پہلے تو اس بات کا اعتراف کرنے دیں کہ ہم بھی بائیں بازو کے اُن پر جوش لکھاریوں اور ایکٹوسٹوں میں رہے جو برسہا برس ’’سقوط ِ ڈھاکہ‘‘ کا ذمہ دار افواج ِ پاکستان اور پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کو ہی قرار دیتے رہے۔دائیں بازو یعنی جماعت اسلامی ،اس کی ذیلی تنظیموں اور ان سے وابستہ دانشوروں کا معاملہ دوسرا ہے۔وہ تو 1970ء کی شوکت اسلام کی صراطِ مستقیم پر اب تک چل رہے ہیں۔جن کے نزدیک 1970ء کے انتخابات اور اس کے نتائج کے بعد جو محاذ آرائی ہوئی اس میں وہ تو راہِ حق اور بقائے پاکستان کے واحد معذرت کے ساتھ بازاری زبان میں ’’مامے چاچے‘‘ تھے۔جبکہ اُن کی مخالف بائیں بازو کی جماعتیں یعنی عوامی لیگ پیپلز پارٹی ،نیشنل عوامی پارٹی حتیٰ کہ اس وقت مولانا مفتی محمود کی جمعیت علمائے اسلام بھی نظریہ ٔ پاکستان کی مخالف اور ملحد و مردود تھیں۔منفرد لہجے کے شاعر یاس یگانہ چنگیز ی کیسا منفرد شعر کہہ گئے: سب ترے سوا کافر آخراس کا مطلب کیا سر پھرا دے انساں کا ایسا خبطِ مذہب کیا 1970ء کے انتخاب اور اس کے بعد سقو ط ِ ڈھاکہ پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ کتابوں کی شیلفیں بھی کم پڑ جائیں گی۔وہ جو میں نے ابتدا میں اپنے قبیلے کے دانشوران اُس سخت گیر رویہ اور سوچ کی بات کی تھی کہ جس میں شیخ مجیب الرحمان سمیت عوامی لیگ تو معصوم مظلوم ٹھہرائی جاتی تھی۔۔۔جبکہ افواج پاکستان (میں یحییٰ خان ٹولے کی بات الگ کروں گا)اور پیپلز پارٹی مشرقی پاکستان میں کئے جانے والے ظلم و بربریت کی حامی برسوں نہیں دہائیوں سے یہی ورد کیا جاتا رہا کہ شیخ مجیب الرحمان پاکستان توڑنا نہیںچاہتا تھا۔پاکستانی فوج کے ہاتھوں 30لاکھ بنگالیوں کے قتل ِ عام کی دلدوز کہانیاں تو خیر سے آج بنگلہ دیش کے نصاب میں شامل ہیں۔مگر وطن عزیز میں بھی جب سقوط ڈھاکہ کا ذکر آتا ہے تو ترقی پسند دانشوروں اورلکھاریوں کا بھی کم و بیش یہی موقف ہوتا ہے ۔آگے بڑھنے سے پہلے اس وقت کے’’ یحییٰ نیازی‘‘ کے کردارکے بارے میں واضح کردوں کہ یہ کسی طور اقتدار سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے تھے ۔ان کے دماغ میں یہ سودا بیٹھا تھا کہ 1970ء کے غیر منقسم نتائج کی صورت میں وہ انگریزوں کے تقسیم کرو ،حکومت کرو کے زریں اصول کے مطابق ٹھاٹ سے حکومت کریںگے۔سقوط ڈھاکہ کے تین فریق تھے۔۔نرل یحییٰ خان اور ان کا فوجی ٹولہ،شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ اور تیسرے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو ۔یہ بھی درست ہے کہ اصولی طور پر 1970ء کے الیکشن میں مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کو واضح اکثریت ملی تھی۔وزارت عظمیٰ شیخ مجیب الرحمان کا جمہوری حق تھا۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کو مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں سے ایک بھی قومی و صوبائی اسمبلی کی نشست نہیں ملی تھی کہ شیخ مجیب کی ساری سیاست اور منشور ان چھ نکات پر مشتمل تھا ،جس کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ مشرقی پاکستان سے 99.9فیصد ووٹ حاصل کر کے آزاد بنگال کا پھریرا لہرائے۔ اگر کسی اور کا حوالہ دیا جائے یا منہ میں زبان ڈالی گئی تو تعصب پر مبنی موقف ٹھہرے گا۔اسی لئے خود حا ل ہی میں شائع ہونے والی بانی ِ بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمان کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب’’شیخ مجیب الرحمان :ادھوری یادیں‘‘ کا حوالہ دوں گا ۔جو ان کی صاحبزادی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے مرتب کی ہیں۔فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے خلاف 1967ء کے آس پاس جو عوامی تحریک مغربی پاکستان میں چلی بہر حال اس کا کریڈٹ تو بھٹو صاحب کو ہی جائے گا ۔یہ بھی درست ہے کہ عوامی لیگ سمیت تمام ہی قوم پرست جماعتیں قائد اعظم کی زندگی میں ہی بنگالی زبان کو قومی درجہ دینے کے لئے نہ صرف سڑکوں پر آچکی تھیں،بلکہ بڑی تعداد کا اس کے لئے خون بھی بہایا گیا ۔ سینکڑوں کو نظر بند کیا گیا جس میں شیخ صاحب بھی شامل تھے۔شیخ صاحب کی گرفتاری کا سلسلہ تو خیر 1948ء سے ہی شروع ہوچکا تھا۔1965ء میں بغاوت اور قابل اعتراضات بیانات پر سال بھر کی سزا بھگتنے کے بعد بہر حال اس وقت تک شیخ مجیب الرحمان مکمل طور پر مایوس نہیں ہوئے تھے ۔مگر فروری 1966ء میں جنرل ایوب خان کے خلاف قومی کانفرنس منعقد ہوئی اُس میںجو شیخ صاحب نے تاریخی خطاب کیا ،اسے میں من و عن پیش کردیتا ہوںجو صفحہ ’’ظ‘‘ کے دوسرے پیرا گراف میں اس طرح دیا گیا ہے : ’’شیخ مجیب الرحمان نے حزب اختلاف کی جماعتوں کی قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنا تاریخی چھ نکاتی منصوبہ پیش کیا۔یہ چھ نکاتی مطالبہ بنگالی قوم کی آزادی کا فرمان تھا۔‘‘ جی ہاں، انتخابات سے چار سال پہلے عوامی لیگ کے قائد بغیر کسی لگی لپٹی خود دو ٹوک الفاظ میں اپنے چھ نکات کو ’’آزادی کا فرمان‘‘ ٹھہراتے ہیں۔اور پھر انتخابات سے سال بھر قبل 25مارچ1969ء کو جنرل یحییٰ خان نے اقتدار سنبھال لیا ۔یا جنرل ایوب خان سے چھین کر مارشل لاء نافذ کرکے دسمبر 1970ء میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا تو عوامی لیگ کے قائد نے اس کا خیر مقدم تو کیا مگر ذہین وفطین عوام کے نباض شیخ مجیب الرحمان نے اپنے طویل سیاسی تجربے کی بنیاد پر یہ ادراک کرلیا تھا کہ پاور فل جنرل ایوب خان کی رخصتی کے بعد اب عنان اقتدار ایک ایسے کمزور ،بدمست جنرل کے ہاتھ میں ہے کہ یہ انتخابات ان کے اس خواب کی تعبیر مکمل کردیں گے جس کا وہ برسوں سے خواب دیکھ رہے تھے۔ یہاں اس بات سے بھی انکار نہیں مغربی پاکستان کے حکمراں طبقات نے جس طرح مشرقی پاکستان کو معاشی ،انتظامی اعتبار سے اُن کے حق سے محروم رکھا تھا اُس کے لئے بپھرے ہوئے نوجوان بنگالیوں کی فصل تیار ہوچکی تھی۔جو عوامی لیگ کے قائد کے ایک اشارے کی منتظر تھی۔5دسمبر کو وہ اپنے سیاسی منٹور حسین شہید سہروردی کی برسی پر پلٹن میدان میں دوٹوک الفاظ میں اعلان کرتے ہیں۔ ۔ ۔ یہ اعلان اور بیان میں خود شیخ مجیب الرحمان کی یاد داشتوں سے نقل کر رہا ہوں۔۔۔جو صفحہ ’’ع‘‘ پر دی گئی ہے۔۔۔ ’’آئندہ مشرقی پاکستان ،بنگلہ دیش کہا جائے گا۔وہ وقت بھی آیا تھا جب ہماری سرزمین اور نقشے سے بنگلہ لفظ ختم کرنے کی شیطانی کوششیں کی گئیں۔اس وقت بنگلہ کا لفظ خلیج بنگال کے علاوہ کہیں پایا جاتا تھا۔عوام کی طرف سے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کا مشرقی صوبہ اب مشرقی پاکستان کے بجائے ’بنگلہ دیش ‘کہلایا جائے گا‘‘۔ (جاری ہے)