کچھ عرصہ قبل انہیں سطور میں فزیو تھراپی کے حوالے سے ایک مضمون لکھا۔ جس میں ذاتی تجربے کی بنیاد پر اس شعبے میں خرابیوں اور اصلاح کی گنجائش سے متعلق حقائق سامنے رکھے۔ بیماری چاہے کوئی بھی ہو، اگر اس کا علاج ماہرین کی کمی یا بد دیانتی کی بنا پر درست انداز سے نہ ہو پائے تو اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں۔ ویسے تو مہذب معاشروں میں بھی پیشے کوذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے والے پائے جاتے ہیں۔ یہ ممالک چونکہ قانونی اور انسانی بہبود کے لحاظ سے پختہانداز میں پروان چڑھتے ہیں اس لیے وہاں لمبے عرصے تک لوگوں کو نقصان کم ہی پہنچایا جا سکتا ہے۔ عطائت شاید امریکہ میں بھی پائی جاتی ہے۔ پوری دنیا میں اس کا وجود ہے۔ بہت سے ممالک نے اس کے خاتمے کے لیے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ ان عطائیوں کی تربیت کر کے انہیں پیرا میڈیکل سٹاف کا حصہ بنا دیا گیا۔ عطائیت ہر اس علاج کے طریقہ کار کو کہتے ہیں جو کسی بھی بیماری کے مجوزہ علاج کا حصہ نہ ہو۔ جیسے کہ ہومیو پیتھ کا کھانسی کا شربت تجویز کرنا۔ اسی طرح گائنی ڈاکٹر کا کینسر کی ادویات دینا یا ہڈی اور جوڑوں کے درد کی تشخیص کرنا وغیرہ۔ کوئی بھی فزیشن جسم میں کسی بھی بیماری کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے لیکن وہ اس کی پیچیدگیوں اور علاج کی مختلف جہتوں کا علم شائد نہ رکھتا ہو۔ اسی کو جدید علوم میں Specialisation کہتے ہیں۔ پاکستان میں عطائیت کے خاتمہ کی بات تو دور اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن جس کے قانونی دائرہ اختیار کا یہ حصہ ہے کہ معیاری طبی خدمات مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ہر اس راستے کو بند رکھے جہاں سے غیر مستند لوگ اس شعبے میں داخل ہو سکتے ہیں۔ بہر حال کمیشن نے تو شائد بہت کوشش کی کہ ہسپتالوں میں علاج کے کم سے کم معیار کو قائم رکھا جائے لیکن اگر محکمہ صحت پنجاب اور اس سے جڑے دیگر ادارے اس معاملے میں سنجیدہ نہ ہو ں تو یہ ادارہ سوائے خزانے پر بوجھ بننے کے اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ معاشرہ چاہے کتنی بھی گرواٹ کا شکار ہو جائے اسکا انحطاط تب تک ممکن نہیں جب تک اس اندھیرے میں ایک بھی شخص امید کی شمع روشن کئے ہو۔ ایسے ہی ایک شخص کا نام ڈاکٹر عامر سعید ہے۔ یہ پیشے کے لحاظ سے فزیو تھیراپسٹ ہیں اور آجکل شیخ زاید ہسپتال لاہور میں شعبہ فزیو تھراپی کے سربراہ ہیں۔ یہ اچھرے میں اپنا پرائیویٹ کلینک بھی کرتے ہیں جہاں لوگوں کو مختلف مشینوں اور ورزش کے ذریعے علاج فراہم کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عامر جام کندھے کو کھولنے کے ماہر ہیں۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کے بہت سے علاج ہیں۔ زیادہ تر ہڈیوں کے ڈاکٹر پہلے مرحلے ہی میں سٹیرائڈ کے انجیکشن کی تجویز دے دیتے ہیں۔ یہ انجیکشن سوائے اس کے کہ مریض کی وقتی درد کو فوری ختم کر دے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتا۔ جبکہ مریض کی مجموعی صحت پر اس ٹیکے کے منفی اثرات بہت ہی بھیانک مرتب ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بلاوجہ ایم آر آئی کی طرف مریضوں کو نہیں مائل کرتے۔ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ایکسرے کیذریعے ہی مرض کی شناخت ہو جائے اور علاج بھی۔ ایسے مریض بھی دیکھے جنہیں ریڑھ کی ہڈی کے کینسر نے چلنے پھرنے سے معذور کر دیا تھا لیکن مخصوص تھراپی سے انہیں چلنے کے قابل کر دیا گیا۔ اسی طرح ذہنی اور جسمانی طور پر مکمل معذور بچے بھی نہ صرف چلنے لگے بلکہ انہیں تھراپی کے لیے خود مختلف زاویئے بناتے پایا۔ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن ڈاکٹر عامر کا عملہ اس خدمت کو بہت احسن طریقے سے انجام دیں رہا ہے۔ یہ تو ہیں علاج کے وہ طریقے جو سب ہی کسی نہ کسی طرح استعمال کرتے ہیں لیکن ایک ایسی خوبی بھی ہے جو اگر ہر ڈاکٹر اپنا لے تو مریض کی آدھی تکلیف دور ہو جاتی ہے۔وہ ہے مرض کا ڈر ختم کرنا۔ میں جب ڈاکٹر عامر کے پاس علاج کے لیے گئی تو مری گردن کی دائیں طرف جہاں C-3 C-4 مہرے ہیں وہاں شدید چبھن ہوتی تھی۔ یہ ایک سال سے ہو رہی تھی۔ ان سے پہلے ایک تھراپسٹ سے آٹھ ماہ سے علاج کروا رہی تھی۔اس کے مطابق یہ نس دبی ہوئی ہے جسے وہ آہستہ آہستہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جبکہ میرے ایکسرے میں ایسی کوئی خبر نہیں تھی۔ ڈاکٹر پر اعتماد کی وجہ سے اس طرف دھیان ہی نہیں گیا۔ لیکں جب اللہ تعالٰی آپ پر مہربان ہو تو کوئی بھی آپکو زیادہ دیر تک دھوکے میں نہیں رکھ سکتا۔ ڈاکٹر عامر نے پہلے تو یہ بتایا کہ یہ چبھن کسی نس کی نہیں بلکہ پٹھے کے اکڑاو کی وجہ سے ہے، یہ سنتے ہی میرا آدھا خوف ختم ہو گیا۔ پھر جب بھی چبھن یا درد کی شکایت کرتی تو وہ بس یہ کہتے ‘‘کچھ نہیں ہے۔’’ آپ ٹھیک ہو’’ان دو لفظوں نے اسٹرائڈ کا کام کیا اور جو جام کندھا پچھلے ایک سال سے زیر علاج تھا اسے پندرہ دن میں کھول دیا۔ فزیو تھراپی کے شعبے میں عطائیت بہت زیادہ پائی جاتی ہے کیونکہ اس شعبے کی نہ تو کوئی کونسل ہے اور نہ ہی اس علاج کو جانچنے کے معیار کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس لیے جس کا جو دل چاہتا ہے علاج کرتا ہے۔ ادویات تجویز کرتا ہے۔ درد دور کرنے والی ادویات کا براہ راست اثر گردوں پر پڑتا ہے۔ ہڈیوں اور پٹھوں کے علاج کے لیے ان ادویات کا بھی بے مہار استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عامر بھی ان ادویات کا سہارا لیتے ہیں لیکن ڈیفنس کے مشہور ہسپتال کے اس فزیو تھراپسٹ کی طرح نہیں جو کسی بھی معمولی یا پیچیدہ بیماری کا علاج اس وقت تک توجہ سے نہیں کرتے جب تک آپ نیورو فزیشن سے تین ماہ کی ادویات کا کورس فزیو کے ساتھ ساتھ جاری نہ رکھیں۔ گھٹن کے اس ماحول میںایسے اچھے معالج جن کا مشن صرف یہ ہو کہ مریض اپنی نارمل زندگی میں واپس آجائے کسی نعمت سے کم نہیں۔ فزیوتھراپی ایک پیچیدہ اور مہنگا علاج ہے اس لیے حکومت پنجاب کو چاہیے کہ اس کی رجسٹریشن اور معیار کو جانچنے کے سٹینڈرڈز جلد از جلد تیار کرے۔