پنجاب کے بعد خیبر پختون خوا اسمبلی کی تحلیل کے بعد ملک کی ستر فی صد آبادی الیکشن میں حصہ لے گی۔ اب یہ فیصلہ وفاقی حکومت اور مقتدر قوتوں کو کرنا ہوگاکہ سارے ملک میں ایک ساتھ الیکشن کراکر ملک میں سیاسی استحکام قائم کرنا چاہتے ہیں یا پھر ایک برس اور قوم کو الیکشن کے بخار میں مبتلا رکھنا ہے۔ سیاست کی شطرنج پر ابھی تک عمران خان کا پلہ بھاری ہے۔نون لیگ کو جس طرح پنجاب اسمبلی میں سیاسی ہزیمنت اٹھانا پڑی، اس نے یہ حقیقت طشت ازبام کردی کہ اسٹبلشمنٹ غیر جانبدار ہوتو کوئی بھی سیاسی جماعت یا شخصیت ناقابل تسخیر نہیں۔ عمران خان کی مقبولیت اور پرویزالہٰی کی سیاسی چالوں نے نون لیگ کو اپنے گھر میں شدید سیاسی مشکلات کا شکار کردیا ہے۔ اتفاق سے مسلم لیگ نون کی سیاسی بنیاد ہی پنجاب ہے اور اگر پنجاب ہاتھ سے پھسلاتاہے تو وہ سیاسی منظر نامہ پر ثانوی حیثیت کی حامل بن جائے گی۔ پرویز الہٰی کی قاف لیگ اور تحریک انصاف اگر مل کر چلتے ہیں تو وہ نون لیگ کو پنجاب میں چاروں شانے چت کرسکتے ہیں۔ پرویز الہٰی جیسے اتحادی کی صورت میں تحریک انصاف اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بلاواسط رابطے میں آچکی ہے ۔اس طرح اس کی سیاسی مشکلات بھی کسی حد تک کم ہوجائیں گی۔رواں ہنگامہ میں مونس الہٰی کے سیاسی قد کاٹھ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ وہ عمران خان کے چہتے بن چکے ہیں۔ اگر قاف لیگ تحریک انصاف میں ضم ہوتی ہے تو مونس الہٰی کی سیاست کو چار چاند لگ جائیں گے۔ یوں وہ پنجاب میں ایک طاقت ور کھلاڑی کے طور پر ابھریں گے ۔چودھری شجاعت کے صاحبزادے ان کے سامنے ٹک نہ سکیں گے۔ اپریل میں برسراقتدار آنے تک نون لیگ ملک کی سب سے مقبول جماعت تھی ۔وزیراعظم شہبارشریف کی شہرت تعمیر اور ترقی کے جادوگر کی تھی۔ ان کی زنبیل میں ملک کو راتوں رات خوشحال بنانے کے درجنوں نسخے تھے لیکن یہ سب ایک بھک سے اڑگیا۔ ہوا یہ ہے کہ شہبازشریف تمام تر محنت اور کوششوں کے باوجود اپنا رنگ جمانہ سکے۔ قصور شہباز شریف کا نہیں اگرپاکستان کی زمام کار عمروعیار کے حوالے بھی کی جائے تو وہ بھی ناکام اور نامراد ہوگا اور آخر میں منہ چھپا کر ایتھوپیا ہجرت کرجائے گا۔ نوازشریف کے سمدھی وزیرخزانہ اسحاق ڈارکی معاشی پالیسیوں نے نون لیگ کی کمر توڑدی۔ مہنگائی کے بوجھ تلے لوگوں کی چیخیں ساتویں آسمان تک پہنچ رہی ہیں۔اب اگر نون لیگ سیاسی میدان میں کمزور ہوتی ہے اس میں قصور کسی اور کا نہیں بلکہ اس کی اپنی لیڈرشپ کا ہے۔ جو عوامی جذبات اور احساسات کا ادراک ہی نہیں کرسکی۔ دوسری طرف شریف خاندان کا حال یہ ہے کہ اندھا بانٹے ریوڑیاں مڑمڑ کر اَپنوں کو دے ۔ مریم نواز شریف کو پارٹی کا چیف آرگنائزر بنادیاگیا۔ پنجاب میں وزارت اعلیٰ شہبازشریف نے اپنے صاحبزادے حمزہ شہباز کے سپرد کی۔سیاسی کارکنان اور سیاست دان بننے کے خواہش مندوں کے لیے شریف برادران کا ایک ہی پیغام ہے کہ نون لیگ میں سیاست کا مرکز ومحور ان کے خاندان کے سوا کچھ نہیں۔ اس انداز سیاست نے لوگوں کو نون لیگ کی لیڈرشپ سے بہت مایوس کیا۔باالخصوص اس ملک کے ساٹھ فی صد سے زائدہ نوجوان یہ تصور بھی نہیں کرسکتے ایک سیاسی اور جمہوری جماعت ہونے کی علمبردار پارٹی کے تمام اہم عہدے ایک ہی خاندان اپنے گھر میں تقسیم کرلے اور پارٹی کی سینئر لیڈرشپ بلاچوں وچراں اس فیصلے کو قبول کرلے۔ تحریک انصاف اقتدار میں تھی تواس کی مقبولیت اور ڈیلیور کرنے کی صلاحیت پر نہ صرف شہریوں کو شکوک وشبہات پیدا ہوچکے تھے بلکہ خود تحریک انصاف کے داخلی حلقوں میں بھی یہ بحث عام تھی کہ اگلے عام الیکشن میں ’’عزت‘‘ بچانا مشکل ہوگی لیکن چند طاقت ور شخصیات کے انتقام، غصے اور انّا نے عمران خان کو اسلام آباد سے نکلا تو وہ زیادہ بڑی سیاسی قوت اور حقیقت بن کر ابھرے۔ ان کے خلاف جو گند اچھالا گیا، اس نے بھی عمران خان کو کوئی قابل ذکر نقصان نہیں پہنچایا کیونکہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ کسی کی ویڈیو یا آڈیو لیک ہوگئی اور کسی کی لیک ہونے کو ہے۔ پنجاب اسمبلی تحلیل ہوچکی ہے۔ صوبائی کے الیکشن نوے دن میں کرانے ہوں گے۔ الیکشن سے فرار کاکوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ تخت لاہور سے ہی اسلام آباد یا پاکستان پر حکمرانی کا راستہ گزرتاہے۔ لہٰذا اگلے چند ہفتوں اور ماہ کے دوران ساری لڑائی پنجاب فتح کرنے پرمرکوز ہوگی۔ گزشتہ نو ماہ کے دوران نون لیگ تمام تر کوششوں،وفاقی حکومت،اداروں اور اتحادی جماعتوں کی مدد کے باجود پنجاب میں کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔ نون لیگ اور پی پی پی اگر قوم پر مہربانی کریں تو پورے ملک کے الیکشن ایک ساتھ ہوسکتے ہیں۔ اس طرح پاکستان حالت’’نزاحــــ‘‘ سے نکل سکتاہے۔ ورنہ یہ سال پورا الیکشن کے ہنگاموں کی نذر ہوجائے گا۔کام کاج پہلے ہی لوگوںکے پاس نہیں۔ معاشی مشکلات نے شہریوں کا جینا دوبھرکیا ہوا ہے۔ یہ سال بھی اسی طرح نکل گیا 23 کروڑ لوگوں کو سنبھالنا مشکل ہوگا۔ کہاجاتاہے کہ جس کا کام اسی کا ساجھے۔ سیاست بغیر کسی مداخلت کے چلتی رہے۔ الیکشن وقت پر ہوتے رہیں تو کئی جماعتیں اور سیاسی خاندان خودبخود تاریخ کے کوڑے کی نذر ہوجائیں گے۔انہیں زور زبردستی اقتدار سے نکالنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔نون لیگ اور پی ٹی آئی دونوں عوامی غیض وغصب کا شکار ہوئیں کیونکہ اقتدار کے دوران ان کی کارکردگی سے شہری مطمئن نہ تھے لیکن انہیں زبردستی اور وقت سے پہلے اقتدار سے بے دخل کیاگیا تو عوام نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا بلکہ ان جماعتوں کی پزیرائی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ مقتدر قوتوں کو سیاست سدھارتے سدھارتے سرحدیں غیر محفوظ ہوگئیں۔عالم یہ ہے کہ اسلام آباد کے قلب میں بم دھماکے ہوجاتے ہیں۔ سیکورٹی اسٹیٹ منہ بسورتی رہ جاتی ہے۔طالبان کو پالا پوسا۔ پناہ دی۔ دنیا کے ساتھ پاکستان ان کی خاطر لڑا۔ اقتصادی مشکلات کا شکار ہو ا لیکن طالبان کو نہ چھوڑا۔کابل میں برسراقتدار آئے تو جشن برپا ہوا۔ برسراقتدار آنے کے بعد انہوں نے پاکستان کو نہ صرف آنکھیں دکھائی بلکہ پاکستان تحریک طالبان کے ان انتہاپسندوں کو بھی رہا کردیا، جنہیں سابق صدر اشرف غنی کی حکومت نے جیلوں میں ڈال رکھاتھا۔پاک افغان سرحد کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ان حالات میں ملک مزید تجربات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ حکومت ، عسکری لیڈرشپ اور اپوزیشن جماعتیں سرجوڑ کر بیٹھیں۔ملک کو بحران سے نکالیں۔ ورنہ بعد منیر نیازی کی طرح یہ کہنا پڑے گا۔ ہمیشہ دیر کردیتاہوںمیں ہر کام کرنے میں