کہتے ہیں ایک بادشاہ کا منہ چڑھا مصاحب اپنے بچپن کے عرب دوست کو بادشاہ کے دربار میں لے گیا،بادشاہ نے تعارف چاہا تو مصاحب نے کہا: یہ سیاسی امور کا ماہر ہے،عربی میں سیاسی امور سے مراد افہام و تفہیم کرانے والا لیا جاتا ہے ، بادشاہ نے اسے زیادہ توجہ نہ دی اوراسپ خانہ دار بنادیا،چند دن بعد بادشاہ یونہی گھومتے گھومتے اصطبل پہنچا اور اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کی پشت پیار سے تھپتھپاتے ہوئے کہا ‘‘کہیں ایسا شاندار گھوڑادیکھا ہے ؟‘‘ جواب میں اس عرب نے دست بستہ عرض کیا ’’حضور! بس اچھا ہے ’’بادشاہ کو تعجب ہو کہ بس اچھا کیا ہے، اس نے وضاحت چاہی تو اسپ خانہ دار نے جواب دیا ’’اچھا ہے لیکن نسلی نہیں ہے ‘‘بادشاہ نے اس کے دعوے کی تحقیق کے لئے جنگل سے اس سائیس کو بلا بھیجا، جس سے گھوڑا لیا گیاتھا۔ سائس دوڑا دوڑا آیا اور ڈرتے ڈرتے اعتراف کیا کہ گھوڑا تو نسلی ہے لیکن ہوایہ کہ اس کی پیدائش پر اس کی ماں مر گئی ،یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا بڑا ہے، بادشاہ نے پرسوچ انداز میں ہنکارہ بھرا اور اسپ خانہ دار کو بلاکرپوچھا تمہیں کیسے پتا چلا کہ یہ اصیل نہیں ہے؟ اس نے کہا، جب یہ گھاس کھاتا ہے تو گائے کی طرح سر نیچے کر لیتا ہے ،جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لیکر سر اٹھا لیتا ہے۔ بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ہوااور اسے اناج،گھی،بھنے دنبے،اور پرندوں کا اعلیٰ گوشت بطور انعام بھجوایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا، چند دنوں بعد بادشاہ نے اس سے اپنی چہیتی بیگم کے بارے میں رائے مانگی،اس نے لگی لپٹی بغیر کہاطور و اطوار تو ملکہ جیسے ہیں لیکن’’شہزادی‘‘ نہیں ہیں۔ بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی،اسی وقت ساس کو بلاوا بھیجا پوچھا حقیقت کیا ہے، اس نے کہا: آپ کے والد نے ہماری بیٹی کی پیدائش پر ہی اسکا رشتہ مانگ لیا تھا، لیکن وہ 6 ماہ ہی میں فوت ہو گئی،ہم نے آپ کی رشتے داری کے لئے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنا لیا،اب بادشاہ نے مصاحب سے پھردریافت کیا، ’’تم نے یہ کیسے جانا؟‘‘اس نے جواب دیا ملکہ کا خادموں کے ساتھ سلوک جاہلوںجیسا ہے،بادشاہ نے ایک بار پھر اسے بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں بطور انعام دیںاورساتھ ہی اسے اپنے دربار میں متعین کر دیا،کچھ وقت گزرا بادشاہ نے پھراسے بلایا اور کہا اے دانا عرب! میرے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے۔ عرب مصاحب نے کہا، جان کی امان چاہتا ہوں، آپ بادشاہ زادے ہو نہ آپ کا طورطریقہ بادشاہوں والا ہے۔ آپ کسی چرواہے خاندان سے لگتے ہو۔بادشاہ کوتاؤ آگیا، مگر جان کی امان دے چکا تھا،سیدھا ماں کے پاس پہنچا اور پوچھنے لگا کیامیں شاہ زادہ نہیں ؟ والدہ نے ٹھنڈی سانس لی اور کہا یہ سچ ہے تم ایک چرواہے کے بیٹے ہو،ہماری اولاد نہیں تھی تو تمہیں لے کر پالا‘‘ صبح بادشاہ نے اس عرب مصاحب کو بلایا اورپوچھا بتاتجھے یہ کیسے پتہ چلا؟اس نے کہا بادشاہ ہیرے موتی، جاگیریں انعام میں دیتے ہیں لیکن آپ نے جب بھی انعام دیا بھیڑ، بکریاں، بھنے بٹیرہی دیئے۔ یہ اسلوب کسی شاہ زادے کے نہیں کسی چرواہے کے بیٹے کے ہی ہوسکتے ہیں۔ عادتیں اور عمل نسلوں کا پتہ دیتی ہیں۔ یہ 2018 کی بات ہے، پیرس کی ایک کثیر المنزلہ عمارت کے نیچے لوگ جمع تھے، ہجوم عمارت کی بالکونی کی جانب اشارے کرتے ہوئے چیخ رہا تھا عورتیں منہ پر ہاتھ رکھے پھٹی پھٹی انکھوں سے کچھ دیکھ رہی تھیں۔ ایسے میں وہاں سے ایک چھریرے بدن کے سیاہ فام نوجوان کا گزر ہوا، اس کی نظریں بھی عمارت کی طرف اٹھی تو اٹھی رہ گئیں ،ایک چھوٹا سا بچہ بالکونی سے لٹک رہا تھا، سیاہ فام نوجوان بھیڑ چیر کر تیزی سے عمارت کی طرف لپکا اور کسی اسپائڈر مین کی طرح عمارت پر چڑھتا چلا گیا وہ نوجوان ناقابل یقین سرعت سے بچے کے پاس پہنچا اور اسے بحفاظت اتار لایا ،ہجوم نے اس نوجوان کو کاندھوں پر اٹھا لیا،موبائل فون سے بنائی گئی اسکی ویڈیو منٹوں میںپھیل گئی اور وہ فرانس کا ہیرو بن گیا ۔ یہ ہیرو افریقی ملک مالی کا 22 سالہ ماموڈو گساما تھا، جو روشن مستقبل کے لئے چوری چھپے فرانس میں داخل ہوا تھا ۔فرانسیسیوں نے ہیروبنا دیا، وہ سوشل میڈیا اورفرانس یورپ کے میڈیا پر چھا گیا ،فرانسیسیوں نے مطالبہ کیا کہ اسے شہریت دی جائے اور ماموڈو کو نہ صرف شہریت بلکہ فائر برگیڈ میں ملازمت بھی مل گئی، فرانسیسی صدر نے اسے بلایا ملاقات کی اور اس کے ساتھ تصاویر بنائیں۔ ایسا ہی کچھ رواں ماہ سات جون کو سریاب کوئٹہ میں ہودس ہزار لٹر آتش گیر مادے سے بھرے ٹینکر میں اس وقت آگ لگ گئی جب اسے پٹرول پمپ پر خالی کیا جارہا تھا۔آگ اوروہ بھی آتش گیر مادے سے ٹینکر میںصورتحال انتہائی خوفناک تھی ،تباہی کے انتظار کے سوا کیا ہوسکتا تھا لیکن وہاں کھڑے ڈرائیور فیصل نے عجیب فیصلہ کیا، وہ تیزی سے آگے بڑھا اچھل کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ،سلف لگا کر ٹرک اسٹارٹ کیا اور کسی انگریزی فلم کے ہیرو کی طرح اس جلتے بلتے ٹائم بم کو آبادی سے نکالتا چلا گیا۔اس نے لگ بھگ تین کلومیٹر کا سفر کیااور ٹینکر کو آبادی سے نکال گیا،فیصل کے کارنامے کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیلی تو قوم کے ستائشی کلمات اور پذیرائی نے حکومت کو بھی مجبور کر دیا کہ وہ اٹھارہ بیس ہزار ماہانہ کمانے والے اس نوجوان کوشاباش سے وزیر اعلیٰ بلوچستان نے حوصلہ افزائی کے لئے اسے بلایا اورپشت ٹھونکی اور پانچ لاکھ روپے کا انعا م تھمادیا ۔۔۔ جی جی یقین کیجئے وزیر اعلیٰ نے صرف پانچ لاکھ روپے دیئے اور حاتم کی قبر پر لات ماردی ،مجھے یقین نہیں آیا کوئٹہ کے سینئر صحافی عبدالرشید بلوچ کی تصدیق کے بعد یقین کرنا ہی پڑا،لیکن وزیرا علیٰ کو بلوچستان کے نام کی ہی لاج رکھ لینی چاہئے تھی ،اب اس ’’فراخ دلی ‘‘ کو ظرف کے افلاس کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے۔ خیر جو بھی نام دیں سو دیں وہ شکر ادا کریں کہ ان کی کابینہ میںاس ’’عرب دانا‘‘ جیسا کوئی نہیں!