اور سب سے اہم وہی کہ سب سے بڑی بیماری جہالت ہے‘ جہالت۔ کیسی کیسی آزمائش میں زندگی ڈالتی ہے۔ بقولِ اقبالؔ‘ بجلیاں، زلزلے، قحط اور آلام۔ سیلابوں اور طوفانوں سے بھی بڑا امتحان شاید یہ ہے کہ اپنے جہل اور بے خبری کے سبب کوئی قوم رسوائی، او ر اس کے نتیجے میں مایوسی کا شکار ہونے لگے۔ کوئی ابتلا بے سبب نہیں اترتی اورادنیٰ انسانوں سے لے کر پیغمبرانِ عظام تک کے لیے اس میں کوئی استثنیٰ نہیں۔ ہر آزمائش مختلف ہوتی ہے۔ رحمتہ اللعالمینؐ پر طائف کے بازاروں میں پتھر برسائے گئے۔ وہ بھی آوارہ بازاری چھوکروں نے۔ اپنے خاندان سمیت وہ شعبِ ابی طالب میں رکھے گئے۔ سوا دو برس تک بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں کے ساتھ۔ ایسے امتحان کے پیچھے، انعامات کی بارش کا ایک سلسلہ چھپا ہوتا ہے۔ استعداد بڑھتی چلی جاتی ہے اور کبھی تو حیرت انگیز حد تک۔ یہ اولیا، صدّیقین اور پیغمبروں کی دنیا ہے۔ منزل در منزل‘نور در نور ‘ حتیٰ کہ حیات انعام ہو جاتی ہے۔ ایک ایک لمحہ روشن۔ ہمیں بھی زندگی آزماتی ہے اور دکھ دیتی ہے ‘ معمولی آدمی کو ۔ بنیادی طور پر سبق سکھانے کے لیے۔ اگر وہ سیکھ سکیں تو زندگی ان کی بھی استوار ہونے لگتی ہے۔ انعام اور برکت سے آشنا بھی۔ اس مکروہ بیماری، پولیو کے بارے میں سوچتے ہوئے عجیب کوفت اور کراہت سے آدمی گزرتا رہا۔ یہ اس معزز پاکستانی قوم کی توہین کا باعث ہے ۔ حاجت مندوں کی سب سے زیادہ مدد کرنے والے لوگ۔ میدانِ جنگ میں جو خم ٹھونک کر کھڑے ہوتے ہیں اور اس طرح کھڑے ہوتے ہیں کہ دنیا دنگ رہ جاتی ہے۔ایک آدھ استثنیٰ کے سوا‘ہر بار اس کے شہیدوں اور غازیوں نے، افسروں اور جوانوں نے اور عام شہریوں نے بھی ایسے ایسے باب شجاعت کے رقم کیے ہیں کہ عہدِ آئندہ کا مورخ ہی اس کے ساتھ انصاف کر سکے گا۔ اس بیماری سے ہم کیوں نمٹ نہیں سکتے۔ساری دنیا جس سے نجات پا چکی۔ایسی یہ آزمائش نہیں ‘ بنی نوع آدم کو پہلی بار جس سے واسطہ پڑا ہو۔چین کے کرونا وائرس ہی کو لیجیے‘ یکایک جو پھوٹ پڑا۔ چین ہی نہیں پوری دنیا کو جس نے خوف اور گھبراہٹ میں مبتلا کر دیا۔یہ پروردگار کا قرینہ ہے‘ پیہم انسانیت کو جو سکھاتا رہتا ہے۔اللہ کے مقّرر کئے ہوئے حلال اور حرام ہیں۔ ان سے انحراف ہو گا تو بیماریاں پھوٹیں گی۔ہر خرابی اور ہر بیماری قدرت کے کسی قانون کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہوتی ہے۔اس کا منبع اور اس کی بنیاد تلاش کر لی جائے تو ہمیشہ کے لئے ابن آدم کی راہ کشادہ ہو جاتی ہے۔ بعد میں کیا ہو گا‘ معلوم نہیں۔ اس میں لیکن کوئی شبہ نہیں کہ کمال ہمت کے ساتھ اہل چین نے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔دو دن پہلے کی اطلاع یہ ہے کہ علاج کے لئے ویکسین کی تلاش شروع ہے۔چوہوں پر تجربات ہو چکے۔چند ہفتے نہیں تو انشاء اللہ چند ماہ میں دوا کی تیاری شروع ہو جائے گی۔ تاریخ میں یہ پہلی بار نہیں ہوا۔طاعون پھیلتا اور بستیوں کی بستیاں اجڑ جاتیں۔ابھی چند عشرے پہلے کی بات ہے کہ چیچک اور ٹی بی ناقابل علاج مرض سمجھے جاتے۔چیچک کا خاتمہ ہو چکا اور ٹی بی کا علاج دریافت کر لیا گیا۔ ایک سابق چیف آرمی سٹاف کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ مکمل طور پر ملیریا کا خاتمہ ممکن ہے۔ ہومیو پیتھی کی ایک دوا ہےEupatorium Perf‘ مہینہ بھر کھا لی جائے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آدمی اس مرض سے مامون ہو جاتا ہے۔ جنگلوں اور بیابانوں میں فرائض انجام دینے والے‘ پاکستانی فوج کے ہزاروں جوان اور افسر اس کا شکار ہوتے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ ایک ارب روپے کا بوجھ ۔ دوسرے نقصانات اس کے سوا۔کسی ایک ادارے پر اس دوا کا تجربہ کیا جائے۔ بتدریج اس کا دائرہ پھیلا دیا جائے تو ممکن ہے پوری قوم مستقل طور پر نجات پا لے۔گزری ہوئی صدیوں میں اسی طرح یہ جنگیں لڑی اور جیتی گئیں۔ اب بھی جیتی جا سکتی ہیں۔سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک یہ ہے کہ ہر بیماری کی دوا اتاری گئی۔ اس دوا کو تلاش کرنا ہوتا ہے۔ جوں جوں زندگی آگے بڑھتی اور پیچیدہ ہوتی چلی جائے گی‘ نئی بیماریاں پیدا ہوں گی اور ان کا علاج دریافت کرنا ہو گا۔ لگ بھگ دو صدیاں ہوتی ہیں‘ امریکہ کے ایک سیاہ فام صدر جارج واشنگٹن کے ہم نام تھے‘ کئی ریاستوں میں‘ فصلوں پر حملہ آور ہونے والے حشرات کا جنہوں نے تدارک کیا۔ سائنسدان نہیں تھے مگر ذہن رسا پایا تھا۔ بیماری جس علاقے میں پھیلتی‘ خود وہاں چلے جاتے۔ڈٹے رہتے جب تک کہ علاج دریافت نہ کر لیتے۔فارغ وقت میں کسانوں کو مشاغل میں مصروف رکھتے۔ مثلاً بھٹّے کے غلاف سے نکٹائی بنانے کا طریقہ۔ارادہ اور عزم آدمی کو کرنا ہوتا ہے۔مشقت اور ریاضت مطلوب ہوتی ہے۔قدرت کا ان دیکھا ہاتھ پھر مدد کو آتا ہے اور گرہ کھل جاتی ہے۔ خود کو حالات کے رحم کرم پہ چھوڑ دیا جائے تو بے بسی اور بے چارگی۔ پولیو ایسا مرض نہیں‘ جس کے علاج میں دشواری ہو۔مدّتوں پہلے اس کی ویکسین بنائی جا چکی۔ افغانستان اور پاکستان ایسے دو تین ملکوں کے سوا‘تقریباً تمام کرۂِ ارض کو اس سے پاک کیا جا چکا۔پاکستان کو کیوں نہیں؟ مسئلے کی جڑ جہالت میں ہے اور اس سازش میں جو دشمن نے بنی اور ہم اس کا شکار ہیں۔دہشت گردی کے ساتھ ہی‘ جس کے پیچھے حریف ممالک کی خفیہ ایجنسیاں تھیں‘ طرح طرح کی افواہیں پھیلائی گئیں۔ مثلاً یہ کہ پولیو کے قطرے پلانے سے عورتیں بانجھ ہو جاتی ہیں۔جتھے تیار کئے گئے جو پولیو کے قطرے پلانے والوں پر قاتلانہ حملے کرتے۔اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ابھی چند دن پہلے پختون خوا کے ایک شہر میں موٹر سائیکل ڈبل سواری پر پابندی عائد کرنا پڑی۔ متعلقہ ملازمین کی زندگیاں خطرے میں تھیں۔ ایک دشمن ہے اور ایک اس کا آلہ کار جاہل ملاّ۔ علمائے دین نہیں بلکہ وہ جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نیم ملاّ خطرۂ ایمان۔سرکاری مہم کے حق میں‘ جس پر قوم کی صحت اور آبرو مندی کا انحصار ہے‘ علمائِ کرام نے فتوے جاری کئے۔بعض ایک نے عملی طور پر بھی مدد کی۔یہ الگ بات کہ ان جہلا کے خلاف‘ ان فسادیوں کے خلاف جو تحریک انہیں برپا کرنا تھی‘ نہ کر سکے۔ اس سانحے کا سب سے بڑا سبق شاید یہ ہے کہ جہالت سے بڑی کوئی بیماری نہیں۔ نیم خواندہ اور ان پڑھ ضدی لوگ ‘اگراس مولوی سے رہنمائی طلب کریں گے جو دین سے آشنا ہے نہ دنیا سے تو ایسے ہی نتائج برآمد ہوں گے۔ایسے ہی خوفناک واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ پختون خواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت نے ہائی سکولوں میں قرآنِ کریم کا ترجمہ سکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔رائج عصری علوم کے سوا‘ سیرت اور حدیث کے کچھ اسباق بھی پڑھانے چاہئیں۔ سرکارؐ کا طریق یہ تھا کہ بیمار کو دعا سکھاتے‘ صدقے کی ترغیب دیتے اور بہترین علاج کا مشورہ۔مکّہ مکرّمہ اپنے ایک صحابی کو جس کے زخم مندمل نہ ہو رہے تھے‘ ایک غیر مسلم معالج کے حوالے کیا۔ اور ارشاد یہ کیا’’یہ طبیب ہے ‘‘یہ اس پر اظہارِ اعتماد تھا۔ آدھی دنیا پر حکومت کرنے والے امیر المومنین ہارون الرشید کا معالج جبرائیل نام کا ایک عیسائی تھا۔علم تمام بنی نوع انسان کی مشترکہ میراث ہے۔مغرب سے آنے والی ہر چیز بری نہیں۔ اصول یہ ہے کہ ’’ خدماصفا ودع ما قدر‘‘جو اچھا ہے وہ لے لو ‘ جو خام اور خراب ہے اسے چھوڑ دو۔ اور سب سے اہم وہی کہ سب سے بڑی بیماری جہالت ہے‘ جہالت۔