سلطان محمود غزنوی نے اچانک دربار میں موجود شرکاء سے پوچھا کوئی شخص مجھے حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کرا سکتا ہے؟ ہر سو خاموشی چھا گئی‘ پھر ایک غریب دیہاتی کھڑا ہوا اور کہا میں آپ کو حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کرا سکتا ہوں مگر میری ایک شرط ہے۔ سلطان نے شرط پوچھی تو بولا مجھے دریا کنارے چھ ماہ تک چلہ کاٹنا ہو گا جبکہ میں غربت کے باعث اس عرصہ میں اپنے اہل و عیال کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا آپ اگر چھ ماہ تک میرے گھریلو اخراجات کا ذمہ لیں تو میں چلہ کاٹ کر آپ کی حضرت خضر ؑسے ملاقات کا اہتمام کر سکتا ہوں۔ سلطان کو یہ معمولی شرط قبول کرنے میں کیا عار تھا‘ فوراً مان لیا اور چھ ماہ کے اخراجات کی رقم یکمشت دیہاتی کو دینے کا حکم دیا‘ دیہاتی چھ ماہ بعد حاضر ہوا اور عرض کیا کہ چلہ الٹا پڑ گیا بڑی مشکل سے جان بچا کر آیا ہوں مزید چھ ماہ کی اجازت اور اخراجات دیں تو کوشش کروں‘ سلطان نے اجازت اور گھریلو اخراجات کے لئے معقول رقم دیدی۔ چھ ماہ بعد غریب دیہاتی کو دربار میں پیش کیا گیا تو اس نے بلا حیل وحجت عرض کیا بادشاہ سلامت! کہاں حضرت خضر علیہ السلام اور کہاں میں ان پڑھ ‘ گناہگار دیہاتی‘ بیوی بچے بھوکے مر رہے تھے‘ بہانہ سوجھا ‘ آپ کی مہربانی سے مرے اہل خانہ کو ایک سال تک اچھا کھانے کو ملا اور میں محنت مزدوری کے علاوہ لوگوں کی جھڑکیوں سے بچ رہا‘ اب جو چاہیں سزا دیں میں حاضر ہوں۔ سلطان نے اپنے ایک وزیر سے پوچھا یہ کس سزا کا مستحق ہے‘ وزیر بولا سرکار اس شخص نے ظل الٰہی سے جھوٹ بولا اس کا گلہ کاٹ دیا جائے۔ دربار میں موجود ایک بزرگ نے وزیر کی تائید کی اور کہا وزیر نے درست کہا‘ سلطان نے ایک دوسرے وزیر سے رائے طلب کی تو اس نے کہا حضور یہ صرف جھوٹ نہیں‘ دھوکہ دہی کا مرتکب ہوا اس کو کتوں کے آگے ڈالا جائے تاکہ یہ ذلیل ہو کر مرے اور اسے مرنے میں کچھ وقت لگے‘ بزرگ نے اس وزیر کی بھی حمائت کی اور کہا بادشاہ سلامت یہ ٹھیک کہتا ہے۔ سلطان نے اب اپنے خاص غلام ایاز کو مخاطب کیا اور پوچھا تمہارا کیا خیال ہے؟ ایاز بولا بادشاہ سلامت آپ کے جودو سخا کے طفیل اس غریب کے بچے ایک سال تک پلتے ‘آپ کو دعا دیتے رہے ‘آپ کے خزانے میں کمی آئی نہ اس کے جھوٹ سے شان میں کوئی فرق پڑا‘ آپ نے سزا دی تو اس غریب کے بچے بھوک سے مریں گے ۔بزرگ نے ایاز کی بات کو بھی سراہا اور کہا یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ سلطان محمود غزنوی کو سب سے زیادہ حیرت اس بزرگ کی باتوں پر ہوئی جو ایاز سمیت ہر ایک کی تائید کرتا رہا۔ سلطان نے بزرگ سے پوچھا آپ نے ہر شخص کے مشورے کو درست کہا‘ اس کی وجہ سمجھائو‘ بزرگ کہنے لگے بادشاہ سلامت پہلے نمبر پر جس وزیر نے کہا غریب دیہاتی کا گلا کاٹ دیا جائے وہ قصاب خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور گلے کاٹنا اس کا آبائی پیشہ ہے غلطی اس کی نہیں آپ کی ہے جو اسے وزیر بنا لیا‘ دوسرا شخص جس نے اسے کتوں کے آگے ڈالنے کا مشورہ دیا ‘ اس کا والد شاہی خاندان کے شکاری کتوں کو نہلاتا اور کتوں کا شکار دیکھتا تھا ۔اس نے اپنی سرشت ‘ عادت اور پسند کے مطابق رائے دی۔ آپ نے وزیر بنا کر حلقہ مشاورت میں شامل کیا‘ ایسے لوگ وزیر ہوں تو لوگ بھوکوں ہی مریں گے۔ ایاز نے جو رائے دی اس کا سبب یہ ہے کہ وہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتا ہے جس کے بزرگ و جواں معرکہ کربلا میںقتل کر دیے گئے مگر اس نے کبھی بدلے کا نہ سوچا‘ ہمیشہ عفو ودرگزر سے کام لیا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ میں ہر ایک کے خاندانی پس منظر‘ اور افتاد طبع کے مطابق دی گئی رائے کی تائید کیوں نہ کرتا۔ سلطان محمود غزنوی بزرگ کی باتوں سے متاثر ہوئے‘ غریب دیہاتی کی سرکاری خزانے سے کفالت کا حکم دیا اور ایاز کی قدر ومنزلت میں اضافہ ہو گیا۔ ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا حضور! میری شکائت سنگین نوعیت کی ہے میں اسے برسر دربار بیان نہیں کر سکتا۔ تخلیہ درکار ہے‘‘ سلطان محمود غزنوی اسے لے کر خلوت کدے میں چلے گئے اور شکایت بیان کرنے کو کہا‘ وہ بولا! سرکار ایک عرصے سے آپ کے نوجوان بھانجے نے یہ وطیرہ اختیار کر لیا ہے کہ وہ مسلح ہو کر میرے مکان پر آتا‘ مجھے مار پیٹ کر باہر نکال دیتا اور خود میری گھر والی سے زیادتی کرتا ہے‘ غزنی میں کوئی نہیں جس نے میری فریاد پر توجہ دی ہو‘ ہرطرف سے مایوس ہو کر میں آپ کے پاس حاضر ہوا کہ آپ مجھے انصاف دیں گے ۔بادشاہ نے کہا تم سب سے پہلے میرے پاس کیوں نہ آئے اب تک ظلم کیوں برداشت کیا‘ سائل بولا حضور دربانوں اور چوبداروں کی موجودگی میں یہ ممکن نہ تھا۔ آج بھی کسی تدبیر سے یہاں پہنچا ہوں‘ سلطان نے سائل کو تسلی دی اور کہا اس گفتگو کو کسی پر افشا نہ کرنا‘ اب جس وقت یہ شخص دوبارہ تمہارے گھر میں آئے مجھے اطلاع کرنا‘ دربانوں کو حکم دیا کہ یہ شخص دن اور رات کے جس پہر حاضر ہو مجھ سے ملوایا جائے اور کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے‘ تیسری رات سائل نے آ کر بتایا کہ وہ نوجوان گھر میں موجود ہے ۔بادشاہ نے تلوار اور سواری لی اور ساتھ چل پڑا۔ دبے پائوں گھر پہنچ کر اس نے دوسرے کمرے کے دروازے کی درزوں سے واقعہ بچشم خود دیکھا‘ شیر کی طرح نوجوان پر جھپٹے اور اس کا سر قلم کر دیا‘ سلطان نے ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بعد شمع روشن کرائی اور نوجوان کا چہرہ دیکھ کر الحمد للہ کہا‘ پھر سائل سے کہا کہ پانی لائو‘ پانی پی کر سلطان گھر سے رخصت ہونے لگا تو اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے پوچھا حضور نوجوان کا سر قلم کرنے کے بعد آپ نے چہرہ کیوں دیکھا الحمد للہ آپ کی زبان سے کیوں نکلا اور پانی پینے کی وجہ کیا تھی‘ سلطان نے کہا میں حیران تھا کہ میرے خاندان میں ایسا بدبخت پرورش پاتا رہا اور مجھے خبر نہ ہوئی لیکن روشنی میں نوجوان کا چہرہ دیکھ کر میں نے الحمد للہ اس بنا پر کہا کہ اس کا میرے خاندان سے کوئی تعلق نہ تھا‘ جبکہ تین دن سے میں نے اپنے اوپر دانہ پانی حرام کیا ہوا تھا۔ جب تک میں تمہیں انصاف فراہم نہ کرتا‘ اپنے فرض سے سبکدوشی کے بعد میں نے پانی پی کر اپنی پیاس بجھائی۔ جسٹس کھڑک سنگھ مہاراجہ پٹیالہ کے ماموں اور لمبی چوڑی جاگیر کے مالک تھے ایک دن بھانجے سے فرمائش کی کہ مجھے سیشن جج لگا دیں۔ اس زمانے میں سیشن جج کا تقرر وائسرائے کرتا تھا۔ مہاراجہ نے وائسرائے کو چھٹی لکھی۔ سرکاری مہر لگائی اور کھڑک سنگھ کو وائسرائے کے پاس بھیج دیا۔ ماموں جان لاٹ صاحب کے سامنے پیش ہو گئے وائسرائے نے چھٹی پڑھی اور مہاراجہ کی خیریت معلوم کرنے کے بعد کھڑک سنگھ سے پوچھا کہ ان کی تعلیم کیا ہے۔ کھڑک سنگھ بولے کیوں سرکار !میں کسی سکول میں بچے پڑھانے کا آرڈر لینے آیا ہوں‘ میں نے تو اچھے بُرے کی تمیز کرنی ہے اچھوں کو چھوڑنا ہے بُروں کو سزا دینی ہے میں پنچائت میں بھی یہی کام کرتا ہوں اس کے لئے کمر پر کتابیں لادنے کی کیا ضرورت ہے‘ وائسرائے نے مزید بحث میں پڑے بغیر آرڈر جاری کیا اور کھڑک سنگھ پٹیالہ کے سیشن جج مقرر ہو گئے۔ واپسی پر عدالت سجی قتل کا ایک مقدمہ پیش ہوا مدعیہ ایک غریب خاتون تھی ‘کرانتی کور نے کھڑک سنگھ کو بتایا کہ سامنے کھڑے چار افراد نے میرے خاوند کو کھیتوں میں قتل کیا دائیں ہاتھ کھڑے شخص کے ہاتھ میں برچھا تھا‘ درمیان والا کسی لے کر آیا تھااور باقی دونوں کے ہاتھ میں لاٹھیاں تھیں‘ کھڑک سنگھ نے چاروں سے پوچھا کیوں بھائی تم نے بندہ مار دیا‘ ایک ملزم نے کہا ’’ نہیں جی‘ میرے ہاتھ میں تو برچھا کی بجائے بیلچہ تھا‘‘دوسرا بولا‘ میرے ہاتھ میں سوٹی تھی جس کے آگے درانتی بندھی تھی پتے جھاڑنے والی‘ ’’چلو تمہارے ہاتھ میں جو کچھ بھی تھا بندہ تو مار دیا نہ تم نے‘‘ کھڑک سنگھ نے بات کاٹتے ہوئے کہا‘ ایک شخص پھر بولا جناب ’’ہمارا مقصد اسے قتل کرنا نہ تھا وہ تو اس کی موت آئی تھی مر گیا ہمارا کیا قصور؟ ‘‘کھڑک سنگھ نے کہا ایسی کی تیسی تمہاری تمہارا کیا مقصد تھا ؟یہ اپنے پاس رکھو اور سزائے موت کا فیصلہ لکھوانا شروع کر دیا‘ ایک اور شخص اٹھا اور کہا حضور! میں آپ کو اصل واقعہ سمجھاتا ہوں یہ خاتون جھوٹ بول رہی ہے‘ کھڑک سنگھ نے کہا ’’تم کون ہو‘‘؟ ’’میں ان کا وکیل ہوں‘‘ وہ شخص بولا ’’وکیل یعنی ان کا ساتھی اور ترجمان‘‘ ’’جی ایسا ہی سمجھ لیں‘‘ کھڑک سنگھ نے فیصلہ لکھوایا ان چار کے ساتھ پانچویں کو بھی سزائے موت کیونکہ یہ بھی ان کا ساتھی ہے‘ ان کی صفائی قتل کا جواز پیش کرنے والا۔ ‘‘پٹیالہ میں تھرتھلی مچ گئی کہ کھڑک سنگھ آ گیا ہے جو قاتل کے ساتھ وکیل کو بھی پھانسی دیتا ہے جرم کرنے سے پہلے سوچ لو۔