ستلج اور اس کے مشرق میں واقع لق و دق صحرا ، روہی (چولستان )کے درمیان چالیس کلومیٹرسرسبز پٹی میں واقع اپنے گاوں میں سوا مہینہ حسرت ویاس کی تصویر بنا بیٹھا رہا۔ رشتہ دار اور برادری کا پرسا اپنی جگہ دمان سے بھی غمخوار پہنچے جہاں کوہ سلیمان سے اترنے والی ندیاں قیامت بن کر ٹوٹی تھیں۔ بیٹے کی جدائی کا غم دوہرا ہوگیا۔دمان کے سیلابی ریلوں میں تو بستیاں تک بہہ گئی تھیں۔ بھوک اور بیماری نے پس ماندگان کو زندہ در گور کر رکھا تھا۔ستلج کے اِس پار اگرچہ کپاس کی فصل یلغار سے محفوظ رہی تھی لیکن مہنگائی نے چھوٹے زمینداروں کو ، جو بہاولپور میں کثرت میں ہیں، نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا تھا۔ ستلج کناروں سے نہیں نکلا تھا لیکن حالات یہ تھے کہ گندم گھر پر ہونے کے باوجود بھی بھوک تھی۔ دیہات دودھ ، دہی اورسبزیوں سے محروم اور لوگوں کی قوت خرید اتنی کم کہ بجلی کے بل ادا کرنا مشکل۔ میرے گھر کے سامنے ایک ہسپتا ل کھل چکا تھا، عمارت کی پیشانی پر بچوں کے معروف ڈاکٹر کا نام لکھا تھا ۔ اصل میں اسے چند نوجوان چلا رہے تھے جنہوں نے کالج کا منہ تک نہیں دیکھا لیکن وہ آرسینک ملے زیر زمین پانی سے پیدا شدہ امراض کا با اعتماد طریقے سے علاج کر رہے تھے۔ میں نے بستی میں دھوئیں کے اٹھتے غول دیکھے، پوچھنے پر پتہ چلا کہ گھگیاں پکانے کے لیے بھٹیاں بنی ہوئی ہیں، گھروں کا کوڑا کرکٹ اور پلاسٹک جلا کر ایندھن کا بندوبست کرتے ہیں۔ لوگ دمہ کے مریض بن گئے ہیں ۔ کوئی کچھ کہے تو غربت کی دہائی۔ محکمہ صحت اور ماحولیات کچھ کرے۔ میرے ایک کزن ، جو متوقع اور بار بارملتوی ہونے والے مقامی انتخابات میں یونین کونسل کی چئر مین شپ کا امیدوار ہے ، نے سیاست پر بات کرنے کی کوشش کی لیکن میری عدم دلچسپی دیکھ کر چپ ہوگیا۔اس سیاست کا تذکرہ جو کہ اب نفاق کا شکار ہوکر ناسور بن چکی ہے،بے سود سہی، لیکن مسئلے کو جانے بغیر حل بھی تو ممکن نہیں۔ سیاسی بازیگروں کی بات نہیں کرتے کہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں لیکن ان لوازمات ذکربالکل ہی منا سب معلوم ہوتا ہے جو سیاست سے متعلق ہیں۔ یعنی اس وقت جو سیاست ہو رہی ہے اس کی نوعیت، عوامل اور نتائج کیا ہیں۔ ریاست کا ایک جوا ز ہوتا ہے جو اقوام متحدہ کے منشور میں واضح طور پر درج ہے۔ احترامِ آدمیت قائم کرنا اور اسے نئی بلندیوں تک پہنچانا۔ بھوک ،بیماری اور تشدد جیسے عوامل جو انسانیت کی تذلیل کا باعث بنتے ہیں ان کا سدباب کرنا۔ ترقی ہو اور یکساں ہو تاکہ احساس محرومی پیدا نہ ہو۔ خوشحالی کی دوڑ میں کوئی پیچھے نہ ر ہ جائے۔انتظامی ڈھانچہ اور معاشی نظام کیا ہو، اہم بات یہ ہے کہ مساوات اور عدل ہو، حرص وہوس کی حوصلہ شکنی ہوتا کہ لوگ اپنی فطری خواہشات کی تسکین کے لیے ظلم وستم کی طرف مائل نہ ہوں۔ اس سلسلے میں ریاست تمام مالی اور انتظامی وسائل برو کار لاتی ہے تاکہ اپنے فرائض سے عہدہ برآہوسکے۔ بانی پاکستان کا پہلی دستور ساز اسمبلی سے گیارہ اگست کو کیا گیا خطاب ان تمام مسائل کا احاطہ کرتا ہے جو ثقافتی طور پر متنوع معاشروں کو درپیش ہیں اور ان کا حل بھی۔ مساوات پر مبنی شہریت کا عالمی تصور ، عدل اور فرقہ وارانہ اور نسلی تعصبات کی حوصلہ شکنی۔ بانی پاکستان کے بتائے زریں اصولوںکو سامنے رکھ کر آئین سازی کرنا تھی اور ملک کو جدید فلاحی ریاست بنانا تھا۔ جانا کہیں تھا، کہیں آنکلے ہیں۔ استعماری دور کے پروردہ خاندانوں ، جو اس ملک کی تقدیرکے مالک بنے بیٹھے ہیں، کا ایک پائوں وطن میں ہے تودوسرا سات سمندر پار۔ عوام کی آزادیاں مسلوب اور معیشت گروی۔ اگر سیاست کا مقصد یہی ہے تو ملکی سلامتی کا تصور ہی محال ہے۔ کثیر نسلی و لسانی معاشرے کو ایک لڑی میں پروکر اسے قوم بنانے کی بجائے اسے تقسیم در تقسیم کردیا گیا۔ مذہب کو ڈھال بنا کر طبقاتی مفادات کا تحفظ کرنے کا یہ نتیجہ کیاکم تھا کہ جمہوریت کا گلہ دب گیا اور ملک میں فرقہ واریت درآئی، اٹھارویں ترمیم کے بعد تو وفاق کو نسلی رنگ بھی دے دیا گیا۔چار قومی وفاق جس میں کوئی پانچویں اکائی نہیں بن سکتی۔ ملک کی نظریاتی اساس میں ایک اور عنصر شامل کرلیا گیا ہے۔ سیاسی ، انتظامی اور مالی طور پر خود مختار حکومتیں یکساں اور متوازن ترقی کے لیے لازمی ہیں لیکن جمہوریت کی ٹھیکے دار بنی حکمران پارٹیاں ہی اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اسلام آباد واپسی پر ایک دانشور دوست سے ملاقات ہوئی ،انہوں نے میرے لمبا عرصہ غائب رہنے کی وجہ پوچھی تو میں ٹال گیا۔ان کے ذہن میں سیاسی ناچاقی کے تناظر میں کچھ خدشات تھے جنہوں نے مجھے جنگ عظیم اول سے پہلے کے دور کی یاد دلا دی تھی جس میں طاقت کا توازن تھا ،جنگ مہنگا سودا تھا اور حریف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے پیشہ ور قاتلوں کا سہارا لیتے تھے۔ وہ ایک سیاستدان کے بارے میں متفکر تھے جو عدالتی اصرار کے باوجود وراثتی سیاست سے سمجھوتے کی بجائے جیل میں جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ لیکن ان کے ذہن میں وہ بات نہیں تھی جسکا میں ہمیشہ اپنے کالموں میں ذکر کرتا ہوں: طوائف الملوکی (انتشار،انارکی) جسے سوویت یونین کے انہدام کے بعد ایک عالمی طاقت اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سٹریٹجک ہتھیا ر کے طور پر استعمال کررہی ہے۔مشرق وسطیٰ کا حال سامنے ہے۔ میں نے اس ضمن میں بات کی تو انہوں نے مجھے پر اعتماد نظروں سے دیکھا اور اس لفظ کے ساتھ کنٹرولڈ (باضابطہ)کا اضافہ کردیا۔ میں نے ان سے اجازت چاہی اور دفتر سے باہر نکل آیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا موسم گرما میں کوہ سلیمان پر لگی آگ اور غیر متوقع سیلاب کے درمیان کوئی تعلق ہوسکتا ہے؟ اس پہاڑی سلسلے کی چوٹیوں پر سارا سال برف رہتی ہے اور سامنے گلیشئر۔ انڈس ہائی وے اور کچھی کینال کی وجہ سے پانی کے راستے بند تھے، علاقہ ایک بڑا سیلاب برداشت نہیں کر سکتا تھا۔۔۔شاید میرا ذہن زیادہ ہی سٹریٹجک ہوگیا تھا۔ عالمی سیاست کی پیچیدگیاں اور اشرافیہ کی ہوس اپنی جگہ لیکن تقدیر بھی تو کسی چیز کا نام ہے۔