48سال تو گذر ہی چکے ہیں۔پوری ایک بلکہ دو نسلیں رخصت ہو ئیں۔ جنہوں نے ’’ڈھاکہ‘‘ڈوبتے دیکھا۔اس دوران بقول شخصے پُلوں کے نیچے سے خاصہ پانی ہی نہیں ۔ ۔ لہو کا ایک دریابلکہ سمندر بہہ چکا ہے۔مگر لگتا ایسا ہے کہ برصغیر پاک و ہند کی قیادتوں نے ماضی سے کچھ نہیںسیکھا۔اور اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ کہ برصغیر یعنی پاکستان ،ہندوستان اور بنگلہ دیش کے عوام کی اکثریت کا بھی Mindsetسفاکی اور درندگی کی حد تک پختہ ہوچکا ہے۔دہائی گذر گئی ۔مودی نے جو گجرات میں درندگی کی تھی ، اُس کی تاریخ آج بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں دہرائی جار ہی ہے۔ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد ابھی تک سن 1970ء کی خانہ جنگی میں ہلاک ہونے والے بنگالیوں کا بدلہ چار دہائی بعد بھی اپنے مخالفین کوسولیوں پر چڑھا کر دے رہی ہیں۔اور پھر انہیں کیا دوش دیں۔ خود 11دسمبر کو لاہور میں کالے کوٹ والوں نے جس سفاکانہ انداز میں ڈاکٹروں ،نرسوں ،مریضوں کو اپنا نشانہ بنایا ،اور پھر جس طرح کالے کوٹوںکی نمائندہ جماعتیں یک زبان اس کا دفاع کررہی ہیں،اس سے لگتا ہے کہ ہم ماضی کی خونریز تاریخ سے سیکھنے کے لئے تیار نہیں۔ ٍ16دسمبر کے سانحہ پر کالموں اور کتابوں کے پہاڑ لگائے جا چکے ہیں۔عام طور پر اس کا ذمہ دار تین فریق ٹھہرائے جاتے ہیں۔یعنی جنرل یحییٰ خان ،شیخ مجیب الرحمٰن اور بھٹو۔ ۔ اس پس منظر میں سقوط ڈھاکہ کے سب سے بڑے اور مرکزی کردار بھارت کا ذکرضمنی طور پر کیا جاتا ہے ۔یقینا یہ تینوں کردار یعنی جنرل یحییٰ خان ، شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو اپنے اپنے طور پر بری الذمہ نہیں ٹھہرائے جاسکتے۔اس پر بہت کچھ لکھا بھی جاچکا ہے ۔ ۔ مزید کچھ لکھنادُہرانے کے زمرے میں ہی آئے گا۔مگرگذشتہ چند برسوں سے 16دسمبر کے حوالے سے بھارت کے استعماری کردار کو ’’امن کی آشا‘‘ کی نظر کردیا گیا ہے۔ جبکہ حالیہ دنوں میں بلوچستان اور افغانستان کے حوالے سے بھی بھارت جو کردار ادا کررہا ہے ۔ ۔ اُسے16دسمبر کے حوالے سے پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ اب کانگریسیوں سے چار ہاتھ آگے نریندر مودی کے بھارت کا ہمیں سامنا ہے۔۔۔ 16دسمبر کے حوالے سے آج بھی وطن عزیز میں ایک ایسا بڑا موثر حلقہ موجود ہے جو سقوط ڈھاکہ کی ذمہ داری صرف اور صرف پاکستانی ’’فوج ‘‘ پر ڈالتا ہے۔یا پھر۔۔ایک حد تک ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی پر۔ ۔۔ یقینا یہ دونوں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کی جانب دھکیلنے میں ایک حد تک قصوروار ٹھہرائے جاسکتے ہیں مگر اس سارے سانحہ میں شیخ مجیب الرحمٰن کو ایک موثر حلقہ ہیرو کے طور پہ پیش کرتا ہے۔ اب تو خود ڈھاکہ یونیورسٹی سے ایسی کتابیں شائع ہونے لگی ہیں جس میں مستند حوالوں سے ’’اگرتلہ سازش‘‘کا ذکر کیا جاتا ہے۔۔ جہاں جا کر شیخ مجیب الرحمٰن نے بھارتی انٹیلی جنس کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔ ان ملاقاتوں میں ڈھاکہ میں مقیم سینیئر بھارتی سفارتکار بھی موجود تھے۔یہ کوئی 1960ء کے آس پاس کے دن تھے۔وزیر اعظم جواہر لال نہرو اُس وقت زند ہ تھے۔جب ان تک اگرتلہ میں کی جانے والی سازش کی خبر پہنچی تو انہوں نے سختی سے اسے روک دیا۔مگر 1960ء سے1970ء کے عشرے میں بھارتی سفارتکاروں اور انٹیلی جنس کے افسران کے عوامی لیگی قیادت سے روابط ہمیشہ ہی open secretرہے۔1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کی کامیابی غیر متوقع نہ تھی ۔مگر یہ اتنی بھاری اکثریت سے تھی کہ بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو نے اپنے ایک دیرینہ رفیق سابق چیف سکریٹری حکیم بلوچ سے حیرانی سے کہا کہ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ بھاشانی کی نیپ اور ہمارے مظفر احمد کی نیپ کا مشرقی پاکستان سے مکمل سیاسی صفایا ہورہا تھا اور انہوں نے اس کی ہمیں کانوں کان خبر بھی نہ دی!‘‘ 1970ء کے انتخابات میں جو نتائج عوامی لیگ کو ملے اُس پر شیخ مجیب الرحمٰن کو وہی کچھ کرنا تھاجس کا خواب پچاس کی دہائی سے بنگالی قوم پرستوں نے دیکھنا شروع کردیا تھا۔یحییٰ خان کی فوج اور بھٹو کی پیپلز پارٹی ۔۔اگر یہ سب کچھ نہ بھی کرتی تو چھ نکات کی بنیاد پر شیخ مجیب کی عوامی لیگ ایک علیحدہ فیڈریشن کی ہی بنیاد رکھتی کہ چھ نکات پر عملدرآمد کے بعد اسلام آباد کے پاس بچتا ہی کیا۔یہ بڑا طول طویل وقیع موضوع ہے۔اسے ایک مختصر موضوع میں سمیٹا نہیں جاسکتا اور نہ سمیٹنا چاہئیے۔ایک اچھی بات یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے اب ایسی بے شمار کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں جن میں خود بنگالی دانشور بھی اعتراف کرتے ہیں کہ شیخ مجیب اور ان کی عوامی لیگ نے قائد اعظم محمد علی جناح کو جب ڈھاکہ میں چیلنج کیا تھا تو اصل میں یہ پاکستانی ریاست کو چیلنج تھا۔جس میں یہ واضح پیغام تھا کہ مشرقی پاکستان کے بنگالی زبان اور نسل کی بنیاد پر اپنا سونار بنگال بنا کر ہی دم لیں گے۔ابھی کچھ دن قبل ہی میری نظر سے بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی بائیو گرافی گذری ہے جو اُن کی ایک قریبی دوست Pupul Jayakarنے لکھی ہے۔ پیوپل لکھتی ہیں کہ 1970ء کے انتخابات کے چند ماہ بعدعوامی لیگ اور اسلام آباد کے درمیان محاز آرائی زور پکڑنے لگی تو اپریل 1971ء میں یعنی۔ ۔ 16دسمبر 1971ء سے نو ماہ پہلے وزیر اعظم اندراگاندھی نے اپنے آرمی سربراہ جنرل مانک شاہ کو طلب کیا۔وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنے مخصوص متکبرانہ لہجے میں جنرل سے پوچھا۔Do you know what is happening in East Pakistan? جنرل نے گردن ہلا کر جواب دیا۔ Yes madam, people are getting killed اس پر وزیر اعظم گاندھی نے اپنے اسی سرد سپاٹ لہجے میںکہا۔’’کیا تم جنگ کے لئے تیار ہو؟‘‘جنرل نے اپنی وزیر اعظم کے اس دوٹوک سوال پر وضاحتیں پیش کرنی شروع کردیں۔ وزیر اعظم گاندھی نے جنرل کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔’’تمہیں فوج کی سربراہی اس لئے سونپی گئی ہے کہ ہمارے حکم پر جنگ کرو۔ایسا نہیں کرسکتے تو مستعفی ہوجاؤ۔‘‘ سلیوٹ مار کر Yes, madamکہتے ہوئے جنرل مانک شاہ وہاں سے اٹھے اور اپنے کمانڈوز کا اجلاس طلب کر کے انہیں ڈھاکہ میں ایک مکمل جنگ کی تیاری کرنے کا حکم دیا۔ ’’سقوط ِڈھاکہ‘‘ عوامی لیگ کی مسلح تنظیم مکتی باہنی کے ہاتھوں نہیں ہوا۔ایک پوری جنگ کے بعد چار گنا بھارتی فوجیوں نے محصور پاکستانی فوجیوں سے ہتھیار ڈالنے کا جشن منایا۔بنگلہ بندھوکو جو بھارت کے ہاتھوں ’’ڈھاکہ ‘‘ملا۔۔اُس کا شکرانہ انہوں نے اس طرح ادا کیا کہ پاکستان کی قید سے رہائی کے بعد وہ لندن سے سیدھے اپنے جانثار ہم وطنوں کے پاس نہیں گئے۔۔بلکہ بھارت کے دارالحکومت دہلی کی دہلیز پر جاکر اپنی عظیم محسنہ وزیر اعظم اندرا گاندھی کے آگے دست بستہ سجدہ ریز ہوئے۔ شیخ مجیب الرحمٰن جس طرح اپنے انجام کو پہنچے ،در اصل وہ تاریخ کاانتقام تھا۔ کروڑوں بنگالیوں کے دلوںکی دھڑکن بنگلہ بندھو کو محض تین سال بعد ہی خود ان کے ہم وطن ،خود ان کے اپنے گھر میں خون میں نہلاتے ہیں۔اور پھر جس طرح 48گھنٹے تک ان کی بے گور و کفن لاش خاندان سمیت عبرت کا نمونہ بنی پڑی رہی، در اصل ،اُس سے تاریخ یہ سبق دیتی ہے کہ کوئی عوامی قائد چاہے جتنا ہی بڑا نجات دہندہ کیوں نہ بن جائے ،اگر وہ بے گناہ، معصوم لوگوں کے خون بہنے پر مصلحت پسندی کا شکار ہو کر اپنا اقتدار بچانے کے لئے خاموشی اور بے حسی کامظاہرہ کرے گا، تو اُس کا حشر بھی بنگلہ بندھو ہی جیسا ہوگا۔