ملک کی مجموعی آبادی کے نصف نفوس پر مشتمل صوبہ پنجاب کا 2653 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت نے پنجاب اسمبلی کے نو تعمیر ایوان میں بجٹ میں مختلف شعبوں کے لیے مختص رقوم سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ محصولات کا ہدف 405 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ کاروباری طبقے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے 51 ارب روپے کا پیکیج رکھا گیا ہے‘ مزدور کی کم از کم اجرت 20 ہزار مقرر کی گئی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ ماہانہ تنخواہ اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے۔ ریسٹورنٹس سمیت متعدد خدمات کی ادائیگی کیو آر کوڈ کے ذریعے کرنے کی اجازت دی گئی ہے‘ کال سنٹروں پر ٹیکس کم کیا جارہا ہے‘ الیکٹرک گاڑیوں کی رجسٹریشن‘ ٹوکن ٹیکس فیس میں 50 سے 70 فیصد چھوٹ کا اعلان کیا گیا ہے۔دارالحکومت لاہور میں صحت‘ تعلیم اور انفراسٹرکچر کے متعدد منصوبوں کے لیے بجٹ میں معقول رقوم مختص کی گئی ہیں۔ لاہور میں ایک ہزار بستر کا جدید ہسپتال بنایا جارہا ہے۔ کریم بلاک فلائی اوور‘ گلاب دیوی ہسپتال انڈرپاس‘ چونگی امر سدھو‘ گرین ٹائون اور سوڈیوال میں سیوریج سسٹم کو بہتر بنایا جارہا ہے۔ جنوبی پنجاب طویل عرصہ تک محرومیوں کا شکار رہا ہے۔ مقامی نمائندوں کی عدم دلچسپی اورسابق حکومتوں کی بے التفاتی کا نتیجہ ہے کہ ڈیرہ غازی خان‘ لیہ‘ بھکر‘ راجن پور‘ بہاولپور‘ بہاولنگر‘ رحیم یار خان جیسے اضلاع میں بنیادی ضروریات کی شدید قلت ہے۔ ان محرومیوں کے باعث ایسے علاقے کالعدم اور تشدد پسند تنظیموں کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔ تحریک انصاف جنوبی پنجاب کو الگ صوبائی حیثیت دینے پر آمادہ ہے‘ حکومت اس سلسلے میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ ملتان میں قائم کر چکی ہے۔ حالیہ بجٹ میں جنوبی پنجاب کی ترقی اور ضروریات کے لیے صوبائی بجٹ کا 35 فیصد مختص کیا گیا ہے۔ چند ماہ پہلے وزیراعلیٰ مختلف اضلاع کے دورے کے دوران وہاں ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں سے متعلق آگاہی حاصل کرتے رہے۔ صوبے میں متعدد نئی یونیورسٹیوں کے قیام کے لیے فنڈز رکھے گئے ہیں۔ صحت کے شعبے کے لیے 369 اور تعلیم کے لیے مجموعی طور پر 442 روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بے گھر افراد کی تعداد کئی سال سے بڑھ رہی ہے۔ دیہی آبادی تیزی سے لاہور‘ فیصل آباد‘ راولپنڈی‘ ملتان‘ گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے نواح میں آباد ہوئی ہے۔ شہر کے اطراف میں زرخیز زمینوں کو بے رحمی سے پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹیوں میں بدلا جاتارہا ہے۔ بڑے شہروں میں زمین کے نرخ اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ اوسط اور کم درجے کی آمدن کے حامل افراد کے لیے اپنا گھر تعمیر کرنا ممکن نہیں رہا۔ تحریک انصاف نے اقتدار میں آکر پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ مالیاتی مسائل اور پھر کورونا کی وبا نے اس وعدے کو پورا کرنے میں رکاوٹیں پیدا کیں تاہم حالیہ صوبائی بجٹ میں اربن ہائوسنگ سکیم کے تحت چودہ لاکھ گھر فراہم کرنے کا منصوبہ شامل ہے۔ بجا طور پر اس سے بے گھر آبادی کے بڑے حصے کو اپنی چھت میسر آ سکے گی۔ ماحول کے تحفظ کے لیے شجرکاری کے ساتھ ان شعبوں میں اصلاحات متعارف کرانا ضروری ہیں جو آلودگی کی وجہ بن رہے ہیں۔ وفاق کی طرح پنجاب نے بھی الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری‘ فروخت اور ٹوکن پر ٹیکس معافی سے ان گاڑیوں کی مانگ بڑھے گی‘ مزید یہ کہ پٹرول کی درآمد پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی ہوگی۔ بجٹ میں بعض تجاویز نظرثانی چاہتی ہیں‘ زرعی انکم ٹیکس اور نہری پانی کے چارجز میں اضافے کے معاملات عدم شفاف رہے ہیں۔ نہری پانی پر بڑے زمینداروں کا قبضہ رہا ہے‘ چھوٹے کسانوں کے حصے کا پانی زبردستی یا پھر چوری سے بڑے زمینداروں کو دے دیا جاتا ہے۔ جب آبیانہ کی بات ہوتی ہے تو پانی سے محروم رہ جانے والے چھوٹے زمینداروں سے پورا بل وصول کیا جاتا ہے۔ کاشت کاروں کو ترقی یافتہ اور زیادہ برداشت والا بیج فراہم کرنے کی سکیم متعارف کی جانی چاہیے۔ ماڈل فارمنگ کا سلسلہ شروع ہونا چاہیے۔گوشت اور دودھ کی برآمدات کے لئے لائیو سٹاک توجہ چاہتا ہے ۔ پنجاب کی معیشت بنیادی طور پر زراعت پر انحصار کرتی ہے۔ یہاں سے ملک کے دوسرے حصوں‘ افغانستان اور وسط ایشیا تک خوراک فراہم ہوتی ہے۔ ہائوسنگ سکیموں کا جن جب تک بوتل سے باہر نہیں آیا تھا پنجاب کی معیشت صنعت و زراعت کے ستونوں پر کھڑی تھی۔ یہ دونوں شعبے پیداواری تھے‘ ان میں کروڑوں کارکن کام کرتے۔ رئیل سٹیٹ نے پیداواری شعبے کو محدود کردیا‘ اس سے نہ صرف کام کرنے والے کارکن بیروزگار ہوئے بلکہ برآمدات میں جو اضافہ ہو سکتا تھا وہ بھی رک گیا۔ یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ پچھلے دو بجٹوں میں سرکاری و غیر سرکاری ملازمین کو حکومت کی جانب سے جو رعایت نہیں مل پائی تازہ بجٹ میں وہ بحال کردی گئی ہے۔ بجٹ سے حکومتوں کی ترجیحات کا مظہر ہوتا ہے۔ سابق اور موجودہ حکومتوں کی کارکردگی کا موازنہ ہمیشہ بجٹ میں متعین کئے گئے اہداف کے حصول سے کیا جانا چاہیے۔ یہ امر حکومت کے پیش نظر رہنا چاہیے کہ پہلے بجٹ کو سوفیصد استعمال نہ کیا جا سکا‘ مالی سال جب ختم ہورہا ہے تو پنجاب کا 35 فیصد بجٹ غیر استعمال حالت میں پڑا ہوا تھا جسے پچھلے ایک ڈیڑھ ہفتے میں ہنگامی طور پر خرچ کر کے اخراجات کا جواز بحال رکھا گیا۔ امید کی جاتی ہے کہ پنجاب کی ترقی کے حوالے سے جو شکایات پیدا ہورہی ہیں حتمی دستاویز میں ان کا ازالہ کیا جائے گا۔