کیا نام تھا بھئی اس خوبصورت ایرانی لڑکی کا ۔ سحرش تو یقینی تھا ۔آگے نام کا دوسرا حصہ کیا تھا۔ایزدانی ؟یزدانی یا سیستانی ؟ تھا کچھ ایسا ہی ۔ایک مکمل چہرہ نظر میں گھومتا ہے اور ایک ادھورا نام حافظے میں ۔اور دونوں ایک ساتھ جڑ نہیں رہے ۔ اس دن میں جامعہ تہران کے آس پاس کتابوں کی دکانوں میں گھوم رہا تھا۔صرف گھوم نہیں رہا تھا، کلاسیکی فارسی شاعری کی نہایت خوبصورت چھپی ہوئی کتابیں خرید بھی رہا تھا۔وہیں ایک دکان میں رباعیات خیام کاجیبی سائز کا مجموعہ نظر آیا۔ویسا جیبی ایڈیشن تو نہیں جیسا میرے والد گرامی جناب زکی کیفی کے پاس تھا۔اس سے کچھ بڑا۔ لیکن یہ ایڈیشن بھی بہت خوب صورت چھپا ہوا تھا۔میں نے دکاندار سے قیمت پوچھی ۔عام ایرانی انگریزی نہیں جانتا ۔ایرانی لہجے اور مروج فارسی میںاس نے جو قیمت بتائی وہ کافی زیادہ تھی ۔میں کم قیمت میں چاہتا تھا۔ اپنی پیش کش کی کسی طرح جوڑ جوڑ کر فارسی تشکیل دی اور اس کے سامنے رکھی ۔وہ سر کو خط استویٰ کے متوازی افقی رخ پر ہلانے کے لیے گویا تیار بیٹھا تھا۔جس کا مطلب تھا نہیں۔ ’ ’ میرا خیال ہے کہ آپ یہ کتاب رکھ دیں ۔ یہ آپ ہی کی قیمت پر مان جائے گا ‘ ‘۔ایک شیریں نسوانی آواز نے میرے پیچھے سے انگریزی میں کہا ۔میں نے مڑ کر دیکھا۔خوبصورت خد و خال اور کھلتے سفید رنگ کی ایک ایرانی لڑکی میرے پیچھے کھڑی مسکرا رہی تھی۔اس نے نیلی برساتی جیکٹ،نیلی جینز اور جوگرز پہنے ہوئے تھے۔سر پر سیاہ سکارف۔وہ بظاہر تہران یونی ورسٹی کی کوئی طالبہ تھی اور شاید کچھ دیر سے میری اور دکان دار کی بات سن رہی تھی ۔ میرے پاکستانی خدو خال اور غیر ایرانی لہجے نے اسے میری طرف متوجہ کیا تھا۔اس کی غیر متوقع مدد سے میرا حوصلہ بڑھ گیا ۔’ ’ آپ ہی کچھ مدد کریں۔یہ تو قیمت کم نہیں کر رہا ‘ ‘ ۔اس نے تیز لہجے میں دکان دار سے کچھ کہا ۔ کچھ دیر ان میں تکرار ہوتی رہی بالآخر کسی ایک قیمت پر سمجھوتہ ہوگیا۔قیمت ادا کرکے کتاب لیتے ہوئے میںنے اس کا شکریہ ادا کیااور اپنا تعارف کروایا۔ وہ سحرش تھی ۔آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ، تہران یونی ورسٹی کی ہنس مکھ طالبہ ۔اس نے خوش دلی سے مجھے خوش آمدید کہا ۔لاہور کے نام پر وہ کھل اٹھی تھی ۔’ ’ اقبال لاہوری ‘ ‘ ۔ اس نے کہا۔کتابوں کی دکانوں پر میرا کام ختم ہوچکا تھا۔ نہ بھی ہوتا تو اس لڑکی سے ملاقات کے بعد ویسے ہی کام تمام ہوجانا چاہیے تھا۔ہم دونوں دکان سے اکٹھے باہر آئے ۔’ ’ ذرا ٹھہریں ‘ ‘ ۔ اس نے کہا۔’ ’ میں آپ کو کہیں چائے پلاتی ہوں لیکن اس سے پہلے ایک فون کرلوں ‘ ‘ ۔اس نے بیگ سے موبائل نکالتے ہوئے کہا۔یہ پیش کش نہایت حوصلہ افزا تھی کیوں کہ دل کے مختلف مطالبات میں سے ایک یقینا چائے کی طلب بھی تھی ۔اس نے ایک نہیں دو فون کیے ۔جلدی جلدی بات ختم کی اور اب ہم تہران یونی ورسٹی کو شاہراہ ولی عصر سے ملانے والی سڑک پر تھے۔سرد ہوا چلنی شروع ہوگئی تھی ۔تیز جھونکوں میں اس کا سکارف اڑ رہا تھا اور اس کے سیاہ گھنے بال بکھر رہے تھے۔کچھ فاصلے پر ایک خوب صورت سے قہوہ خانے کے سامنے وہ رک گئی ۔’ ’ جتنی دیر میں وہ دونوں آئیں۔ ہم یہاں ان کا انتظار کرتے ہیں ‘ ‘ ۔جھٹکا زوردار تھا لیکن مجال ہے کہ میں نے چہرے پر اس کا اثر آنے دیا ہو۔ ’ ’ کون دونوں؟ ‘ ‘ ۔’ ’ میری سہیلی اور میرا منگیتر۔میںنے سوچا کہ ہم اکٹھے چائے بھی پیتے ہیںاور ان سے آپ کی ملاقات بھی کرواتی ہوں۔وہ آپ سے مل کر خوش ہوں گے۔یہیں تہران یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں دونوں ۔یہ دوسرا جھٹکا اور بڑا تھا لیکن ہو کچھ نہیں سکتاتھا۔نہ منگنی پرمیرا بس تھا ،نہ فون پر ۔پانچ سات منٹ بعد ایک اورپیاری سی لڑکی قہوہ خانے میں داخل ہوئی اور اس کے متصل بعد ایک قدرے فربہ خوش شکل ایرانی نوجوان۔ سحرش نے بہارے اسماعیلی اور علی بہرامی سے میرا تعارف کروایا ۔ہم چائے پر گپ شپ کرتے رہے ۔وہ کبھی پاکستان نہیں آئے تھے اس لیے اس بارے میں ان کے سوالات وہی تھے جو ایک اجنبی کے کسی ان دیکھے ملک کے بارے میں ہوسکتے ہیں۔میں انہیں بتاتا رہا کہ میرا تہران میں اب تک کس کس جگہ جانا ہوا ہے۔گفتگو میں ان کا قدرے محتاط ہونا سمجھ آتا تھا۔یہ تہران کے ماحول کا تقاضا بھی تھا لیکن رفتہ رفتہ دیوار گرتی گئی ۔نوجوان قدرے اٹک کر انگریزی بولتا تھا۔لڑکیاں نسبتاً بہتر۔لیکن وہ زبان کچھ بھی بولتے ہوںایک گھٹن سی ان کے اندر بولتی تھی ۔وہ اس ماحول ،اس فضا سے بیزار اور تنگ تھے اور یہ سمجھنے کے لیے زیادہ گفتگو کی بھی ضرورت نہیں تھی۔علی بہرامی روزگار سے مایوس تھا اور بہارے ملکی حالات سے ۔بار باراس نظام پر بات کرتے وہ تلخ ہوجاتے تھے۔سحرش شادی کے بعد امریکہ جانے کا ارادہ رکھتی تھی لیکن اسے شک تھا کہ ملکی قوانین اسے اس کی اجازت نہیں دیںگے۔اس تلخی کا کچھ علاج ایک نووارد اور اجنبی کے پاس اگر تھا تو یہ کہ وہ باتوں کا رُخ زندگی کی خوب صورتیوں کی طرف موڑتا رہے۔وہ مجھے تہران کی قابل دید جگہوں کے بارے میں بتاتے رہے اور افسوس کرتے رہے کہ تعلیمی مصروفیات انہیں میرے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ بہارے اسماعیلی ،شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کا سعد آباد محل دیکھنے کے لیے ساتھ جانے کی خواہش رکھتی تھی لیکن اکیلے کیسے ممکن ہو؟اس کے ساتھیوں نے ناقابل فہم فارسی میں اسے کچھ سمجھایا ۔وہ خاموش ہوگئی لیکن اس کے خوبصورت چہرے کی شکنیں صاف پڑھی جاسکتی تھیں۔میں نے بھی اصرار سے گریز کیا۔ قہوہ مزے دار تھا اور گپ شپ نمک آلود شیریں۔ ہم باہر نکلے تو سرد ہوا چل رہی تھی ۔کوہ البرز سے آنے والی رود کوہی کے کنارے چلتے ہوئے ہم بولتے بولتے چپ ہوجاتے اور چپ چاپ چلتے چلتے بول پڑتے۔ تیزہوا میں پتے ایک جگہ ٹھہرتے نہ تھے ۔اور پہاڑی ندی کسی گام رک نہیں سکتی تھی ۔کافی آگے وہ موڑ آیا جہاں سے ہمیں جدا ہونا تھا۔ہم نے الوداعی مصافحہ کیا اوررخصتی کلمات کہے۔ ایک اداس نمی آنکھوں میںکاجل کی طرح پھیلتی جاتی تھی ۔ اور پہاڑی ندی کا شور سینے میں گونج رہا تھا۔ہم تیز ہوا میں اڑتے پتے تھے یا پہاڑی ندی ۔ٹھہرنا ممکن نہیں تھا۔ دوست عارضی ہو یا دائمی ۔رفاقت چند گھنٹوںکی ہو یا ایک عمر کی ۔ اصل یہ ہے کہ جدائی آپ کے سینے میں کتنی خراشیں ڈال کر گزرتی ہے ۔ پاکستان واپس آکر بھی سحرش سے میرا دو تین سال رابطہ رہا۔ وہ امریکہ چلی گئی تھی اور شاید پھر وہیں رہ گئی ۔شادی ہوئی یا نہیں؟ ہوئی تو کس سے؟کچھ پتا نہیں۔بہارے اور بہرامی کہاں ہیں ۔معلوم نہیں۔لیکن آج ان اجنبی ہم نشینوں کو یاد کرکے ایک بار پھر خراشیں ہری ہوگئیں۔تہران کی سرد ہواؤں، رو کوہی ،گرتے پتوں،اور خزاں گرفتہ پیڑوں کی طرح یہ ہم نشین بھی میرے دل میں سدا محفوظ رہیں گے۔