بھارت کے چار ممتاز صحافیوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں نے حالیہ دنوں مقبوضہ کشمیرکا دورہ کیا۔ دورہ کرنے والے وفد میں اکانومسٹ سے وابستہ جین ڈیریز‘ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسٹ ‘ لینینسٹ)کی رہنما کویتا کرشن، آل انڈیا ڈیمو کریٹک ویمن ایسوسی ایشن کی میمونہ مُلا اور نیشنل الائنس آف پیپلز موومنٹس کے ومل بھائی شامل تھے۔ ان لوگوں نے مقبوضہ کشمیر کے دورے کے دوران جو کچھ دیکھا اور کشمیری عوام میں غصے کی شدت کو جس طرح محسوس کیا اسے ایک رپورٹ کی صورت میں ترتیب دیا۔14اگست کے روز انہوں نے نئی دہلی پریس کلب میں یہ رپورٹ تمام تصاویر اور حقائق کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی تو انہیں روک دیا گیا۔ روزنامہ 92نیوز کو اس وفد کی مرتب کردہ رپورٹ تک رسائی ملی اور ہم نے اپنے قارئین تک اس کا ترجمہ پہنچانے کا فیصلہ کیا۔ رپورٹ میں بعض تفصیلات مکرر مذکور ہیں تاہم ان کی افادیت کے پیش نظر رپورٹ کو من و عن شائع کیا جا رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭٭ ہم نے کشمیر کے مختلف علاقوں میں سفر کرتے ہوئے پانچ دن گزارے‘ 9اگست سے 13اگست تک ہم کشمیر میں رہے۔9اگست کو جب ہم سرینگر پہنچے سارا شہر سکوت میں ڈوبا اورکرفیو زدہ تھا‘ بھارتی فوج اور نیم فوجی دستے ہر جگہ بڑی تعداد میں دکھائی دے رہے تھے۔ سری نگر شہر کی گلیوں میں ہو کا عالم تھا اور تمام ادارے‘ دکانیں‘ سکول ‘ لائبریریاں ‘ پٹرول پمپس اور بنک بند تھے۔ صرف چند اے ٹی ایم مشینیں اور فارمیسی شاپس کھلی تھیں۔ تمام پولیس سٹیشن کھلے تھے۔ لوگوں کو گروپ کی صورت میں جمع ہونے یا چلنے کی آزادی نہیں۔ ہم نے طویل سفر کئے۔ سری نگر کے اندر اور اس کے باہر کے علاقوں میں۔ ہم سری نگر کے وسط میں ان چھوٹے چھوٹیسے مخصوص علاقوں میں گئے جہاں بھارتی ذرائع ابلاع کے دفاتر ہیں۔اس علاقے میں وقتاً فوقتاً حالات پرامن محسوس ہونے لگتے ہیں اسی وجہ سے بھارتی ذرائع ابلاغ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کشمیر میں حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ سانچ کو گویا آنچ ہے۔ پانچ روز تک گھومتے پھرتے ہم نے سری نگر شہر‘ دیہات اورکشمیر کے چھوٹے چھوٹے قصبات میں سینکڑوں لوگوں سے بات کی۔ ہم نے عورتوں سے گفتگو کی‘ کالج اورسکول کے طالب علموں سے مکالمہ کیا۔ دیہاڑی دار مزدوروں کی سنی‘ اتر پردیش سے آئے مہاجرین اور کارکنوں سے ملے‘ مغربی بنگال اور دوسری ریاستوں سے آنے والے محنت کشوں سے تبادلہ خیال کیا۔ ہم نے کشمیری پنڈتوں اور وادی میں آباد سکھوں اور کشمیری مسلمان سے بھی بات کی۔ ہم جہاں گئے‘ لوگوں نے دیدہ و دل فرش راہ کئے۔ حتیٰ کہ ان لوگوں نے بھی گرمجوشی سے خوش آمدید کہا جو موجودہ صورت حال پر خوش نہیں تھے اور ہماری آمد پر شکوک کا اظہار کر رہے تھے۔ لوگ اس بات پر دکھی تھے کہ بھارتی حکومت نے کشمیر کی آئینی حیثیت بدل کر انہیں دھوکہ دیا مگر وہ پھر بھی ہمارے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آ رہے تھے۔ ہمیں ان کے اس طرز عمل نے بہت متاثر کیا۔ صرف کشمیر کے معاملے پر بی جے پی کے ترجمان کا طرز فکر ہمیں مختلف لگا‘ اس کے سوا پورے کشمیر میں ہم نے جس سے بات کی اس نے آئین سے شق 370کے خاتمہ کو مسترد کیا۔ زیادہ تر کشمیری سخت ناراض ہیں۔ وہ آئینی ترمیم اور اس ترمیم کے طریقہ کار کو غلط سمجھتے ہیں۔ ہم جہاں بھی گئے ہمیں خوف اور غصے کے جذبات سے بھرے لوگ ملے۔ لوگ معمول کی گفتگو میں اپنا غصہ ظاہر کرتے رہے مگر کیمرے کے روبرو کوئی بھی بات کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ لوگوں کو خدشہ تھا کہ ان کی گفتگو کہیں حکومت تک نہ پہنچے اور انہیں سزاکا سامنا کرنا پڑے۔ بہت سے لوگوں نے اس بات کا امکان ظاہر کیا کہ عید اور پندرہ اگست کے بعد جونہی کچھ پابندیاں نرم ہوئیں کشمیر میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد بھارتی حکومت کے فیصلے کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کرے گی۔ انہیں یہ خدشہ بھی تھا کہ کشمیریوں کے پرامن مظاہروں کے باوجود مسلح بغاوت ہو سکتی ہے۔ ہم نے دیکھا : ٭ سارے کشمیر میں بھارتی حکومت کی جانب سے 370اور 35اے کے خاتمہ پر ایک جیسا غصہ پایا جاتا ہے۔ لوگ ترمیم کے طریقہ کار کو بھی اپنی توہین سمجھ رہے ہیں۔ ٭ حکومت نے اس غصے کو قابو میں رکھنے کے لئے سارے علاقے میں کرفیو جیسی صورت حال بنا رکھی ہے۔ صرف چند اے ٹی ایمز ‘ فارمیسی شاپس اور پولیس سٹیشن کھلے ہیں۔ اکثر دفاتر اور مراکز بند نظر آئے۔ ٭ لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی ،سخت کرفیو نے کشمیر کے کاروبار پر برے اثرات مرتب کئے ہیں۔ خصوصاً عیدالاضحیٰ کے خوشیوں بھرے ایام میں یہ صورت حال ناقابل بیان دکھ کا باعث بنی ہے۔ ٭ کشمیر کے لوگ حکومتی طرز عمل سے پریشان ہیں۔ انہیں فوج اور پولیس سے شکایات ہیں‘ لوگوں کے سامنے جب کیمرہ نہ ہو تو وہ سہولت کے ساتھ اپنے خیالات بیان کرتے ہیں لیکن کیمرے کی موجودگی میں وہ بالکل محتاط ہو جاتے ہیں۔ ٭ بھارتی ذرائع ابلاغ کشمیر میں حالات معمول پر آنے کا جو تاثر دے رہے ہیں وہ قطعی غلط اور جھوٹ ہے۔ ان کی رپورٹس کا منبع سری نگر شہر کا ایک چھوٹا سا محلہ ہے۔ اس محلے کے باہر حالات معمول پر نہیں۔ ٭ کشمیر میں کسی قسم کے احتجاج کی اجازت نہیں ہے وہ پرامن ہی کیوں نہ ہو‘ جلد یا بدیر بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کا امکان ہے۔(جاری)