سانحہ کربلا کے بعد… 11محرم کو شہداء کے بے گورو کفن لاشوں سے جدا ہو کر…اہل بیت اطہار کا لُٹا ہوا، اور غمزدہ قافلہ کوفہ کے لیے روانہ ہوا ،جو کہ اس صوبے کا دارالخلافہ تھا ۔کربلا سے کوفہ تقریباً70کلو میٹر ہے ،یہ شہر حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت…17ہجری میں اس وقت بسایا گیا ، جب حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے مدائن فتح کیا ،آپ کو فوج کے قیام کے لیے ایک ایسی فوجی چھائونی کی ضرورت تھی ،جس کا صحرائی ماحول عرب کے مزاج سے موافق ہو،یہ شہر بالعموم سیاسی انتشار اورمعاشرتی خلفشار کی آما جگاہ رہا ، تاہم اس کی علمی مرکزیت بھی مسلم رہی ،اور حضرت عبداللہ مسعودؓ کے ’’دبستانِ حدیث‘‘ نے اس کی عظمت کو چار چاند لگا دیئے ۔ ۔کوفے کی ’’مسجدحنانہ‘‘ میںاہل بیت اطہار کے اس قافلے کو رات بسر کرنا تھی ، تاکہ دن کے اُجالے میں اس قافلے کو ’’دارالامارہ‘‘ یعنی گورنر ہائوس میں ،ابن زیاد کے سامنے پیش کیا جاسکے ۔ یزیدی ہر کارے اور شاہی کارندے تختِ دمشق کی کامیابی کے نقّارے بجا رہے تھے ۔اہل بیت اطہار کی ان عظیم المرتبت شخصیات کو دربارکوفہ میں پیش کرنے کے لیے لے جایا جارہا تھا ،جن کی عظمت وسطوت کے لیے کبھی وحی نازل ہوتی تھی ، اس مظلوم قافلہ کی سالار حضرت سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا …جن کی ولادت شعبان المعظم 5ہجری بمطابق 626ء میں مدینہ المنورہ میں ہوئی ،آپ سیّدہ فاطمہ الزہرہ سلام اللہ علیہا کی بڑی صاحبزادی تھی ،بوقتِ ولادت نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ سے باہر سفر پر تھے ، جب آپ ﷺ واپس تشریف لائے تو حضرت علی المرتضیٰ نے بیٹی کانام تجویز کرنے کی درخواست کی ۔آپ ﷺ نے توقف فرمایا …اتنے میں حضرت جبرائیل ؑ امین حاضر ہوئے ، سلام کے بعد عرض کیا : ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے، اس بچی کا نام’’ زینب‘‘ رکھ دیں ۔‘‘ اما م شعرانیؒ نے مزید لکھا ہے کہ پھر حضرت جبرائیل ؑ نے مستقبل میں اس صاحبزادی کوپیش آنے والے مصائب سے آگاہ کیا، جس پر آپ ﷺ آبدیدہ ہوگئے ۔ نبی اکرم ﷺ کے آخری حج بمطابق 10ہجری ،جس وقت حضرت زینب ؓکی عمر مبارک 5سال سے کچھ زیادہ تھی ، کو اپنے نانا جان کی رفاقت کی منفرد سعادت بھی حاصل ہوئی ۔آپ سیّدۃ النساء العالمین حضرت فاطمہ الزہرہ ؓ کی پاکیزہ اور اعلیٰ ترین آغوش ِ تربیت کی پروردہ اورعلم وحکمت ،دین وادب ،شجاعت وسخاوت اور ایمان وایقان کے پاکیزہ جواہر سے آراستہ تھیں ۔ گذشتہ سال کی یہ ایک اداس سی شام تھی…جب عصرکے بعد مجھے اسی مسجد حنانہ میں حاضر ہونے کا موقع میسر آیا۔ مخدرات اہل بیت نبوت سیّدہ کائنات کی سب سے بڑی اور جلیل القدر صاحبزادی کی سرکردگی میں…اس مقام پر قیام فرما ہوئیں ،عالمِ تصورّات … میں چودہ سو سال پیچھے چلا گیا کہ جب اسی کوفہ کو خلفیۃُ المسلمین حضرت علی المرتضیٰؓ نے دارالخلافہ بنایا اوریہاں مستقل قیام کا ارادہ فرمایا ، تو آپ ؓ کی یہ بڑی صاحبزادی عقیلۂ بنی ہاشم سیّدہ زینب جب یہاں تشریف فرما ہورہی تھیں ، تو اُ ن کے استقبال کے لیے از خود حضرت علی المرتضیٰ شہر سے باہراستقبال کے لیے آئے تھے ،دنیا میں بیٹیوں کوعزت واکرام اور محبت وچاہت سے مشرف کرنے والے نبی اکرم ﷺ کی یہ پیاری نواسی۔۔۔ جس کو اپنے دونوں بھائیوں کی طرح اپنے نانا کی پشت پر سوار ہونے کا اعزاز میسر رہا… اپنے والد کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کاقرار تھیں ۔ آپ کی اولو العزمی اوربلند ہمتی کے سبب ۔‘‘ام العزائم‘‘ کے لقب سے معروف اور اصابتِ رائے کے پیش نظر ’’شوریٰ‘‘ کا حصہ رہتی ،آپ کی امام حسین ؓ کے ساتھ از حد محبت تھی ،کربلا کی خیمہ گاہوں میں بھی اس بہن کا خیمہ اپنے عظیم بھائی سے متصل تھا ،اور یوں باہمی مشاورت کا طویل سلسلے جاری رہتا۔بہر حال … پھر ایسے حالات میں جبکہ بیٹی کی والدہ …دنیا سے پردہ فرما گئی ہوں ۔ تو باپ اپنی بیٹیوں کے لیے لاڈ اور چائو کس طرح کرتے ہیں۔؟ہماری معاشرت بھی اس سے خوب آگاہ ہے ۔ مجھے کوفہ میں خلیفۃ المسلمین ،امیر المؤمنین کے اس مختصر سے گھر اور اس میں سیّدہ زینبؓ کے چھوٹے سے کمرے کی زیارت کا بھی شرف میسر آیا جس میں آپ نے 35سے 40ہجری کے دوران قیام فرمایا تھا ،یہ گھر مسجد کوفہ سے تقریباً200میٹر کے فاصلے پر ہے ،’’بیتِ علی‘‘ اور مسجد کوفہ کے درمیان ---اسی ’’دارالامارہ‘‘کوفہ کے کھنڈرات کے نشان اب بھی موجود ہیں ۔جس کی وسیع وعریض عمارت تقریباً بیس ایکٹر پر محیط تھی ، اس عمارت کو حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے عہد فاروقی میں بنوایا تھا ،یزیدی دورمیںیہ عمارت ---اہل بیت کرام کے خلاف ظلم وستم کا مرکز رہی ۔یہی پر امام عالی مقام کا سرِ اقدس … ابن زیاد کے سامنے پیش ہوا، پھر اسی مقام پر ابن زیاد کا سر ایک ڈھال میںرکھ کر مختار ثقفی کے سامنے پیش کیا گیا، پھر مختار ثقفی کا سر…اسی دارالامارہ میں مصعب بن عمیرؓ کے سامنے پیش ہوا ،اسی جگہ مصعب بن عمیرؓ کا سر عبدالملک کے سامنے لایا گیا ۔ ابن عمیر لیثی نے سروں کی یہ داستانِ عبرت جب عبدالملک کو سنائی تو وہ خوف سے کانپ اُٹھا، اس نے گورنر ہائوس کو دوسری جگہ منتقل کرکے اس منحوس عمارت کو منہدم کرنے کاحکم دے دیا۔ اہل بیت اطہار کی قدسی صفت ہستیاں قیدی بنا کراسی گورنر ہائوس میں ابن زیاد کے سامنے پیش ہوئیں،اسی سفر میں مختلف مقامات پر، سیدہ زینب ؓکے برجستہ ارشادات اور وقیع خطبات،اس داستانِ عزیمت کا ایک مستقل باب ہیں۔آپؓ نے فرمایا :’’ تم نے خلاصہ خانوادئہ نبوت ،دین وشریعت کے منار اور نوجوانانِ جنت کے سردار کو قتل کیا…نامراد و! تم نے اپنے لیے کیسا راستہ منتخب کیا ، تم پر اللہ کا غضب اور عذاب ہو…جانتے ہو تم نے جگر رسول کو پارہ پارہ کیا،تم برے کام کے مرتکب ہوئے ہو، جس کی پاداش میں آسما ن ٹوٹ پڑیں ،زمین پھٹ جائے ،پہاڑ پاش پاش ہوجائیں …کیا تم یہ چاہتے ہو کہ آسمان تم پر خون کے آنسو روئے ؟…یقینا اُخروی عذاب سخت رسوا کرنے والا ہے اور وہاں تمہارا کوئی یارومدد گار نہ ہوگا۔‘‘ اسی اندوہناک اور دلدوز واقعہ کے بعد …جب اہل بیت کا یہ مظلوم قافلہ مدینہ منورہ پہنچا…اور بار گاہِ نبوت میں حاضر ہوا تو ضبط کے بند ٹوٹ گئے ہوں گے ،لالہ وشیون سے مدینہ کے بام و در تھرا اُٹھے اور یقیناسیّدہ زینب روضہ اقدس سے لپٹ گئی ہوں گی اوراپنی مظلومیت او ربے کسی کی فریاد پیش کی ہوگی ۔ان حالات میں بھی سیّد ہ زینب کامدینہ منورہ میں قیام تختِ دمشق اور شامی حکمرانوں کو گوارا نہ ہوا۔ کیونکہ اس عظیم سانحہ اور دلدوز حادثہ پر پُرسہ دینے ،تعزیت کرنے والوں کا تانتا باندھا رہتا ، چنانچہ گورنر مدینہ نے پیغام بھیجا کہ آپ کا مدینہ میں مزید قیام حکمرانوں کو گوارا نہیں ۔ آپ مدینہ منورہ کے علاوہ کسی اور جگہ تشریف لے جائیں ۔چنانچہ شعبان 61ھ کو آپ ایک دفعہ پھر مدینہ سے روانہ ہوئیں ۔لیکن اب کے بار آپ کا رُخ مصر کی طرف تھا اور تقریباً ایک سال کے مختصر قیام کے بعد ہی آپ 62ھ میں داعی اجل کولبیک کہہ گئیں ، اقبال نے کہا تھا : حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق یک حسین رقم کرد دیگر زینب