سقوط ِ ڈھاکہ پر لکھتے ہوئے میں نے تین فریق کا ذکر کیا تھا۔یحییٰ خان کا قومی ٹولہ، پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو جو 1970ء کے الیکشن میں دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھرے تھے۔مگر نہ تو مشرقی پاکستان میں ایک نشست ملی تھی اور نہ ہی بلوچستان میں۔اُس وقت کے صوبہ میں بھی پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست ملی تھی ۔۔۔ہمارے بیوروکریٹ روئیداد خان کے بھائی مرحوم عبدالخالق خان کو ۔ہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ بھٹو صاحب کو سندھ کے مقابلے میں پنجاب میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی تھی۔تیسرے فریق یعنی عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان بلا شبہ 207کے ایوان میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے تھے مگر اس کو دو نشستوں کو چھوڑ کر ساری نشستیں مشرقی پاکستان سے ملی تھیں۔جبکہ مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں میںعوامی لیگ ایک نشست بھی حاصل نہ کرسکی۔شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات اور مستقبل میں وہ جو آزاد بنگلہ دیش کا خواب دیکھ رہے تھے اُس میں انہیں دلچسپی بھی نہ تھی۔مگر عوامی لیگ،خان عبدالقیوم خاں اور ممتاز دولتانہ کی لیگ سے گئی گزری نہ تھی۔بہت نہیں تو آٹھ،دس ارکان اسمبلی تو عوامی لیگ کے ٹکٹ پر اُس وقت کے مغربی پاکستان سے کامیاب ہو ہی سکتے تھے۔مگر مغربی بازو سے اُن کی عدم دلچسپی کااندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1970کی انتخابی مہم میں ایک بار بھی انہوں نے مغربی بازو میں انتخابی جلسہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ انہیں اپنے اپنے سیاسی مستقبل کے لئے وقت کا ضائع کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔سقوط ڈھاکہ کے ذمہ دار تین کرداروں کا ذکر کرتے ہوئے ،چوتھے اور سب سے بڑے کردار کو معذرت کے ساتھ اپنے گزشتہ کالم میں بھول ہی بیٹھا تھا۔میری مراد ہندوستانی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ہے۔سال بھر اندرا گاندھی کی سوانح لکھنے والی اُن کی ایک ذاتی دوست نے لکھا ہے کہ مارچ 1970ء میں یعنی سقوط ڈھاکہ سے سال بھر قبل وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنے آرمی چیف کو راشٹریہ بھون میں طلب کیا۔ اور اس سے پوچھا۔’’مشرقی محاذ پر کیا ہورہا ہے؟‘‘ آرمی چیف نے روایتی انداز میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ۔’’ادھر سے آنے والے مہاجر ین کی آمد سے غذائی قلت کا سامان ہورہا ہے۔‘‘اس پر مسز اندرا گاندھی جو اپنی arroganceکی شہرت رکھتی تھیں۔آرمی چیف کی اس بریفنگ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ۔’’کیا تم آنے والی جنگ کے لئے تیار ہو؟‘‘۔ آرمی چیف گھبراہٹ میں پھر وضاحتیں دینے لگے۔اس پر مسزاندرا گاندھی نے کہا۔ "Don't teach me, you are my army chief!تمہارا کام ہے جب اور جس وقت حکم ملے جنگ کے لئے تیار ملو۔اگر تم ایسے نہیں کرسکتے تو اپنا resignationجاتے ہوئے چھوڑ جانا۔‘‘سقوط ڈھاکہ 16دسمبر 1971کو ہوا۔مسز گاندھی سال بھر پہلے سے اس کی بساط بچھا چکی تھیں۔پھر خود بنگلہ دیش کے سابق سکریٹری خارجہ معز الدین نے اپنی کتاب میں آزاد بنگلہ دیش کی تاریخ لکھتے ہوئے لکھا ہے کہ عوامی لیگ کے چند سینیئر رہنماڈھاکہ میں بھارتی سفارت خانے سے باقاعدہ رابطے میں تھے۔1960ء میں شیخ مجیب الرحمان اور چند سینئر رہنماؤں نے مشرقی اور مغربی بنگال کی سرحدوں پر واقع گاؤں اگر تلہ میں بھارتی خفیہ ادارے کے اہم اداروں سے ملاقات بھی کی تھی ۔مگر جب اس ملاقات کی بریفنگ اُس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہروکو ملی تو انہوں نے بڑی سختی سے shut up callدی کہ میں سازشوں کے ذریعہ کسی تحریک کا حامی نہیں ہوں۔یوں اگرتلہ سازش بہرحال ایک حقیقت تو تھی ہی مگر جس وقت یہ راز ہماری اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھلا ۔اُس وقت اُس کی ٹائمنگ بڑی غلط تھی۔مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی جابرانہ پالیسیوں کے سبب شیخ مجیب الرحمان اُس وقت تک مشرقی بازو کا مقبول ترین undisputedلیڈر بن چکا تھا۔اس لئے اگر تلہ کیس اسلام آباد کے حکمرانوں کیلئے بعد میں ہزیمت کا باعث بن گیا۔مگر اس بارے میں قطعی دو رائے نہیں کہ سقوط ڈھاکہ بھارتی مالی ،عسکری امداد کے بغیر ممکن ہی نہ تھا۔اس لئے جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹونے شیخ مجیب الرحمان کو میانوالی جیل سے رہا کر کے 22دسمبر کو ایوان صدر میں ملاقات کے لئے بلایا اور مستقبل میں ایک looseقسم کی فیڈریشن کے ذریعہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلق رکھنے کی بات کی تو شیخ جیسے جہاندیدہ ،ذہین و فطین سیاستدان نے کہا۔’’اس وقت میں آپ کی قید میں ہوں۔اپنے لوگوں سے بات کئے بغیر کوئی جواب نہیں دے سکتا۔مجھے پہلے لندن جانے کے لئے اسپیشل پلین فراہم کیا جائے ۔بھٹو صاحب نے شیخ صاحب کو نہ صرف خصوصی طیارہ دیا بلکہ 4ہزار پاؤنڈ جو اس وقت خاصی معقول رقم تھی ،بریف کیس میں دی۔اسلام آباد سے شیخ صاحب کے جہاز نے اڑان بھری تو اس کی پہلی منزل بھٹو سے وعدے کے مطابق لندن نہیں۔۔۔ دہلی تھی جہاں ایئر پورٹ پر بہ نفس نفیس وزیر اعظم اندرا گاندھی اُن کے استقبال کیلئے موجود تھیں۔بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان کا یہ بیان ریکار ڈ پر ہے کہ انہوں نے دونوں ہاتھ جوڑ کر،سر جھکا کر مسز گاندھی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔۔’’آزاد بنگلہ دیش کا قیام ،بھارت کی حمایت کے بغیر ممکن نہ تھا۔‘‘شیخ مجیب الرحمان جنہوں نے جمہوری جد و جہد کیلئے یقینا بے پناہ قربانیاں دی تھیں۔۔۔یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ موت کے منہ سے نکل کر آئے تھے۔مگر جب وہ اقتدار میں آئے تو انہو ں نے اپنی حکمرانی کا آغاز ہوچی منہہ ،نیلسن منڈیلا،یاسر عرفات حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ایک statesman،بردبار ،عظیم قائد یا سیاستدان کی حیثیت سے نہیں بلکہ راتوں رات ایک متکبر ،مطلق العنان ،بازاری سیاستداں کی حیثیت سے کیا انہوںنے جلتے سلگتے بحران زدہ نوزائیدہ ملک میں اقتدار سنبھالتے ہی یک جماعتی ڈکٹیٹر شپ کی بنیاد رکھی ۔کلکتہ سے آنے والے مکتی باہنی کے جنگجو جتھوں نے 16دسمبر کو ڈھاکہ میں غیر بنگالیوں ،معروف معنوں میں بہاریوں کے ساتھ جو خون کی ہولی کھیلی ۔اُس نے پاکستانی فوج کی جانب سے کی جانے والی فوج کشی کو بھی مات کردیا۔اور یہ بات میںکسی تعصب یا جذباتیت سے غالب ہو کر نہیں لکھ رہا ۔ حال ہی میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے آئی ایچ برنی کی زیر ادارت نکلنے والے رسالے Outlookکے منتخب مضامین کا مجموعہ شائع کیا ہے۔اُس میں مشہور اطالوی صحافی اوریانا فلاچی کاخصوصی آرٹیکل اور شیخ مجیب الرحمان سے انٹرویو بھی شامل ہیں۔مناسب لگتا ہے کہ وہ چند لائنیں میں بہ زبان انگریزی ہی نقل کردوں جن سے اندازہ ہو کہ بنگلہ دیش کی آزادی کے محض چار ماہ بعد بنگلہ بندھو اور ان کی سفاک مکتی باہنی نے جمہوریت اور آزادی کے نام پر بے بس ، مجبور ،مظلوم غیر بنگالیوں سے کیسا انتقام لیا۔بد قسمتی سے ہماری اپنی Pseudo-intellectualاپنی تنگ نظر سوچ اور مصلحت کو شی کے سبب سقوط ڈھاکہ کے اس پہلو کو ہمیشہ نظر انداز کرتی رہی اوریانا فلاچی لکھتی ہیں: "DATELINE: SUNDAY EVENING: I'm going to Dacca via Calcutta. Honestly, this is the last thing in the world I would like to do, after having seen the massacre on 18th December by the Mukti Bahini with their bayonets. I had promised myself never to set foot in that hateful city." اور یانہ فلاچی نے آگے چل کر بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان سے ملاقات اور انٹر ویوکا جو احوال لکھا ہے اسے پڑھ کر جھرجھری آجاتی ہے کہ تین دہائی تک ایک طویل صبر آزما جد وجہد لاکھوںعوام کی قربانیوں کے بعد اقتدارکی مسند پر بیٹھنے والے حکمراں کا انداز ِ حکمرانی بھی ہوسکتا ہے۔ (جاری ہے)