پاکستان اردو فائونڈیشن کے زیر اہتمام دو روزہ لٹریچر فیسٹیول جاری ہے جس میں ادب و صحافت اور سائنس و آرٹ پر درجن سے زائد سیشن رکھے گئے ہیں‘یہ ادبی میلہ ایک نجی تعلیمی ادارے میں ہو رہا ہے جو قابلِ داد بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔کالج کی سطح پر ایسی تقریبات خال خال ہی نظر آتی ہیں کیونکہ نجی تعلیمی اداروں کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں مگر شاہد رضا نے ایک انوکھا کام کر دکھایا‘وہ جس ادارے میں بھی بطور سربراہ گئے‘وہاں علم و ادب کا چراغ روشن کیے رکھا۔یہ دو روزہ بین الاقوامی میلہ بھی برادر شاہد رضا کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔راقم کو اس ادبی میلے میں پہلے روزکے ایک سیشن مدعو کیا گیا جس کا موضوع ’مت قتل کرو آوازوں کو‘رکھا گیا ہے۔یہ سیشن پاکستانی صحافت کی تلخ کہانی پر مکالمہ ہے جس میں محترم مجیب الرحمن شامی‘فرخ سہیل گوئندی اور گل نوخیز اختر گفتگو کریں گے‘یہ تینوں مایہ ناز صحافی پاکستانی صحافیوں کو درپیش مسائل اور نام نہاد جمہوریت اور آمریت کے دور میں ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کی کہانی بیان کریں گے۔ راقم کوبطور ماڈریٹر اس تلخ داستان کو اپنے پینل کے سامنے رکھنا ہے اور ان سے پوچھنا ہے کہ کیا صحافی برادری کبھی محفوظ بھی رہی یا ہمیشہ ظلم و ذیادتی کا نشانہ بنتی رہی‘آمریت آئی یا نام نہاد جمہوری دور‘پاکستانی صحافی ہمیشہ گالی اور گولی کی زد میں رہا،صحافی نے سچ بولا تو غدار قرار دے دیا گیا اور اگر کسی مصلحت کے تحت چپ رہا تو اِسے منافق کا تمغہ دے دیا گیا‘ایسا کیوں؟کیا ایک سچا اخبار نویس جانبدار ہونا چاہیے یا غیر جانبدار؟ اور اگر غیر جانبدار ہونا چاہیے تو پھر ہر دور میں اسے’ ٹشو پیپر‘ کیوں سمجھا گیا‘یہ ایسا المیہ ہے جس نے پاکستانی صحافت کا چہرہ مسخ کر دیا ہے۔آج کسی کو بھی بتائیں کہ ہم صحافی ہیں‘وہ پہلا سوال یہی کرتا ہے کہ آپ کس سیاسی پارٹی سے ہیں؟یعنی سیاسی پارٹیوں نے صحافی ’پال‘رکھے ہیں۔ایک زمانے میں یہ کام شاعر کرتے تھے‘مختلف درباروں سے وابستگی اور سرکار بہادر کی نگاہ میں عزت پانے کے لیے قصیدہ گوئی کرتے‘بادشاہ کے غلط کاموں کا بھی دفاع کرتے تاکہ انعامات و اعزازت سے نوازے جائیں۔اگر کوئی ’بد دماغ‘ فنکار بادشاہ کے خلاف بولنے کی جرأت کر بیٹھتا تو اس کا’ بندوبست ‘کر دیا جاتا ‘جیسے آج کیا جاتا ہے۔ہر دور کا مزاحمتی ادب یا صحافت ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں قلم کاروں کو یا تو سولی پر چڑھا دیا گیا یا پھر سرعام گولی مار دی گئی۔آج پاکستانی صحافت کہاں کھڑی ہے؟یہ بہت اہم سوال ہے ؟ہم پہلے تو یہی سنتے تھے کہ قلم کاروں یا صحافیوں پر مارشل لاء کے ادوار بہت تلخ تھے‘کوئی ’بد دماغ‘فنکار یا قلم کار بغاوت کا سوچتا بھی تو اسے کسی ’ان جانی‘ دنیا میں پہنچا دیا جاتا تاکہ ’نہ رہے بانس،نہ بجے بانسری‘۔ ہم کہنے کو آج اکیسویں صدی کی تیسری دہائی سے گزر رہے ہیں مگر ذہنی طور پر ابھی بھی کسی مارشل لائی دور میں ہیں‘اخبار نویس اور صحافی آج بھی اتنا ہی غیر محفوظ اور بے وقعت ہے جتنا ماضی میں تھا‘نام نہاد جمہوری ادوار بھی آزادیِ اظہارِ رائے کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے‘آج بھی صحافی کو اس کی محنت کا صلہ منافق اور غدار کہ کر دیا جاتا ہے‘آج بھی صحافی یا تو نامعلوم مقام پر پہنچا دیے جاتے ہیں یا پھر قتل کر دیے جاتے ہیں۔پاکستانی اردو صحافت کی پچھہتر سالہ تاریخ میں درجنوں نہیں سینکڑوں ایسی مثالیں موجود ہیں‘کالم کی طوالت کا خدشہ پیشِ نظر نہ ہوتا تو درجنوں نام لکھتا ۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے ذہنی وابستگی رکھنے والے صحافیوں کے خلاف قانونی کاروائیاں کی گئیں‘ان کے پروگرامز بند کروائے گئے‘کالم نگاروں کو اخباروں سے نکلوایا گیا‘رپورٹرز کو دھمکیاں دی گئیں‘جلسوں میں سرِ عام تشدد کا نشانہ بنے مگر آج تک ملزم پڑے گئے اور نہ ہی حکومت نے اپنی نااہلی تسلیم کی۔عمران خان جو خود کو سب سے بڑا جمہوری لیڈر کہتے ہیں‘انھوں نے جاتے جاتے پیکا آرڈیننس کا تحفہ دے گئے۔پھر پی ڈی ایم کی حکومت آئی‘شہباز شریف وزیر اعلیٰ بنے تو تحریک انصاف سے وابستگی رکھنے والے صحافی ’نرغے‘میں آ گئے‘ایف آئی آرز سے لے کر ملک بدری اور قتل تک‘ایک لمبی کہانی ہے‘کس کس دکھ کو بیان کیا جائے اور کس کس صحافی کی بات کی جائے‘ایک تکلیف دہ داستان ہے۔ جب صحافیوں اور اخبار نویسوں سے طبیعت سنبھلی تو چینلز کی طرف رخ کیا‘کئی اہم میڈیا ہائوسز کے اشتہارات بند کیے گئے‘پیمرا کے ذریعے چینلز کے این او سی تک کینسل کروانے کی کوششیں ہوئیں اور مالکان کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی رہی‘یہ سب کیا ہے؟کیوں ہے؟ اور کب تک ایسا رہے گا۔ میں کسی ایک دور ِ حکومت کی بات نہیں کر رہا‘ہر جمہوری دور میں بھی یہی ہوتا رہا ‘کبھی الزام سیاست دانوں کا دیا جاتا رہا اور کبھی اشرافیہ اور طاقت ور حلقوں کو۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ’’اردو لٹریچر فیسٹول‘‘ میںاس اہم ترین موضوع کو زیر بحث لایا گیا اور اس سیشن کا عنوان ’مت قتل کرو آوازوں کو‘رکھا گیا جو معروف مزاحمتی شاعر احمد فرازؔ کی نظم کا مصرعہ ہے۔میں برادر شاہد رضا اور ان کے رفقائے کار کا ممنون ہوں کہ انھوں نے صحافی برادری کے حق میں آواز بلند کی اور اس اہم ترین موضوع پر پینل ڈسکشن کا اہتمام کیا۔آپ احمد فرازؔ کی نظم ملاحظہ فرمائیں: تم اپنے عقیدوں کے نیزے ؍ہردل میں اتارے جاتے ہو؍ہم لوگ محبت والے ہیں؍تم خنجر کیوں لہراتے ہو؍اس شہر میںنغمے بہنے دو؍بستی میں ہمیں بھی رہنے دو؍ہم پالنہار ہے پھولوں کے؍ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں؍تم کس کا لہو پینے آئے؍ہم پیار سکھانے والے ہیں؍اس شہر میں پھر کیا دیکھو گے؍جب حرف یہاں مر جائے گا؍جب تیغ پہ لے کٹ جائے گی؍جب شعر سفر کر جائے گا؍جب قتل ہوا سر سازوں کا؍جب کال پڑا آوازوں کا؍جب شہر کھنڈر بن جائے گا؍پھر کس پر سنگ اٹھائو گے؍اپنے چہرے آئینوں میں؍جب دیکھوں گے ڈر جائو گے۔ ٭٭٭٭٭