میں ان سے زیادہ ملا بھی نہیں اور نظریاتی طور پر تو کبھی ہم خیال بھی نہ تھا۔ مگر ان کے انتقال کی خبر سن کر ایک ایسا دکھ ہوا جو کسی اپنے کے کھو جانے کا ہوتا ہے۔ ان کی عمر بھی کافی تھی‘ ایک صدی کے قریب پہنچ رہے تھے۔ کسی وقت بھی خبر آ سکتی تھی‘ مگر یوں لگا اس عہد نے کچھ کھو دیا ہے۔ ڈاکٹر مبشر حسن سے مرا براہ راست رابطہ لاہور واپس آ کر ہی ہوا۔ اس سے پہلے میں نے انہیں ہمیشہ اس نظر ہی سے دیکھا تھا کہ بائیں بازو کے ایک نظریہ ساز ہیں۔ وہ بھی اس زمانے میں جب نظریاتی تصادم اس ملک میں عروج پر تھا۔ وہ ان لوگوں میں تھے جو اس تصادم کے ایک دھڑے کے گویا سربراہ تھے۔ پیپلز پارٹی ان کے گھر پر بنی تھی۔ پارٹی بننے سے پہلے ہی یہ اپنا ایک گروپ بنا چکے تھے جو ملکی معاملات پر غور کرتا رہتا تھا۔ بالآخر اس گروپ کا بھٹو صاحب سے رابطہ ہو گیا۔ انہیں بھٹو پسند آئے اور بھٹو کو ان کے خیالات ‘ پارٹی کا پہلا اجلاس ان کے گھر پر اس لئے ہوا کہ کوئی جگہ دینے کو تیار نہ تھا۔ نظریاتی مخالفوں میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو آپ کو کبھی ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر مبارک علی مجھے کبھی سمجھ نہیں آئے۔ اگرچہ ان کے حلقہ اثر میں معتقدین کی تعداد کم نہیں ہے۔ اس کے برخلاف ڈاکٹر مبشر سے سو اختلاف تھے‘ مگر ان سے ہمیشہ رابطے کی خواہش رہتی تھی۔ وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے پہلے وزیر خزانہ بنائے گئے تو انہوں نے دل کھول کر اپنے نظریاتی خوابوں کو پورا کرنا چاہا اور اس معیشت کی بنیاد رکھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بھٹو نے اس ملک کی اقتصادیات کو ایسا تباہ کیا کہ پھر سنبھل نہ سکی۔ اس انجینئر کے بعد جس کا نام مبشر حسن تھا۔ بھٹو نے ہمارے ساہیوال کے ایک بیرسٹر رانا محمد حنیف کو اپنا وزیر خزانہ بنایا تھا۔ ڈاکٹر مبشر تو نظریاتی طور پر بہت کچھ سے آشنا تھے۔ رانا حنیف کا تو معاشیات سے دور دور تک واسطہ نہ تھا۔ ہم جیسے مذاق اڑایا کرتے تھے کہ ورلڈ بنک کے صدر نے ڈاکٹر مبشر سے انقلابیات کا درس سن کر بھٹو سے عجیب بات کہی تھی جو میں یہاں دہرانا نہیں چاہتا۔ ڈاکٹر مبشر اس کام سے فارغ ہوئے تو بھارت سے دوستی کا ڈول ڈالنے بیٹھ گئے۔ آپ دیکھ رہے ہیں‘ ان میں کوئی بات مجھے پسند آنے والی نہیں ہے‘ مگر میں کہہ رہا ہوں ڈاکٹر مبشر مجھے پسند تھے۔ میں لاہور آیا تو ان سے دو چار ملاقاتوں میں سے اندازہ ہو گیا کہ یہ گہرائی میں جا کر ذرا سنجیدگی سے غوروفکر کرنے والے شخص ہیں۔ پانی پت میں پیدا ہوئے اور پانی پت کے کلچر سے میں خاصا آشنا ہوں۔ مولانا الطاف حسین حالی کی وجہ سے نہیں‘ بلکہ ان کے خاندان کا ایک حصہ ساہیوال میں آباد تھا۔ لاہور کے لوگ تو ان میں سے مہدی حسن ہی سے واقف ہیں۔ مگر مہدی بھائی کے چھوٹے بھائی کالج میں میرے ساتھی رہے ہیں۔ خاصا نفیس اور کھرا انداز ہے ان کا۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر مبشر اور چند لوگ لاہور کے معروف ماہر تعمیرات نیئر علی دادا کی نیرنگ گیلری میں محفل آرائی کرتے ہیں۔ ایک بار ٹی ہائوس اجڑا تو چند سنجیدہ بزرگوں نے یہاں اکٹھا ہونا شروع کر دیا۔ انتظار حسین‘ شہزاد احمد‘ آئی اے رحمن مجھے پوری طرح یاد نہیں ہے۔ شہزاد کہتے رہے کہ تمہیں وہاں لئے چلتا ہوں۔ بس ایسے ہی وقت گزر گیا۔ یہ اندازہ ہوتا تھا کہ یہ لوگ دانشوری کے کام میں مست ہیں۔ ان سے گاہے گاہے ملاقات ہوتی تو یہ بھی پتا چلتا کہ برصغیر میں ہماری تاریخ کیا ہے۔ کس طرح انگریز نے ہم پر کاٹھی ڈالی اور ہم نے کیسے جدوجہد کی۔ انگریز کے انتظامی بندوبست پر بہت عمدہ بات کرتے اور اس کی روشنی میں بتاتے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ان کے آئیڈیاز تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ وقت کے ترازو پر ٹھیک تلتے تھے یا نہیں‘ مگر یہ سوچنے سمجھنے والے لوگ تھے۔ نوائے وقت کا یہ کہنا ہے کہ اس کی ابتدا اس دن ہوئی جب قرار داد مقاصد پاس ہوئی۔ مجلس ادارت میں مبشر حسن کے بڑے بھائی شبر حسن اور لیفٹ کے لیجنڈی لیڈر اے آر اسلم کا نام تھا۔ اس وقت حمید نظامی کے ساتھ ان کا کیا جوڑ ہو گا؟ اوریہ نسل کیا سوچتی ہو گی۔ اس بارے میں مبشر حسن اپنا نکتہ نظر رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو یامضمون میں اس کی تشریح کی۔ وہ واقعات بھی بیان کئے جو حمید نظامی سے مجید نظامی کو ادارت منتقل ہوئے تھے۔ مبشر حسن اس خاندان کے بہت قریب تھے۔ انہی دنوں میں نے کرنل عابد حسین کا انٹرویو کیا۔ کرنل صاحب حمید نظامی کے دیرینہ ساتھی تھے۔ مشاہد حسین کے والد تھے اور تحریک پاکستان کی ایک پوری تاریخ تھے۔ دونوں کے نظریات کئی معاملات میں مختلف تھے۔ میں نے ایک بار یوم حمید نظامی کے موقع پر ان کی موجودگی میں اس کا ذکر کر دیا اور بعد میں عرض کیا کہ اس پر ریسرچ ہونی چاہیے۔ اپنی اس خواہش کا ذکر ڈاکٹر طاہر مسعود سے کیا جو اس وقت کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے سربراہ تھے۔ انہوں نے کہا اس پر پی ایچ ڈی ہونا چاہیے کہ وہ نسل کیا تھی جس کی ایک تشریح ڈاکٹر مبشر کرتے ہیں تو دوسری کرنل عابد حسین دونوں اس وقت حیات تھے اور لوگ بھی تھے۔ دونوں مجید نظامی کے دوست تھے۔ اس تحقیق سے بہت سی باتیں سامنے آ سکیں گی۔ یہ ایک نسل کا اندرونی تضاد تھایا الگ الگ تعبیر۔ افسوس تحقیق کا یہ کام نہ ہو سکا اور تاریخ کا ایک گوشہ بے نقاب نہ ہو پایا۔ میں اگرچہ کرنل عابد حسین کے نظریات کا حامی ہوں‘ مگر ڈاکٹر مبشر حسن کو غلط کہنے کی جرأت نہ رکھتا تھا اور اس سلسلے میں گہرائی میں اترنا چاہتا تھا۔ کئی بار سوچا کہ ڈاکٹر صاحب سے زیادہ سے زیادہ ملاقاتیں کی جائیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی سے بدظن ہو کر اور اس کی سیاست سے عاجز آ کر غنوی بھٹو شہید بھٹو پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ کئی نظریاتی پہلو تھے جو بہت سی کہانیاں بتاتے ہیں۔ ایک انقلابی کی کہانیاں جس نے بہت سوچ بچار کی‘ مگر وہ کامیابی نہ ملی جو اس کی محنت کے شایان شان ہوتی‘ تاہم یہ بات ماننا پڑتی ہے کہ ان کے ہاں کوئی بات بلا سوچے سمجھے نہ تھی اور وہ اسے بہت نفاست اور ذہانت کے ساتھ بیان کرتے تھے۔ حق مغفرت کرے ایسے لوگ اب اٹھتے جا رہے ہیں جن کی شخصیت نظریات سے بالاتر ہو کر اپنا ایک اثر چھوڑ جاتی ہے۔ برسوں پرانی ایک فوکسی کار ان کی ملکیت تھی۔ گلبرگ میں ایک وسیع گھر میں وہ اپنے بھائی کے ساتھ رہتے تھے۔ بیگم بھی اپنی پہچان خود تھیں۔ زینت حسن ایک ممتاز ڈاکٹر‘ ایسے لوگ اب قصہ ماضی بنتے جا رہے ہیں۔ وضعدار لوگ جن کی ہر کوئی عزت کرتا ہو۔