دنیا بڑی تیزی سے بدل رہی ہے۔یوکرین پر روسی حملے نے بھی دنیا میں ایک عجیب افراتفری پیدا کر دی ہے۔سردیوں کی آمد کے ساتھ یورپ میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ مل کر روس کے مخالفت کے یورپ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔گیس اور بجلی کی کمی نے یورپی ممالک کو بھی لوڈشیڈنگ پر مجبور کر دیا ہے۔ایک طرف امریکہ روس کو شکست دینے کے لئے آخری حد تک جانے کا عزم رکھتا ہے اور دوسری طرف اپنی فوج کی زمینی کارکردگی دیکھتے ہوئے روس اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو لہرانے پر مجبور ہو گیا۔یوکرین نے ایک چھوٹا اور کمزور ملک ہونے کے باوجود جس بہادری سے اپنا دفاع کیا ہے وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے۔یوکرین اپنے پانچ سو مربع کلو میٹر علاقے کو دوبارہ قبضے میں لے چکا ہے۔یوکرین کے عزم مصمم نے روس کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنی حکمت عملی تبدیل کرے۔روس نے ان آپریشنز کے انچارج جنرل کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔کیو میں حالات کافی حد تک نارمل ہو چکے ہیں اور جنگ کا میدان شرقی علاقوں تک محدود ہو چکا ہے ۔یوکرین نے روس کو کریمیا سے ملانے پر 19کلو میٹر لمبے پل کو جس طرح دھماکے سے تباہ کیا وہ بذات خود ایک کارنامہ تھا۔کہاں روس ان خیالوں میں تھا کہ دو تین ہفتے میں یوکرین کو فتح کر کے اسے De weaponizeکر دے گا اور اب یہ عالم ہے کہ خود روس‘ امریکہ اور یورپ اس جنگ کے دیرپا اثرات دیکھ کر حیرت زدہ ہیں۔پوری دنیا قحط کے اندیشے میں مبتلا ہے کہ دنیا کی 40فیصد گندم روس اور یوکرین میں ہی پیدا ہوتی ہے۔یوکرین تنہا دنیا کا تقریباً 50فیصد سن فلاور آئل پیدا کرتا تھا۔جنگ کے نقصانات بے حساب ہوئے ہیں لیکن یوکرین ایک بہادر قوم کی حیثیت سے نئی زندگی پا گئی ہے اور اس نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنی آزادی کی قیمت ادا کر سکتی ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ وزیر اعظم پاکستان نے میکا کانفرنس میں پہلی دفعہ پاکستان کا موقف بڑے بہتر انداز میں پیش کیا ہے اور بھارت کی کشمیر پالیسی کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔بھارت مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کے جس منصوبے پر عمل پیرا ہے‘ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس کی قلعی کھول دی ہے اور اسے Bullet over balletکی پالیسی قرار دیا ہے۔وزیر اعظم نے بھارت کو سنجیدہ مذاکرات سے باہمی مسائل حل کرنے کی دعوت دے کر بھی ایک احسن اقدام کیا ہے۔اتحادی حکومت کی اندرونی پالیسی پر جتنی بھی تنقید کی جائے لیکن پاکستان کے باہر پوری قوم کو ان کے پیچھے کھڑے ہونا چاہیے۔امریکہ اس وقت چین کو روس کی نسبت زیادہ خطرناک مدمقابل سمجھتا ہے اور اس لئے ہمارے خطے میں اس کی ساری پالیسی چائنہ سنٹر کی ہے۔بھارت بھی اس کا فائدہ اٹھا رہا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کو بھی نظرانداز کیا جا رہا ہے۔پاکستان میں لوٹ کھسوٹ کے عمل نے پاکستان کو اقتصادی طور پر اتنا کمزور کر دیا ہے کہ پاکستان ایک آزاد اور فعال خارجہ پالیسی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔پاکستان کو اقتصادی خود انحصاری کے لئے دیرپا اور دلیرانہ پالیسی کی ضرورت ہے۔پاکستان میں سستی کھادیں اور خالص ادویات کا حصول حکومت کے ایک حکم سے ممکن ہو سکتا ہے ۔فی الحال تو پاکستانی کسان اور باقی عوام بجلی اور تیل کے نرخوں سے ہی پریشان ہیں یقینا اس کے لئے ملک میں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے ۔بھارت دنیا کی پانچویں بڑی اقتصادی قوت بن چکا ہے۔اگر وزیر اعلیٰ دہلی کی گفتگو سنی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ دہلی کے صوبے میں خواتین کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ مفت ہے۔ہر گھر کے لئے دوسو یونٹ بجلی مفت ہے۔ہسپتال دوائی مہیا کرتے ہیں اور حکومت کے سکول اتنے بہتر ہو چکے ہیں کہ پرائیویٹ سکول ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔وزیر اعلیٰ کچری وال کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ اس لئے ممکن ہوا ہے کہ انہوں نے کرپشن کے دروازے بند کر دیے ہیں اور اپنے لئے ذاتی ہیلی کاپٹر نہیں خریدا۔آخری نقطہ جو اپنے انٹرویو میں انہوں نے بتایا وہ یہ تھا کہ کوئی صوبہ اور کوئی ملک غریب نہیں ہوتا۔سارا دارومدار حکمرانوں کی نیت اور ان کی ایمانداری پر ہے۔بس یہی ایک بات پاکستانیوں کو سمجھنے کی ہے کہ اپنے حکمران چنتے وقت ملکی مسائل کے حل کا خیال رکھیں۔دنیا کہاں جا رہی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ہم یقینا وہیں کھڑے ہیں جہاں سات دہائیاں قبل کھڑے تھے اس لئے ہمارے مسائل بھی نہیں بدلے اور وسائل بھی نہیں بدلے۔کل پاکستان کا بیشتر حصہ بجلی کے تعطل کا شکار ہو گیا۔سندھ‘ بلوچستان اور پنجاب کے بیشتر علاقے دس بارہ گھنٹے تاریکی میں ڈوبے رہے۔سندھ ہائیکورٹ نے کے الیکٹرک کے CEOکے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے کہ ان کے عدالتی معاملات کا حرج ہوا ہے۔ان کے پاس اختیار تھا سو انہوں نے استعمال کیا۔اب سوال یہ ہے کہ عام پاکستانی کیا کرے اور کس کے سامنے فریاد کرے کہ وہ اپنی آمدنی سے زیادہ بجلی کا بل ادا کرتا ہے اور بجلی سے محروم رہتا ہے وہ کاروبار زندگی کیسے چلائے۔ پاکستان میں کام کرنا واقعی نہایت مشکل ہے۔ پاکستان میں کام کرنے والی ایک کمپنی جو پاکستان میں E commerceکی سب سے بڑی کمپنی ہے اور سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کا کاروبار کرتی ہے۔اس کے CEOآج کل پاکستان کے دورے پر ہیں. ان کا بیان نظر سے گزرا کہ پاکستان اس علاقے میں کام کرنے کی مشکل ترین جگہ ہے۔وہ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور نیپال میں بھی کام کرتے ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد کے سب سے بڑے شاپنگ سینٹر میں آتشزدگی کا حادثہ ہوا۔بجائے اس کے کہ متاثرین کی کوئی مدد کی جاتی‘ شاپنگ سنٹر کو سیل کر دیا گیا ہے اور تحقیقات ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہیں۔اس سے ہزاروں لوگ روزگار سے محروم ہو گئے ہیں لیکن یہ تو ہماری حکومت کا دردسر نہیں ہے۔حکومت تو شاید صرف یہ دیکھ رہی ہے کہ اس کے مالک کا تعلق مخالف سیاسی جماعت سے ہے۔اس لئے اس شاپنگ مال کو جتنی دیر بند رکھا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ان حالات میں ہم کس منہ سے لوگوں کو پاکستان میں کاروبار کا مشورہ دیں گے۔پاکستان کے وزیر اعظم اور ان کے فرزند ارجمند جو پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ ہیں جس سرعت کے ساتھ منی لانڈرنگ کے مقدمے سے باعزت بری ہوئے ہیں وہ پاکستان میں ایک نیا ریکارڈ ہے۔اگر اسی تیزی سے عام آدمی کو بھی پاکستان میں انصاف دیا جا سکے تو ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ہمیں چھوٹے چھوٹے ذاتی اختلافات کو بھلا کر ایک قوم کی طرح سوچنے کی ضرورت ہے۔پچھلے 75سال میں ذاتی مفادات کا کھیل بہت ہو چکا ہے اب پاکستان کو دلدل سے نکالنے کی ضرورت ہے۔سردیوں کے بارے میں وزیر اعظم پہلے ہی خبر دے چکے ہیں کہ گیس کی خرید ہماری بساط سے باہر ہے۔اس لئے گیس کے بغیر گزارہ کرنا سیکھیں۔کیا اب پاکستان کے باقی ماندہ جنگلات کو جلایا جائے گا۔ہمیں کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔دنیا کہاں جا رہی ہے اور ہم کس راستے پر گامزن ہیں۔