حنید لاکھانی بڑے انسان تھے، لیکن روایتی خود نمائی سے بہت دور منکسر المزاجی ان کی فطرت کا حصہ تھی۔ خوش مزاجی ان کی شخصیت کا سب سے خوشنما رنگ تھا۔ ایثار اور ہمدردی ان کے انگ انگ سے پھوٹتی تھی۔ حلقہ احباب بہت وسیع تھا، لیکن اس بات کی گواہی شاید سب ہی دیں گے کہ وہ بڑے بامروت اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ بہت جلد دنیا چھوڑ گئے۔ شاید اتنا سچا اور میٹھا انسان اس معاشرے کی ریا کاری میں پھیلے ہوئے دکھ درد سے پسے ہوئے کراہتے ہوئے، زخموں سے چور چور الم و غم کی داستانوں سے لپٹے اس ماحول سے اتنے گھبراگئے کہ ہمیشہ کیلئے منہ موڑ گئے۔ چند دن پہلے ہی سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں دکھی انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار،سیلابی پانی کے باعث آنسوؤں کی بوچھاڑ، مرجھائے ہوئے چہرے، مایوسی اور تفکر کے زخموں سے گھائل انسانوں کو دیکھ کر وہ تو جان سے ہی چلے گئے۔ اس فلم کو جو کربناک چیخوں سے شروع ہوتی ہے اور گھٹی گھٹی ہچکیوں کے ساتھ مسلسل دی اینڈ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جس نے معصوم بچوں کا بچپن چھین لیا۔ حنید بھی اس بھیڑ میں ان لوگوں کا ہاتھ تھامتے تھامتے ان کے زخموں پر مرہم رکھتے رکھتے اپنے بہت سے مثالی ساتھیوں کے ساتھ ایک مشن بھرپور جذبوں اور توانا ولولوں اور امنگوں کے ساتھ گئے تھے۔ واپس پلٹے تو زمانے اور وقت کی تلخی اور گھٹن نے انہیں ہلکان کردیا۔ محرومیوں سے لبریز یہ ماحول تو ان کی آرزوؤں کے مطابق پرسکون اور خوشگوار مسکن تو نہ تھا، جس کی حنید لاکھانی زندگی بھر تمنا کرتے رہے۔ حنیدلاکھانی سے پہی ملاقات چند سال قبل ایک تقریب میں ہوئی۔ پیراگون کے صدا بہار دوست آفتاب صدیقی نے توصیفی کلمات کے ساتھ ان سے متعارف کرایا۔ یہ عمران کے مداحوں کا جھمگٹا تھا۔ گفتگو کا موضوع عوامی مسائل تھا۔ لیکن حنید لاکھانی کا استدلال ذرا مختلف اور اچھوتا تھا۔ وہ ملک میں خواندگی کی شرح پر متفکر تھے وہ تعلیم و تربیت ماں کی گود سے لیکر دوستوں کی صحبت اور بچوں کی ذہن سازی ان کی مختصر سی گفتگو میں اندازہ ہوگیا کہ ان کے ذہن میں ایک قوم کی اصل قوت کے بارے میں ذرا ابہام نہیں۔ یعنی ایک قوم کیلئے تعلیم و تربیت کا ہتھیار ہی اس کی اصل قوت ہے۔ یہی وہ موٹو تھا۔حنید لاکھانی اس کیلئے جدوجہد کرتے رہے۔ تعلیم کے شعبے میں بہت سی شخصیات نے قدم رکھا۔ ہمارے میڈیا شعبے میں بھی آنے والے بہت سے ممتاز لوگ تعلیم کے شعبے سے وابستہ رہے۔ مثالی درسگاہیں بنائیں۔ طلبا و طالبات کیلئے درخشندہ پلیٹ فارم مہیا کئے، جس میں وہ نشوونما پاکر اپنے اپنے شعبوں میں اسٹارز بن گئے۔ یہ بڑی خدمت ہے، لیکن حنید لاکھانی سے گفتگو کرکے اندازہ ہوتا تھا کہ قدرت نے انہیں ایک درد مند دل بھی دے رکھا ہے تھا۔ وہ کہتے تھے۔ میرٹ اور ذہانت کی قدر ہونی چاہئے اور یہ دونوں خوبیاں کسی کی میراث نہیں ہوتیں۔ اس لئے ہم اپنی یونیورسٹی اور تعلیمی اداروں میں ذہین طلبا و طالبات پر خصوصی نظر رکھتے ہیں۔ انہیں ہر طرح کی سپورٹ اور سہولت فراہم کرتے ہیں۔ وہ کہتے تھے۔ قدرت انسانوں کو کچھ دے کر انسان کا امتحان لیتی ہے۔ جو کچھ ہمیں حاصل ہوتا ہے یا ہماری دسترس میں ہوتا ہے اسی کا دیا ہوتا ہے۔حنید لاکھانی سے اس وقت زیادہ بے تکلفی ہوگئی جب ہمارے دیرینہ اور انتہائی قابل قدر دوست محترم انوار احمد زئی ان کے ادارے سے منسلک ہوگئے۔ زئی صاحب بڑے نظر شناس اور انسان دوست تھے۔ انہوں نے میری دو نشستیں لاکھانی صاحب سے رکھوائیں۔ یقین جانیں حنید صاحب کی شخصیت کے متعلق میرا یہ تاثر بدل گیا کہ وہ بہت خاموش طبع انسان ہیں۔ ان کے اندر تبدیلی خواہش کا ایک امڈتا طوفان دکھائی دیا۔ جس طرح وہ کہہ رہے تھے کہ تعلیم سب کا حق ہے۔ اس طرح پیٹ بھر کر کھانا بھی ہر شہری کا حق ہے۔ اب یہ بشمول حکومت ہم سب کے سوچنے کا مقام ہے کہ یہ کیسے ہو۔ میں تو یہ سوچ کر افسردہ ہوں کہ ایک ایسا انسان ہم سے بچھڑ گیا جس سے نہ جانے کتنے لوگ وابستہ تھے۔ حنید بھائی جن خاندانوں کی کفالت کرتے تھے۔ شاید ان کے بارے میں ان کے علاوہ کوئی اور جانتا بھی نہ ہو۔ ایک درجن سے زیادہ ایسے خاندان جن کی نشاندہی میں نے کی تھی اور حنید صاحب کی نیکو کاری کے عمل کے ذریعے بہت سی دعائیں میرے کھاتے میں آگئی ہوں گی۔ حنید بھائی آپ نے یقیناً یہ سب کچھ اللہ کی خوشنودی کیلئے کیا، لیکن نہ جانے آپ کے اعمال کی برکتوں نے ہم جیسے گناہگاروں کو کتنا فیض پہنچایا ہوگا۔ میں نے ایک دن ان سے کہا کہ ہمارے ایک فوٹو گرافر کی بیٹی جو میڈیکل کی طالبہ ہے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے، اگر ممکن ہو تو کچھ دواؤں کا بندوبست ہوجائے۔ انہوں نے مجھ سے صرف ان کا اکاؤنٹ نمبر مانگا، جن کا نام میں یہاں لکھنا نہیں چاہتا۔ انہوں نے میرے سامنے اپنے سیکریٹری کو ہدایت دینے کے علاوہ چار اور دوستوں کو فون کر ڈالا۔ ان کا کہنا تھا اللہ کو راضی کرنے کا موقع ہاتھ آیا ہے۔ نمبر بھیج رہا ہوں۔ یقین جانیں کہ غیبی انداز سے ہمارے اس ساتھی کی ضرورتیں پوری ہوگئیں۔ یہ حنید صاحب کی شخصیت کا سب سے انوکھا اور قابل قدر روپ تھا۔ اقراء یونیورسٹی کا قیام پھر اس میں تعلیمی معیار کو بہتر سے بہتر رکھنے کی تگ و دو اساتذہ کی فلاح و بہبود کا ہر انداز سے خیال رکھنا' ایک ممتاز یونیورسٹی کے چانسلر کی حیثیت سے اس فیکلٹی کو زیادہ موثر اور اسپارکنگ بنانے کیلئے انہوں نے دن رات ایک کیا۔ ان کے کئی بزنس تھے۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ خدا ترسی اور اللہ کی خوشنودی ان کی باتوں سے ہی نہیں ان کے عمل سے بھی جھلکتی تھی۔ ہر کام کو اور بزنس میں بھی وہ اس بات کا خاص خیال رکھتے کہ جو کچھ دنیا میں اللہ دیتا ہے اس میں سے جو کچھ ممکن ہو بندوں پر بھی خرچ کرنا چاہئے۔ انہوں نے اسپتال بھی بنائے، فلاحی اور خیراتی اداروں سے ان کے خصوصی تعلقات تھے۔ جو لوگ انہیں قریب سے جانتے ہیں،انہیں معلوم ہے کہ حنید صاحب جتنے صاحب ثروت تھے اتنے ہی سخی دل تھے۔وہ تو چلے گئے لیکن زندگی میں ان کا رویہ، ان کا انداز، ان کا طرز سب کچھ ان کی شخصیت اور فکر کو ہمیشہ توانا رکھے گا۔ گزشتہ چند دنوں سے سندھ میں سیلابی پانی کی تباہ کاریوں میں ہموطنوں کا ہاتھ تھامنے گئے ہوئے تھے۔ واپس آئے تو اپنے ساتھ بیماری کی تکلیف اور کرب بھی سمیٹ لائے۔ کافی دن ہوئے ملاقات نہ ہوسکی تھی۔ یہ اندازہ ہی نہ تھا کہ آئندہ ملاقات اس انداز میں ہوگی کہ خوابوں کی تعبیر پانے کی جستجو کرنے والا یہ لاجواب انسان یوں کفن کی سفید چادر اوڑھے تنہا اس طویل سفر پر جارہا ہوگا۔ جہاں سے کوئی واپس نہیں آیا۔ ان کے گھر والوں کیلئے یہ سانحہ عظیم ہے اور ہم جیسے دوستوں اور ہزاروں طالبعلموں اور ان کے رفقاء کار کیلئے اس نقصان کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ ان کی موت نے اپنے وسیع حلقہ احباب کو بھی حد درجہ افسردہ اور ویران کردیا۔ ہم نا جانے انہیں آنے والے کتنے برسوں تلاش کرے رہیں گے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ایسے شاندار اوصاف اور خوبیوں والے انسان کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔ (آمین)