اگر خلافتِ راشدہ کا زمانہ ہوتا تو موجودہ غذائی بحران میں، حکمران بھی اس وقت تک گند م کا استعمال نہ کر سکتے، جب تک کہ یہ عام آدمی کو دستیاب نہ ہوتی۔ پاکستان جیسے زرعی ملک میں اِس جنس کی کمیابی از حد فکر انگیز مسئلہ ہے۔ ان ایام میں، جبکہ ہم بطور خاص خانوادہ نبوّت اور کبارِصحابہؓ کی یاد منارہے ہیں، تو ہم پر واضح ہونا چاہیے کہ دورجدیدِ میں جس ویلفیئر سٹیٹ کے تصوّر پر دنیا نازاں ہے۔ جس میں شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق،ان کی سماجی ترقی، معاشی خوشحالی اور زندگی گزارنے کے لیے ابتدائی ضروریات و سہولیات کی فراہمی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں،اس کے ابتدائی تصوّرات وتخیلات بلکہ عملی مناظر اور مظاہر عہدِرسالتمابﷺاورپھر بطورِ خاص خلفائے راشدین سے دنیا کو عطا ہوئے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیقؓنے اپنا روزینہ مدینے کے ایک عام مزدور سے بڑھنے نہ دیا، یہاں تکہ اگر اس رقم میں سے کچھ بچاکر، آپؓ کی اہلیہ نے آپؓ کیلیے میٹھا بنا لیا، تو آپؓ نے اسکا بھی نوٹس لیا اور اس میں یہ کہہ کر تخفیف کردی کہ ہمارا گزارا اس سے بھی کم رقم میں ہوسکتا ہے۔ حضرت فاطمۃ الزہرائؓ نے بوقتِ افطار دروازے پہ صدا دینے والے مسکین، یتیم اور اسیر کو مسلسل تین روز اپنا سارا دستر خوان ارسال کیا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے قحط کے ایام میں ایسی ہر غذائی جنس کو اپنے اوپر ممنوع قرار دے دیا،جو اس ہنگامی صورتحال میں عام شہری کو میسر نہ تھی۔ مصر جیسے متمدن اور ترقی یافتہ خطے میں برپا ہونے والی سات سالہ قحط سالی جس میں گندم اور اناج ناپید ہو گیا تھا۔ میں حضرت یوسفؑ کی اس’’ایڈمنسٹریشن اور مینجمنٹ‘‘ سے اکتساب بھی ہونا چاہیے، جہاں آپ نے اپنی طویل المدت اور قلیل المدت پالیسی کے تحت ایک طرف مصر کے معاشی حالات کو غیر متوازن ہونے سے بچایا اور دوسری طرف ’’راشن بندی‘‘ کا ایک ایسا طریقہ وضع کیا، جس کے مطابق فی کس کے حساب سے سرکاری سطح پر راشن فراہم ہوتا۔ اور یوں طلب اور رسد میں توازن کیساتھ پورے خطے میں ایک ہی جامع پالیسی عملی طور پر نافذ ہوئی، جسکے مطابق مخصوص مقدار سے زائد غلے کی فراہمی کا امکان ختم ہو گیا۔ شاہ مصر کی سالگرہ کے میلے میں، جب ہر طرف خوشیوں اور مسرتوں کی برکھا تھی۔ بادشاہ وقت ولید بن ریان نے کہا کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ سات کمزور گائیں اور سات موٹی تازی۔ کمزور والی موٹی والیوں کو کھائے جا رہی ہیں، اسی طرح سات ہرے بھرے خوشے ہیں اور سات خشک شدہ بالیں۔ جو خشک ہیں وہ سبز بالیوںکو کھائے جا رہی ہیں۔ بادشاہ نے اپنے خواب کے حوالے سے تشویش ظاہر کی۔ حاشیہ نشینوں نے معاملہ کو ٹالنے کیلئے اسکو بے معنی قرار دینے کی کوشش کی‘ ایسے میں شاہی ساقی گری کا فریضہ سرانجام دینے والا‘ جو قید خانے میں حضرت یوسفؑ کا ساقی رہ چکا تھا اور حضرت یوسفؑ‘ اس کو، اپنے منصب پر بحالی کی نوید عطا فرما چکے تھے۔ اور اس کو یہ بھی فرمایا تھا کہ رہا ہونے کے بعد‘اپنے آقا سے‘ میرا ذکر کرنا‘ مگر وہ ایسا نہ کر سکا۔ اب وہاں کی ملکی ضرورت اور اپنی اہمیت کے سبب، حضرت یوسفؑ کی خدمت میں جانے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا، بہرحال ادب، محبت اور لجاجت سے بادشاہ کا خواب آپ کی خدمت میں پیش کرتے رہے۔ آپؓ عالم انسانیت پر رحم فرماتے اور اس اہلکار کی بیتابی اور نفسیات جانتے ہوئے‘ کہ بادشاہ سے انعام کی حرص اور قدرومنزلت میں اضافے نے، اس میں بے صبری پیدا کر دی ہے۔ قیدی کی حوائج اور نفسیات اپنی جگہ… لیکن آپ ایک مدبر اور معتبر کے طور پر واضح انداز میں فرما تے ہیں کہ گائے کا توانا ہونا نعمت کی فراوانی پر دلالت ہے اور لاغر ہونا مشکلات کا غماز… جبکہ سرسبز خوشوں کا، خشک خوشوں سے لپٹ جانا دو مختلف ادوار کی طرف ایک باریک اشارہ ہے۔آپ ارشاد فرما تے ہیں کہ سات سال پیہم محنت سے کاشتکاری کرو اور جو فصل کاٹو اسے خوشوں سمیت سرکاری گوداموں میں محفوظ کرو، سوائے محدودمقدار کے، جو کھانے کے لئے ضروری ہو۔ فصل کو خوشوں سمیت جمع کرنے میں حکمت یہ تھی کہ یہ غلہ اور اناج قدرتی آفات یعنی دیمک سْرسْری اور کیڑوں مکوڑوں سے محفوظ رہ سکے۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے حسن تدبر سے اس قدیم عہد میں، بہترین منصوبہ بندی کی اعلیٰ مثال انسانیت کو عطا فرمائی اور پھر آپؑ نے امید، آسودگی اور حوصلہ کی روشنی بھی دکھا دی کہ قحط سالی کی شدت کے بعد اللہ ایسا سحاب کرم عطا فرمائے گا کہ تمہارے پھلوں سے رس نچوڑے جانے لگیں گے، جو خوشحالی کی علامت ہے۔ بادشاہ مصر نے مملکت کے معروضی حالات سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ لائق، مدبر اور بافراست مشاورت اور پھر اچھی گورننس ہی سلطنت کے تنِ مردہ میں روح حیات کا باعث بن سکتی ،اورحضرت یوسفؑ کی استقامت اور فہم و فراست ہی ان کی مملکت کے لئے بقا کا ضامن ہو سکتی ہے۔حضرت یوسفؑ اپنی رہائی پر کسی عجلت کا مظاہرہ نہیں فرماتے۔ بلکہ اپنی عزت و وقار پاکدامنی، اخلاقی پاکیزگی کو پایہ ثبوت تک پہنچانے کے بعد …ایک جہاندیدہ ‘ جری اور بہادر شخص کی طرح بادشاہ کے پاس تشریف لاتے ہیں۔ گویا ایک تابناک مستقبل جیل سے باہر آپ کا منتظر تھا۔ اس موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ جیل غموں کا گھر اور زندوں کا قبرستان ہے،یہ دوستوں کا آزمائش کدہ،اور دشمنوں کی سرزنش گاہ ہے۔ پھر آپ نے دعا فرمائی اے میرے رب نیک لوگوں کے دلوں کو قیدیوں کی طرف راغب فرما دے۔ آپ نہایت وقار اور متانت سے شاہی دربار میں پہنچے۔ آپ کی حسن تدبیر کے اجالوں نے شاہی محل کو اپنے حصار میں لے لیا۔ ستر زبانوں کے شناور‘ علم و فضل اور تدبر و تفکر کی اقلیم کے شہسوار کے حسن کلام کے سامنے بادشاہ کی عقل کا دنگ ہونا ایک فطری سی بات تھی۔ بادشاہ زیادہ دیر مصنوعی وقار کو برقرار نہ رکھ سکا۔ وسیع اختیارات کی کنجیاں آپ کے سامنے ڈھیر کرتے ہوئے، ملک کے پیش آمدہ بحران کی نجات دھندگی کا تاج آپ کے سر پر سجایا۔ کمزور عوام کی مدد کے لئے آپ کاروبار سلطنت سنبھالنے کے لئے آگے بڑھتے ہیں اور مصر کے زمینی دفینے اور اقتصادی ذخائر کو اپنی دورس پالیسیوں سے، ایسا نفع بخش بناتے ہیں کہ اس بحران اور قحط سالی میں بھی انسانیت کو دو وقت کی روٹی میسر رہتی ہے۔حضرت یوسفؑ کے حسن انتظام سے پھوٹتی روشنیاں۔۔۔ افق تا افق۔۔۔ سیاسی،عمرانی اور روحانی زندگی کو منودر کر دیتی ہیں۔ سات سالہ نعمت و برکات کی فراوانیاں۔۔ اب قحط سالیوں کی آزمائش میں بدل جاتی ہیں ،پہلے دولت و نعمت سے آزمایا گیا ، اب عسرت وفقر سے۔خوراک کی فراہمی کایہ انتظام اور اہتمام صرف ارض وطن مصر ہی کے لئے نہ تھا‘ بلکہ کنعان ‘ فلسطین سمیت اردگرد کے فاقہ زدہ قافلے اور قحط سوختہ کارواں بھی مصر کی طرف رخ موڑ دیتے ہیں۔ ان حالات میں آپ کی حکمت عملی میں پیدائش دولت سے بھی زیادہ ’’تقسیم دولت‘‘ کے مرحلے کی نگرانی اہم ہے۔ قحط سالی کے اس نازک دور میں۔ دور دراز سے آنے والے حاجت مندوں میں غلہ تقسیم کئے جانے کی براہ راست نگرانی اور ان کے باقاعدہ ریکارڈ کی جانچ پرکھ ازخود فرماتے ہیں۔ ایسی ہی پڑتال کے دوران آمدگان فلسطین کی تفصیل دیکھی اور غلے اور اناج کے حصول کے لئے اپنے بھائیوں کے نام پائے تو انہیں فوراً پہچان لیا۔یہ بھائی وہ تھے جنہوں نے آپ کو کنویں میں پھینکا تھا۔ خانوادہ نبوت کے اس نور اور روشنی کو ہمیشہ کے لئے گل کرنے کی کوشش کی۔ حسد اور بغض سے لبریز سفلی خواہشات کی تاریکیاں۔ مہر نبوت کے درپے ہوئیں۔ لیکن وسائل فطرت کی عادلانہ تقسیم اور ان کا مدبرانہ استعمال اور ضرورت مندوں کا احترام اور اکرام ریاستی فریضہ ہے، جس کے لئے ذاتی رنجش اور پرکاش کو بروئے کار نہیں آنے دینا چاہیے۔مزید یہ کہ حضرت یوسفؑ جو کہ اپنے بھائیوں کو پہچان لیتے ہیں۔ ان سے اپنی حقیقت پوشیدہ رکھنے کے سبب۔ اپنی پدری زبان کی بجائے عبرانی زبان جو"State Languageتھی۔ میں گفتگو کرتے ہیں،جو کہ اس امر کی بھی غماز ہے کہ سربراہان مملکت کو ریاستی اقدار اور قومی شعار کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔