یہ تاحال یہ فیصلہ نہیں کرپائے ہیں کہ آیا اسی طرح گزر بسر جاری رکھا جائے یا پھر دوبارہ سے معمول کی طرف لوٹ جائیں۔ تمام تر مشکلات کے باوجود وہ اس طرز زندگی سے خوش دکھائی دیتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ وہ یوں اپنی زندگی کا سفر جاری رکھیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ ہمارے کچھ پرانے دوست بھی اس آئیڈیا کی تعریف کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس طرح زندگی گزارنا ایسا ہی ہے جیسے ہم بچپن میں اپنا وقت گزارا کرتے تھے۔ اس انداز میں زندگی گزارنا مشکل تو ہے مگر اس میں بھلے کتنی ہی توانائیاں خرچ ہوجائیں ہم اس طرز زندگی کو اپنے ماضی پر زیادہ فوقیت دیتے ہیں کیوں کہ ہم پہلے کے مقابلے میں بہت خوش ہیں۔‘‘

 کرنسی کو الوداع کرنے

 والاپہلا ملک 

اگرچہ نقدی کیے بغیر زندگی بسر کرنے اور ’’کیش لیس‘‘ سوسائٹی کا تصور بظاہر ایک جیسا معلوم ہوتا ہے لیکن اس ایک بنیادی فرق ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ کیش لیس کے مفہوم میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ آج اس اصطلاح سے مراد زر یا دولت کو کرنسی یا سکوں کے بجائے ڈیجیٹل ذرایع سے استعمال کو عام کرنا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ بغیر دولت کے زندگی بسر کرنے کے رجحان سے متعلق 2010میں متعدد مضامین، فیچر رپورٹس اور کتب شایع ہوئیں۔ اس برس سے دنیا میں ڈیجیٹل کرنسی کو رائج کرنے، کیش لیس معیشت کے خدوخال وضع کرنے سے متعلق اکادیمیا میں بڑے پیمانے پر تحقیق کا نیا دور شروع ہوا۔ ڈیجیٹل  کرنسی کے تصور نے بھی اسی دور میں مقبولیت حاصل کی۔ 

کرنسی کے بغیر معیشت کا تصور نہ صرف اب عملی شکل اختیار کرگیا ہے بلکہ کئی ممالک میں اس کے مکمل نفاذ کے لیے زمین ہموار ہورہی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یورپ میں1661ء میں  سب سے پہلے کرنسی نوٹ رائج کرنے والا ملک سوئیڈن 2023تک دنیا کے پہلے مکمل  کیش فری ملک میں تبدیل ہونے جارہا ہے۔  یہ ہزاروں برس قدیم مالیاتی نظام میں ایک بڑی تبدیلی ہوگی۔ مال کے بدلے مال یا بارٹر سسٹم انسانوں کا ابتدائی مالیاتی نظام تھا جس میں پہلی تبدیلی 660قبل مسیح میں آئی جب زر کے طور پر سکّے ایجاد کیے گئے۔ سکّوں کی ایجاد سے پہلے جب اجناس کے باہم تبادلے سے خریدوفروخت کی جاتی تھی تو منافع کے طور پر حاصل ہونے والی اجناس اور اشیا کو سنبھالنا بڑے تاجروں کے لیے ایک مسئلہ بن جاتا تھا۔ اس کے لیے کئی خطوں میں کمیونٹی کی سطح پر گودام بنائے جاتے تھے۔ اسی دور میں ذخیرہ کی گئی اجناس اور اشیا کا ریکارڈ رکھنے کے باعث تحریری ریکارڈ کا رواج عام ہونے میں مدد ملی۔ مال کا تحریری ریکارڈ رکھنے کے آثار ان تہذیبوں میں بھی ملتا ہے جہاں کاغذ کا استعمال شروع بھی نہیں ہوا تھا۔ اس کے لیے مٹی اور پتھر کی تختیاں استعمال کی جاتی تھیں۔ رفتہ رفتہ مال کی رسید کے طور پر  استعمال ہونے والی یہ مٹی کی تختیاں ہی خرید و فروخت کے لیے استعمال ہونے لگیں۔ ماہرین کے نزدیک یہ کرنسی کی ابتدائی ترین صورت ہے۔ اس کے بعد کے ادوار میں دھاتوں کی دریافت سے سکوں کی ایجاد ہوئی۔ دنیا کے مختلف خطوں میں اسی طرز پر لکڑی کے ٹکڑوں، درخت کی چھال اور دیگر اشیا کو کرنسی کے  طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ انٹرنیشنل بینک نوٹ سوسائٹی کے مطابق چینی بادشاہ شین زنگ  نے سب سے پہلے کاغذ کی کرنسی متعارف کروائی اور اسے رواج دیا۔ مارکوپولو نے 1296 میں یہ کرنسی نوٹ بطور حوالہ چین میں استعمال کیے اور یورپ واپسی پر جب اس کی تفصیلات بتائیں تو کئی یورپیوں نے اس کی بات تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ یورپ میں بینک نوٹ سب سے پہلے سوئیڈن میں اسٹاک ہوم کے ایک بینک نے 1661میں متعارف کروائے۔ یہی ملک اب کیش فری معیشت بننے جارہا ہے۔گزشتہ دو دہائیوں سے سوئیڈن میں کیش کے لین دین میں تیزی سے کمی آرہی ہے اور ماہرین کے مطابق آئندہ چار برسوں میں کیش لیس معیشت کا یہ پہلا ماڈل سامنے آجائے گا۔ 

٭…٭…٭

 نوٹ اور سکے نہیں چاہییں! 

 

راچل اور لیام اس طرح زندگی بسر کرنے والے پہلے نہیں بلکہ ان سے قبل کئی افراد اس انداز میں زندگی گزار رہے ہیں۔کرنسی کے بغیر زندگی گزارنے کو باقاعدہ طرز زندگی کے طور پر فروغ دینے کے لیے کئی افراد متحرک ہیں۔ ان کی انفرادی مثالیں اس سلسلے میں پیش کی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک معروف نام  ہائیدے میری شوارمر کا ہے یہ خاتون دوسری جنگ عظیم کے دوران  گھروالوں کے ساتھ جرمنی منتقل ہوگئی تھیں، انھوں نے اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ جرمنی ہی میں گزار۔ بطور ٹیچر بیس برس تک ملازمت کی اور ریٹائرمنٹ سے قبل ہی نوکری چھرڑ دی۔ اس کے بعد سائیکوتھراپسٹ کا پیشہ اخیتار کیا۔  انہی دنوں کرنسی کے بغیر زندگی گزارنے کے نت نئے طریقے تلا ش کرنا شروع کردیے۔ آخر کار شوارمر نے اس مسئلے کا حل تلاش کرہی لیا انھوں نے  1994  میں لین دین کے لیے ایسے لوگوں کا ایک گروہ تشکیل دیا اشیا کے عوض خدمات پیش کرتے تھے اور اس سے حاصل ہونے والی اشیا پر گزر بسر کرتے تھے۔ اس سلسلے میں معروف ترین مثال شاید  ڈینیل جیمز شیلابارجر ہی کی ہو۔ 2008 میں یہ طرز زندگی اپنانے والا جیمز شیلا بارجر  ڈینیل سیولو یا سیولوکے نام سے مشہور ہے۔ سیولو کولوریڈو میں پیدا ہوا اور 50برس کی عمر میں اس نے کرنسی کے استعمال کے بغیر زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ وہ غاروں میں زندگی بسر کرتا ہے اور جنگلی سبزیوں، پھلوں اور شکار پر گزارا کرتا ہے۔ سیولو کرنسی کے بغیر زندگی گزارنے کو باقاعدہ ایک طرز معاشرت کے طور پر فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے ’’The man who quite the moneyکے نام سے اس کی سوانح بھی شایع ہوچکی ہے جس میں اس نے اپنے تجربات سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کرنسی کے بغیر نہ صرف زندگی ممکن ہے بلکہ زیادہ خوش گوار بھی ہے۔  ٹومی سٹیکائنن(Tomi Astikainen)  بھی 2009  اس نے اپنی تمام جائیداد فروخت کرکے بے گھری کی زندگی اپنائی اور ایک سال کے بعد اس نے مکمل طور کرنسی کا استعمال ترک کردیا۔ مارک بوائلے نامی بلاگر بھی 2008  سے نوٹوں سے آزاد طرز معیشت کے فروغ کا علم بردار ہے۔ اس موضوع پر اس کے مضامین مختلف جرائد اور اخبارات میں شایع ہوتے رہتے ہیں اور 2010میں اس موضوع پر اس کی کتاب بھی شایع ہوچکی ہے۔ یہ اور ان جیسے افراد یقیناً ایک مشکل راستے پر چل رہے ہیں لیکن ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو موجودہ دنیا کی طرز معیشت و معاشرت سے نالاں ہیں، ان میں سے بعض مذہبی حوالے بھی استعمال کرتے ہیں، کچھ کومعاشی تقسیم بعض ممالک اور قوتوں کی بالادستی کا بنیادی سبب بھی کرنسی دکھائی دیتا ہے۔ اسباب اور نتائج کچھ بھی ہوں لیکن ان لوگوں کے حوصلے کو داد دیے بغیر چارہ نہیں!

٭…٭…٭

ممکن کیسے ہے ؟ 

 

کرنسی نوٹوں کے بغیر زندگی گزارنے والا مارک بوائل نہ صرف خود اس اصول پر عمل پیرا ہے بلکہ وہ اس سلسلے میں ایسے طریقے بھی بتاتا ہے جن کی مدد سے کرنسی نوٹوں کے بغیر زندگی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔  گو کہ ان میں سے زیادہ تر تجاویز برطانیہ یا زیادہ سے زیادہ یورپی ممالک میں قابل عمل ہیں لیکن ان میں دی گئی معلومات سے یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ بچت اور کیش فری زندگی گزارنے کا یہ رجحان مغرب میں کس انداز سے فروغ پارہا ہے۔  بوائل کا کہنا ہے کہ اگر آپ کپڑوں سے لے کر نئی سائیکل تک کچھ بھی خریدنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے روپے خرچ کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ اس سلسلے میں دو ویب سائٹس کا نام لیتا ہے۔ ان ایک freecycleنامی ویب سائٹ ہے جو برطانیہ میں ایسے افراد کو معلومات فراہم کرتی ہے اور ان کا باہمی رابطہ بھی کرواتی ہے جو اشیا کے تبادلے کے ذریعے اپنی ضرورت کی چیزیں حاصل کرتے ہیں۔ freegleبھی اسی طرح کی ایک ویب سائت ہے جس پر اشیا کا تبادلہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ  اگر آپ کسی تقریب میں شرکت کے لیے نئے کپڑے خریدنے کی فکر میں ہیں تو یہاںبھی بچت ممکن ہے، آپ ایک شام کے لیے کپڑے اپنے کسی دوست سے ادھار بھی لے سکتے ہیں۔  سفری اخراجات بچانے کے لیے مارک بوائل liftshareنامی ویب سائٹ کا نام تجویز کرتا ہے۔ یہ برطانیہ میں کار شیرنگ کی سب سے بڑی ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ کا بنیادی مقصد ایندھن پر ہونے والے مجموعی اخراجات کو کم کرنا ہے، اس لیے اس کے ممبر کسی دوردراز سفر کے لیے ایسے ممبران سے رابطہ کرلیتے ہیں جن کی منزلیں ایک ہوں۔ یوں نہ صرف کسی ایک کی بچت ہوتی ہے بلکہ ملکی سطح پر ایندھن پر ہونے والے اخراجات بھی کم ہوتے ہیں۔ سفر کے دوران ہوٹل یا ریسٹ ہاؤس وغیرہ کے اخراجات بچانے کے لیے couchsurfingنامی ویب سائٹ سے مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ ویب سائٹ دنیا بھر کے ایسے افراد کو ایک جگہ جمع کرتی ہے جو اس ویب سائٹ کے کسی ممبر کو اپنے ہاں کچھ دن ٹھہرانے کے لیے بخوشی راضی ہوجاتے ہیں۔ the hospitality clubنامی ویب سائٹ بھی مہمان نوازوں کا ایسا ہی گروپ ہے جس کی ویب سائٹ پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کے میمبرز دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں اور اپنے کسی بھی ساتھی رکن کو اپنا مہمان بنانے کے لیے ہردَم تیار ہیں۔ بوائل کی تجویز ہے کہ کسی لمبے سفر پر جانے سے پہلے ان ویب سائٹس سے رجوع کیا جائے تو رہایش کی مد میں آنے والے اخراجات بچ سکتے ہیں اور اس صورت میں نقدی کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی۔سبزیوں اور پھلوں کے حصول کے لیے بوائل ’’فوریسٹ گارڈنگ‘‘ کا طریقہ تجویز کرتا ہے۔ باغبانی کے اس طریقے میں چھوٹی سے جگہ کو جنگل کی شکل دینے کے لیے  مختلف انواع کے درخت اور پودے لگائے جاتے ہیں اور ان سے مختلف سبزیاں پھل اور جڑی بوٹیاں حاصل کی جاتی ہیں۔ freeeconomyنامی ویب سائٹ برطانیہ میں ایسے افراد کو ایک جگہ جمع کرتی ہے جو مختلف خدمات کے عوض اشیا کے لین دین کے طریقے پر عمل پیرا ہیں۔ مارک بوائل اس ویب سائٹ کا حصہ ہے۔تازہ انڈوں کے حصول کے لیے بوائل British Hen Welfare Trust کا نام تجویز کرتا ہے۔ یہ تنظیم مرغیوں کی ’’آزادانہ‘‘ زندگی کے لیے کوشاں ہے۔ یہ پنجروں میں قید مرغیوں کو آزاد کرواتی ہے اور ایسے افراد کو فراہم کرتی ہے جو انھیں قدرتی ماحول میں رکھنے  پر آمادہ ہوں۔ بوائل کا کہنا ہے کہ اس طرح آپ بغیر کچھ خرچ کیے تازہ انڈے حاصل کرسکتے ہیں۔ سرکہ بنانے کے لیے  کے نزدیک آسان طریقہ یہ ہے کہ آس پاس کے کسی باغ سے پھل حاصل کرکے ان کا سرکہ بنایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے مالک کی اجازت ضرور لی جائے۔ بعد میں شکریے کے طور پر ایک بوتل اسے بھی تحفے میں پیش کی جائے تو یہ سلسلے آگے بڑھنے میں آسانی رہے گی۔ بوائل کہتا ہے کہ شیمپو اور صابن کے لیے Soapwortیا غاسول نامی پودے کی کاشت کرکے یہ ضرورت پوری کی جاسکتی ہے۔ یہ پھول پانی میں کچلنے سے جھاگ پیدا ہوتا ہے اور اس سے بالوں اور جسم کی صفائی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ بوائل کے تصورات کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی اور اسے تخلیقی آئیڈیاز پر گفتگو عالمی پلیٹ فورم ٹیڈ ٹاک پر بھی مدعو کیا گیا۔ 

٭…٭…٭