میرا مزاج اگر اجازت دیتا تو میں کم از کم ان 15تجزیہ کاروں‘ اینکروں اور نامور ہونے کے دعویدار صحافیوں کے سامنے چند روز پہلے ان کے تبصرے ضرور رکھتا۔قومی چینلز پر تشریف رکھنے والے یہ لوگ ہنسا کرتے تھے۔پینل میں موجود مسلم لیگ کے کسی ترجمان کو یہ دلائل کا پاس دیتے اور پھر دونوں کے ساتھ کئی بار اینکر بھی عین غین ہو جاتا۔یہ لوگ کہتے کیا تھے؟ یہی کہ پرویز الٰہی اسمبلی نہیں توڑیں گے۔جب پوچھا جاتا کہ وہ ایسا کیوں نہیں کریں گے تو کہتے وہ اپنا اقتدار کیسے قربان کر سکتے ہیں۔پھر کہا گیا کہ مسلم لیگ ن پنجاب میں حکومت بنا رہی ہے۔یہ خواب بھی پورا نہ ہو سکا۔اب کوئی وی لاگ میں اپنا تجزیہ غلط ہونے کو بیچ رہا ہے‘ کوئی بتا رہا ہے کہ مسلم لیگ تو چاہتی تھی کہ پنجاب اسمبلی ٹوٹے‘ عمران نے مسلم لیگ کی خواہش پوری کر دی۔ سب سے پتے کی بات نواز شریف نے اپنے ٹویٹ میں کہی کہ ’’میں نے کہہ دیا ہے اب اسمبلی توڑنے کے عمل میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ مسلم لیگ انتخابات سے خوفزدہ نہیں‘‘عطا تارڑ بھی یہی کہہ رہے ہیں ۔رانا ثنا اللہ اور دیگر مجاہدین کا زور خطابت اسی پر صرف ہو رہا ہے کہ وہ خود الیکشن چاہتے تھے۔سوال فقط اتنا ہے کہ وہ ایسا چاہتے ہیں تو قومی اسمبلی تحلیل کر کے دکھائیں۔ پنجاب اسمبلی تحلیل ہونے سے سیاست میں کیا کچھ بدل گیا اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ ایم کیو ایم کے تین دھڑے ایک ہو گئے ہیں۔ چونکہ اب کہیں سے سیاست میں مداخلت نہیں ہو رہی اس لئے میرا خیال ہے کہ جبراً گروپوں میں تقسیم کی گئی ایم کیو ایم نے اپنی سیاسی آزادی کا اندازہ لگانے کے لئے پہلے مرحلے میں دھڑوں کو یکجا کرنے کا فیصلہ کیا۔اس سے سمجھا جا رہا ہے کہ کراچی میں پی ٹی آئی کے مقابلے میں ایم کیو ایم کو کسی طاقت نے مضبوط کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایم کیو ایم کا طاقتور ہونا اگلے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے لئے فکر مندی کا باعث ہو سکتا ہے۔پھر ایسا نہیں کہ متحد ہوتے ہی ایم کیو ایم کا دبائو ریاستی اداروں نے قبول کر لیا ہو‘ وہ سیر پر سوا سیر ہو سکتی ہے لیکن اس کی خاطر بلدیاتی انتخابات کا التوا جیسا ناز ابھی نہیں اٹھایا جا سکتا۔ایم کیو ایم نے کراچی کے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیوں کیا یہ نکتہ کچھ دن بعد کھلے گا۔ عمران خان نے ایک اہم بات کی ہے۔ وہ اپنے اوپر حملے‘ اعظم سواتی کے خلاف کارروائی‘ شہبازگل پر تشدد اور دیگر واقعات کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے رہے ہیں۔عمران خان نے پہلی بار یہ کہا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ صلح کرنے اور ان تمام واقعات کو بھلانے کے لئے تیار ہیں۔یاد رہے عمران خان اب جنرل باجوہ اور دیگر افسران کا نام لے کر زیادہ تنقید نہیں کرتے۔عمران خان کہہ رہے ہیں کہ فوج کے ساتھ جھگڑا کوئی پاگل ہی کرے گا‘ وہ سائفر اور امریکی سازش کے معاملے کو بھلا کر آگے بڑھنے کی بات کر رہے ہیں‘ اگر کسی نے نوٹ کیا ہو تو یہ اہم بات ہے کہ پچھلے کچھ روز سے دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں میں ایک وقفہ آ گیا ہے۔اللہ کرے میرا قیاس درست ہو اور یہ وقفہ مستقل امن کی صورت میں ڈھل سکے۔لیکن ان سب واقعات میں جو چیز مشترکہ طور پر جڑی نظر آتی ہے وہ پاکستان میں سیاسی فیصلوں کے اختیار کی طاقت ہے۔پی ڈی ایم حکومت کے پاس بھلے وفاق کی پوری قوت ہے لیکن ہر معاملے میں عمران خان کے موقف کا بھاری ثابت ہونا ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان جیسی کمزور ریاست میں انتشاری گروہ اپنی بات منواتے رہے ہیں اب ایک مقبول رہنما موجود ہے جو طاقت کا مرکز تبدیل کر سکتا ہے۔ ہمیں جب بیلنس آف پاور کی تھیوری پڑھائی گئی تھی تو میں نے بڑی دلچسپی سے اس کے حرکیات کو سمجھنے کی کوشش کی۔پنجاب یونیورسٹی میں جب مجھے یہی تھیوری پڑھانے کا موقع ملا تو میں نے اپنے طلباء کے مختلف گروپ بنا دیے۔ہر گروپ میں مختلف طرح کی طاقت رکھنے والے طلبا تھے۔کوئی جسمانی طور پر تگڑا تھا تو کوئی تیز فہم‘ کوئی اچھا منصوبہ ساز تھا اور کوئی دوسروں کے منصوبوں کی کاٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ان گروپوں کو کہا گیا کہ یہ اپنی طاقت کو شناخت کریں اور پھر دوسرے گروپوں کی طاقت اور کمزوریوں کی فہرست بنائیں۔جب یہ سارا کچھ ہو چکا تو ہر گروپ کو موقع دیا گیا کہ وہ جس صلاحیت کی کمی محسوس کرتا ہے وہ اس صلاحیت کے مالک کسی ساتھی طالب علم کو گروپ میں شامل کر کے حاصل کر سکتے ہیں۔میرے طلبا بیلنس آف پاور کی تھیوری نہیں بھولتے۔قومی سیاست اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکی۔قدم قدم چلتی اور ٹھوکر کھا کر گر جاتی ہے۔مطلب یہ کہ ریاست داخلی سطح پر طاقت کا توازن قائم نہیں رکھ پائی ۔ سیاسی اشرافیہ کا برسہا برس سے چلن رہا کہ اپنے فیصلے خود نہیں کئے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہر بحران کے وقت اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھا گیا۔جب کسی کو اتحادی بنایا تو اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر بنایا۔اس طرز کی سیاست میں سکے کے دونوں طرف ایک ہی نشان ہوتا ہے۔ صورتحال کا تجزیہ کرنا ایک الگ کام ہے ،یہ تھڑے پر بیٹھے لوگوں کی طرح بحث جیتنے کا طریقہ نہیں۔ اس میں خواہشات کی ڈور پکڑ کر نتیجہ حاصل نہیں کیا جاتا ، تجزیہ رونما واقعات کی پرتیں ، ممکنہ نشست اور مجموعی صورتحال پر ان واقعات کے نتائج پیش نظر رکھ کر مرتب کیا جاتا ہے ۔وطن عزیز میں چہرے ، سکرین اور لفظ فروخت ہو رہے ہیں ،یہ تجزیہ نہیں۔ سب کٹھ پتلیاں تھے‘ وہ ترجمان اور دانشور بھی کٹھ پتلیاں ثابت ہوئے جو کسی دروازے کی اوٹ سے خبر سنتے اور پھر اسے بھونپو میں پھونک دیتے۔اسٹیبلشمنٹ کا کردار اہم ہوتا ہے‘ وہ ریاستی مفادات کی حفاظت کرتی ہے مگر یہ جو درجن سے زیادہ بھونپو اور پی ڈی ایم کے ترجمان سیاستدان ہیں کیا اپنے وعدے کے مطابق اپنا نام بدلنا پسند کریں گے یا پھر لوگوں کو اجازت دیں گے کہ وہ ان کا کوئی بھلا سا نام خود ہی رکھ لیں۔