تقسیم برصغیرکے دوران ریاست جموںوکشمیر کے عوام ہندو ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے جبرو استبدادکے خلاف اٹھے اور ایک بھرپورعملی جدوجہد کے ذریعے آزادی حاصل کرکے تاریخ میں جرات، بہادری، عزیمت، شہادتوں اور قربانیوںکی ایک لازوال داستان رقم کی ۔ڈوگرہ شاہی سے یہ علاقہ آزاد ہوا تو 24 اکتوبر1947ء کو اس علاقے کا نام آزاد ریاست جموں و کشمیر‘‘ رکھاگیا اوراس کا مملکت کاحصہ بنا دیاگیا لیکن مملکت پاکستان اورآزاد ریاست جموںوکشمیرکی بانی قیادت نے باہم معاہدوں کے توسط سے مقبوضہ کشمیرکی بھارت سے آزادی حاصل کئے جانے تک آزاد ریاست جموںوکشمیرکا ایک الگ سٹیٹس فراہم کیا جس کی رو سے اس کا انتظامی ڈھانچہ پاکستان کے صوبوں سے یکسر مختلف ہے۔ انتظامی ہییت ترکیبی میںکئی دیگرامورکے ساتھ ساتھ آزاد ریاست جموں وکشمیر کے ریاستی سربراہ کووزیراعظم کہا جاتا ہے جبکہ اس ریاست کا اپنا سپریم کورٹ ہے جس کے صادرشدہ فیصلوں کو پاکستان کی سپریم کورٹ میں چلینج نہیں کیا جا سکتا ۔1974ء میں آزاد کشمیر ریاست جموںوکشمیرکا نظم و نسق چلانے کے لئے ایک عبوری آئین کا ڈھانچہ تشکیل پایا ہے جس کی تمہید میں لکھا گیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی نگرانی میں ریاست جموں و کشمیر میں استصواب رائے کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حتمی حل ہو جانے تک آزاد کشمیرکا یہ عبوری آئین نافذالعمل ہے ۔ اس عبوری آئین میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ ابھی تک ریاست جموں و کشمیر کی بطوراکائی کے سٹیٹس کاتعین نہیں ہوا، اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ا س کا تشخص اوراس کا تعین ہونا ہونا باقی ہے۔ ریاست آزادجموںوکشمیرکے قیام کے وقت یہ طے پایاکہ آزاد ریاست جموںوکشمیر مقبوضہ کشمیرکی تحریک آزادی کا’’بیس کیمپ ‘‘ہے اور آزادی کا یہ سفر تب تک جاری رہے گا جب تک سارے کا سارا کشمیر آزاد نہ ہوجائے۔ اس ضمن میں آزاد کشمیرکی حکومت تحریک آزادی کشمیر کی تکمیل کیلئے جدوجہد کریگی اورمقبوضہ کشمیرکے اپنے بھائیوں کو بھارت سے آزادی دلانے میں اپنا بھرپورکردارنبھائے گی۔ آزاد کشمیر کے غیورعوام نے روز اول سے ہی مجاہدین کشمیر کو اپنے دلوں میں بسایا، اور ان کی بشری کمزوریوں اورکوتاہیوں سے درگزرکیا۔غرض ہر مرحلے پرانہیں احساس دلایاکہ وہ اکیلے نہیں آزاد جموںوکشمیر،بیس کیمپ کے عوام کی حوصلہ افزائی سے تحریک آزادی کشمیرکے کارکنان نے اپنے آپ کو قطعاً بے یارومددگارنہیں سمجھا ا ور وہ تحریک آزادی کشمیر کے لئے سب کچھ تج دینے کے لئے آمادہ ہوئے۔ تحریک آزادی کشمیرکب تلک کامیابی سے ہمکنار ہوجائے گی کچھ کہا نہیں جا سکتا البتہ ایک بات جو ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے اس تحریک کے’’بیس کیمپ ‘‘کے ساتھ چھڑ چھاڑ سے تحریک آزادی کشمیرکی روح کو مجروح ہوجائے گی ۔ پاکستان کے ارباب حل و عقد کوایسے ہراقدام سے گریز کریں جو تحریک آزادی کشمیرکیلئے حوصلہ شکنی کاباعث بنے ۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رو سے کشمیر کے عوام حق خود ارادیت رکھتے ہیں اور حق خودارادیت کا مطلب ریاست جموں و کشمیرکے سارے کے سارے علاقوں کا الحاق پاکستا ن سے ہوگا اوریہی مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل ہے۔ لیکن شومئی قسمت! پاکستان کے حکمران تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ’’آزادکشمیر‘‘ کے سٹیٹس کو چھیڑ کرکے اپنے پائوں پرکلہاڑی مارنے کی کوششوں میں مصروف ہیںجس سے مقبوضہ کشمیر میں انتہائی مہلک پیغام جا رہا ہے ۔ لاکھوں جانوں کی قربانیاں دینے والے اسلامیان کشمیریہ سمجھتے ہیں کہ تحریک آزادی کشمیرکے بیس کیمپ کے ڈھانچے اور آزاد کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنا احماقانہ ہے۔یہ اسی کاشاخسانہ ہے کہ ماہ جولائی اور اگست 2022ء کو آزادکشمیر کے قوم پرست جوپاکستان کے خلاف صف آراء ہونے کے لئے بہانے کی تلاش میں ہوتے ہیں نے آزادکشمیر بھر میں پاکستان کے خلاف دھمال ڈالا۔سوال یہ ہے کہ ان قوم پرستوں کوموقع کس نے فراہم کیااوراسکی ضرورت کیوں پیش آئی ۔ شعوروادراک سے ماوریٰ تمام حقائق کوپس پشت ڈال کرآخر ایسے اقدام اٹھانے کی نوبت کیوں آئی کہ جس سے کشمیرکاز متزلزل ہوگا۔جبکہ سب جانتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کا آزاد خطہ پاکستان کاجزء لاینفک ہے اور جس طرح پنجاب، سندھ ، بلوچستان کو پاکستان سے کوئی چھین نہیں سکتا عین اسی طرح آزاد کشمیر کو پاکستان سے کوئی علیحدہ نہیں کر سکتا۔ آزاد کشمیر کے یونٹ کواپنے خدوخال کے ساتھ قائم ودائم رکھنے کامطلب یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کا غالب حصہ مقبوضہ کشمیرکوبھارتی قبضے سے جب تک چھڑاکر پاکستان کاحصہ نہیں بنایا جاتاتب تک بیس کیمپ قائم رہناچاہئے اوریہیں سے مقبوضہ کشمیرکی تحریک آزادی کی کامیابی کے خواب کوتعبیرمل جائے گی۔ لیکن یہ امرسمجھ سے بالاتر ہے کہ پاکستان کے حکمران عجلت میں ایسے اقدام اٹھارہے ہیں جن کی چنداں کوئی ضرورت نہیں۔ واضح رہے کہ جون2020ء میں سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے آئین میں پندرھویںترمیم کا ایک مسودہ تیار کر کے آزاد کشمیر کی حکومت کو ارسال کیا۔اس مسودے میں آزاد ریاست جموںو کشمیر کے عبوری آئین میں 2018ء میں ہونے والی13 ویں ترمیم کے تحت بیشتر انتظامی، مالیاتی اور قانون سازی کے اختیارات جو اسلام آباد سے مظفرآباد منتقل کردیئے گئے تھے لیکن اب ایک بار ان اختیارات کی واپس اسلام آباد منتقلی کاروڈ میپ دیاگیا۔اس دوران پاکستان میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم گئی لیکن پاکستان میںمسلم لیگ ن سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد ایک بارپھر وہ منصوبہ سامنے آیا جوعمران حکومت کرنے جارہی تھی ۔اب کی بار15ویں آئینی ترمیم کا 26 صفحات پر مشتمل مجوزہ مسودہ تیار کرلیا ، اس کے مطابق دیگر کئی باتوں کے ساتھ ساتھ کشمیر کونسل کو بحال کیاگیااوراس کی قانون سازی کو بالا دست قراردیاگیا۔ کونسل کے فیصلوں کو اسمبلی میں زیر بحث نہیں لایا جاسکتا نہ کسی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس صاحبان، اعلیٰ عدلیہ کے ججز، چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا اختیار وزیراعظم پاکستان کو حاصل ہوگا۔