سقوط ڈھاکہ کے بعد سانحہ پشاور کی وجہ سے16 دسمبر کا صدمہ دوہرا ہو گیا ۔ یہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہپاکستانی قوم اسے کبھی نہیں بھول پائے گی ۔ دہشت گردوں نے جس درندگی اور بربریت کا مظاہرہ کیا اور پھول جیسے بچوں کو شہید کیا تو دوسرے دن جنازے کے موقع پر پوری دنیا بول اُٹھی کہ جنازوں پر پھول سب نے دیکھے تھے ، پھولوں کے جنازے پہلی مرتب دیکھے ۔ سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد ہماری پاک افواج اور دیگر اداروں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بہتر نتائج سامنے آئے اور دہشت گردی کے واقعات میں بہت حد تک کمی آئی ۔ اگلے قدم کے طور پر دہشت گردی کے اسباب غربت ‘ جہالت ‘ بے روزگاری اور نا انصافی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک میں تحریک انصاف بر سر اقتدار ہے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ بھی نا انصافی کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ۔ کیا موجودہ حکمران مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب پر غور اور نا انصافی کے خاتمے کیلئے اقدامات کریں گے ؟ سقوط ڈھاکہ کی وجوہات جاننے کیلئے بنائے گئے حمود الرحمان کمیشن رپورٹ منظرعام آ چکی اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی بارے درجنوں کتابیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں جن سے ثابت ہوا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار صرف بھٹو ‘مجیب یا جنرل ٹکا خاں ‘ جنرل یحی اور جنرل نیازی نہ تھے بلکہ علیحدگی کے پس پردہ دوسرے بھیانک عوامل بھی تھے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ علیحدگی کے ہزاروں اسباب کی لب کشائی کے باوجود ابھی ہزاروں عوامل ایسے ہیں جن پر مصلحتوں کی گرد جمی ہوئی ہے اس خوف سے اس پر بات نہیں کی جا رہی کہ لوگ باخبر نہ ہوجائیں کیونکہ جو سلوک مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے ساتھ کیا جارہا تھا اس سے ملتا جلتا اور بعض حالات میں اس سے بھی زیادہ استحصال پاکستان کی مظلوم قوموں کے ساتھ آج بھی ہورہاہے ۔ ایوب خان کے دور میں دار الحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا ،کروڑوں کی لاگت سے کارپٹ سڑکیں بننے لگیں تو بنگالی رہنما مولانا عبدالحمید بھاشانی نے احتجاج کیا، دوسری مرتبہ جب مولانا عبد الحمید بھاشانی کراچی سے اسلام آباد پہنچے تے انہوں نے دوز انوہو کراپنا ماتھا اسلام آباد کی سڑک پر رکھا‘ اسلام آباد کے عاقبت نا اندیش حکمرانوں نے سمجھا کہ مولانا بھاشائی عقیدت سے نئے دارالحکومت کی زمین کو بوسہ دے رہے ہیں مگر مولانا بھاشائی نے اس موقعہ پر ایک تاریخی فقرہ ’’اس سڑک سے مجھے اپنی پٹ سن کی خوشبو آ رہی ہے ‘‘بولا‘ پھر وہی فقرہ مشرقی پاکستان کے محروم انسانوں کا سب سے بڑا نعرہ اور ہتھیار بن گیا ‘ اس کے بعد یہ نعرہ اور ہتھیار ہر بنگالی کے ہاتھ آ گیا ۔ اسلام آباد کے حکمرانوں کو ہم بتانا چاہتے ہیں کہ 1960ء کے عشرے میں جب اسلام آباد دارالحکومت بنا تو اسلام آباد کے متاثرین کو رقبے سرائیکی وسیب میں ملے ۔ اب بھی ملتان اور خانیوال میں اسلام آباد کے متاثرین کے نام سے چکوک موجود ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ سرائیکیوں کو اتنی قربانیوں کا کیا صلہ ملا؟ جمہوری لحاظ سے بنگالی بھائی 52فیصد حصے کے حقدار تھے ‘ مگر ان کو دار الحکومت‘ حکومت اور ملازمتوں وغیرہ میں سے آٹے میں نمک برابر بھی حصہ نہ دیا گیا ‘ ان کی قدم قدم پر توہین کی گئی ‘ ان کی زبان وثقافت پر کیچڑ اچھالی گئی ‘ مغربی پاکستان خصوصا لاہور کے ا خباروں میں انہیں بھوکے بنگالی اور خواجہ نظام الدین کو خواجہ ہاضم الدین لکھا گیا ‘ بنگالیوں کو ’’چار فٹے ، کالے کٹے ‘‘ لکھا گیا ، بنگالیوں نے حقوق مانگے تو انہیں غدار کہا گیا ‘ مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کے مظلوم بنگالیوں کی حمایت میں ایک فقرہ کہنے کی بجائے وہاں الشمس البدر جیسی نیم فوجی تنظیمیں قائم کر دیں ‘ مشرقی پاکستان کے ’’بھوکے بنگالیوں‘ ‘ کا مقابلہ کرنے کے نام پر مغربی پاکستان کی صوبائی وحدتیں ہڑپ کر کے پورے مغربی پاکستان کا دار الحکومت لاہور کو قرار دے دیا گیا۔اور یہ دلیل دی گئی کہ کیونکہ صوبہ بنگال آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ ہے لہٰذا صوبوں کی آبادی کو متوازن کرنے کے لیے ’’پریٹی ‘‘کے اصول پر ون یونٹ ضروری ہے ‘اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اُس وقت صوبوں کی آبادی کو متوازن کرنا ضروری تھا تو اب ساٹھ فیصد آبادی کا ایک صوبہ اور چالیس فیصد آبادی کے تین صوبے کیسے درست ہیں ؟ اب پیریٹی کا اصول کہاں گیا ؟ جس طرح قیام پاکستان کی بنیاد 1906ء میں اس وقت رکھ دی گئی جب بنگال میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا اسی طرح مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد بھی 1947ء میں اس وقت رکھ دی گئی جب اکثریت کے جمہوری نظریے کو نظر انداز کر کے پاکستان کا دار الحکومت کراچی اور اُردو کو قومی زبان قرار دیا گیا ۔ اس کے خلاف مشرقی پاکستان کے بنگالی بھائیوں نے احتجاج کیا اور کہاکہ جس زبان کو ہم نہ لکھ سکتے ہیں نہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ بول سکتے ہیں ہم پر مسلط کر کے ہمیں جاہل اور غلام رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ‘ بنگالی نوجوانوں نے مسلسل احتجاج کرنا شروع کر دیا اور مشرقی پاکستان میں بنگالی زبان نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ‘ جواب میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے اداروں نے فائرنگ کر کے بہت سے طلبہ کو شہید اور درجنوں کو زخمی کر دیا۔ انہی طلبہ کی یاد میں 21فروری کو پوری دنیا میں ماں بولی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیشہ حق تلفیوں کے باعث جغرافیے تبدیل ہوئے جس کی ایک مثال 16دسمبر 1971ء سقوط ڈھاکہ ہے۔ پاکستان میں مادری زبانوں کی حالت ناگفتہ بہ کیوں ہے؟ کیا پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں کمتر ہیں یا ان کے بولنے و الوں میں کوئی کمی ہے؟ پہلے سوال کا جواب تو یہ ہے کہ پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں کسی بھی لحاظ سے کمتر نہیں۔ یہ دھرتی کی زبانیں ہیں اور ان کی جڑیں دھرتی میں پیوست ہیں، ان کے توانا اور مضبوط ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ حملہ آور اور بدیسی حکمران صدیوں سے ان زبانوں کو مٹانے کے در پے ہیں، اس کے باوجود یہ زندہ ہیں تو ان کی مضبوطی اور توانائی ان کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ پاکستان کی تمام زبانوں میں تعلیم کا حق دیں کہ یہ اس دھرتی کی اصل وارث ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بدیسی زبانوںکو آپ مسلط کر دیں اور جو دیس کی زبانیں ہیں ان کو آپ کچل کر رکھ دیں۔ اس سے بڑھ کر لسانی دہشت گردی کیا ہوگی؟ پاکستان کی قومیں زبانیں پاکستانی زبانیں ہیں، ان زبانوں کو علاقائی زبانیں کہنا انکی توہین ہے۔ حکومت ماروی میمن بل کی منظوری دے اور پاکستانی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔