"سقیفہ"۔ سَقَفٌ سے ہے، جس کے معنی "سایہ دارجگہ "کے ہیں، یعنی ایسا سائبان ، چھَپریا سایہ دار جگہ۔۔۔ جہاں لوگ رسمی یا غیر رسمی طور پر اکٹھے ہو کر اپنے مختلف امور پر تبادلہ خیال کرتے ہوں، جیسے ہمارے دیہاتی یا دیسی ماحول میں "ڈیرہ"یا چوپال وغیرہ ، جہاں سرِشام ۔۔۔ یا سردیوں کی ایسی دھوپ اور چمکتے دنوں میں لوگدن میں بھی اکٹھے ہو جاتے اور نجی، ذاتی ، علاقائی اور قومی امور پر تبادلہ خیال کرلیتے ہیں، بالعموم قبیلہ/خاندان کے بزرگ یا سربراہ اپنے ہاں اس نوعیت کے مقام کا اہتمام ضرور کرتے۔ اسی طرح قبائلی نظام میں، قبیلے کے سربراہ کے ہاں۔ ۔ ۔ اس کے ڈیرے یا حویلی میں ہونے والے فیصلے کی بھی اہمیت ہوتی۔ "بَنُو"کا معنی بیٹے کے ہیں، جو کہ اصل میں "بنون"، جس کا مفرد"ابن "ہے، مضاف ہونے کی بناء پر "ن"حذف ہو کر بنو رہ گیا، جس کے بعد کسی قبیلے کے جدِّامجد کانام بطورِ مضاف الیہ آتا ہے۔ جیسے بنو ہاشم ۔۔۔ یعنی حضرت ہاشم کا خاندان ۔ حضرت سعد بن عُبادہ ؓ، جو کہ قبیلہ بنو ساعدہ کے سردار تھے، کے مکان کے پاس سائبان یا حویلی "سقیفہ بنو ساعدہ" کے نام سے معروف تھی، نبی اکرمﷺ کا جب وصال ہوا ، تو اکثر انصاری سردار اس سقیفہ میں اکٹھے ہوکر اس امر کے خواہاں ہوئے کہ سعد بن عبادہؓ کو حضور ﷺ کا جانشین نامزد کیا جائے۔ اس موقع پر سعد بن عبادہ ؓنے بھی اپنے استحقاق کے لیے ایک پُر اثر تقریر کی، اور انصارکی قربانیوں کو بنیاد بنا کر اپنی خلافت کا مقدمہ صحابہؓ کے سامنے پیش کیا، جس کی انصاری سرداروں نے تائید اور حمایت کی۔ اس واقعہ کی اطلاع پا کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ۔۔۔ حضرت عمرؓ اور ابوعبیدہ بن جراح ؓکی معیت میں سقیفہ بنو ساعدہ میں پہنچے۔ حضرت سعد بن عُبادہ ؓبھی اس مجمع میں موجود تھے، اس موقع پر حضرت عمر ؓ نے گفتگو کرنا چاہی لیکن حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ان کو روکا اور از خود گفتگو کا آغاز فرماتے ہوئے ،انصار اور اہل مدینہ کی خدمات کا بھرپور اعتراف اور نبی ﷺ کے ساتھ ان کی وابستگی اور محبت کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کیا، اوراس کے ساتھ عرب میں قریش کے تفوق اور برتری۔۔۔ اور نبی ﷺ کے احکام کی روشنی میں۔۔۔ قریش سے کسی کو امیر بنانے کی تجویز، ان الفاظ میں پیش کی:کہ یہاں پر حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ موجود ہیں، ان میں سے کسی ایک کے ہاتھ پر بیعت کرلو، جس پر انہوں نے کہا کہ آپؓ کی موجودگی میں اس منصب اور ذمہ داری کا کوئی اوراہل نہیں ہوسکتا، چنانچہ سب سے پہلے، حضرت عمر فاروقؓ نے ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بیعت کی اور پھر اس کے بعد سارا مجمع بیعت کے لیے آگے بڑھا، اور پھر اس کی اطلاع پاتے ہی لوگ اس سقیفے کی طرف بڑھے اور حضرت ابوبکر ؓ کی بیعتِ خلافت کے لیے ہجوم ہوگیا۔ یہی بیعتِ خلافت۔۔۔ ازاں بعد مملکت ، ریاست اور نظام کے استحکام ۔۔۔اور ’’خلافت علی منھاج النبوۃ‘‘میں کلیدی اور بنیادی حیثیت اختیار کر گئی،اور یوں ، نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد ،مہاجرین و انصار کے اتفاق رائے سے ،حضرت ابوبکر صدیق ؓ خلیفہ منتخب ہوئے ،جوکہ عہد رسالت کے بعد اولین اجماع امت تھا۔ اگر اس موقع پر تساہل یا تامل ہوجاتا تو ملک و ملّت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جاتا۔ مہاجرین تو وہ تھے جو مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے ۔یہ انصار کون تھے ۔۔۔۔؟اوس اور خزرج ، یہ دو سگے بھائی تھے، ان کے والد کا نام حارثہ بن ثعلبہ بن عمرو ، جبکہ ان کی والدہ کا نام قیلہ تھا، اوس کا ایک لڑکا۔۔۔جس کا مالک تھا، جبکہ خزرج کے پانچ بیٹے تھے، جب اوس کی وفات کا وقت قریب آیا ، تو اس کے عزیزوں نے اس بات پر اظہار افسوس کیا کہ اس کا صرف ایک بیٹا ہے جبکہ اس کے بھائی خزرج کے پانچ بیٹے ہیں، اب جبکہ تم دنیا سے رختِ سفر باندھ رہے ہو تو تمہارے ورثا میں صرف ایک بیٹا ہے۔ اس موقع پر اس نے نہایت خوبصورت جملہ کہا، جو عرب کی سوسائٹی میں ضرب المثل بن گیا، اس نے کہا کہ: لَنْ یَھْلِکَ ھَالِکٌ تَرَکَ مِثْلَ مَالِکِ جس کا مالک جیسا بیٹا ہوا، وہ ہلاک نہیں ہوتا پھر وہ اپنے بیٹے کی طرف متوجہ ہوا اور اسے وصیت کی: ای بُنَیَّ الْمَنِیَّۃَ وَلَا الدَّنِیَّۃَ اے بیٹے! موت قبول کر لینا لیکن ندامت اور کمینگی کو ہرگز قبول نہ کرنا۔ اوس اور خزرج کی اولاد یثرب سمیت عرب کے دیگر مختلف مقامات پر آباد ہوگئیں، لیکن ان میں سے "انصار"کے معزز لقب سے صرف اہل مدینہ ہی ملقب ہوئے، مدینہ میں قیام کے دوران انہوں نے اپنی بڑی بڑی حویلیاں اور قلعے بھی تعمیر کیے، تاکہ کسی جنگ کی صورت میں ، ان میں مورچہ زن ہو کر اپنا دفاع کر سکیں، یثرب میں اوس، خزرج کے علاوہ دوسری بڑی قوت یہودی تھے، جو بختِ نصر کے ہاتھوں یروشلم کی تباہی کے سبب، وہاں سے نقل مکانی کر کے یہاں آباد ہوگئے۔ اگرچہ ابتدائی طور پر یثرب میں آباد قبائل "پُرامن بقائے باہمی"کے اصول پر کاربند تھے، تاہم یہود کی ریشہ دوانیوں کے سبب اوس و خزرج میں جنگ کا بازار گرم رہا، جس میں یہود کو شدید نقصان اٹھانا پڑا، چنانچہ یہود نے محسوس کر لیا کہ وہ میدان جنگ میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے، تو انہوں نے ان کے ساتھ بظاہر جنگ بندی کا راستہ اپنایاکر۔۔۔ اوس اور خزرج میں بدگمانیاں پیدا کرنے کا سلسلہ شروع کرکے، سازش کے تحت کچھ یہود قبائل اوس کے ساتھ اور کچھ خزرج کے ساتھ مل کرانکو ، ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتے، اور یوں جنگ شروع ہوتی ، توکشتوں کے پشتے لگتے ، خون کی ندیاں بہتیں۔ یہ سلسلہ برس ہا برس تک جاری رہا۔ سینکڑوں لوگ اپنے بھائیوں کے ہاتھوں لقمۂ اجل بن گئے۔ ہجرت سے چار ، پانچ سال پہلے بھی اوس وخزرج میں ایک لرزہ خیز اور خوں ریز معرکہ ہوا ، جس میں دونوں طرف کے کئی بہادر کام آئے، جسے تاریخ میں "جنگ بعاث"بھی کہا جاتا ہے، اوس اور خزرج ، آئے روز کی ان جنگوں سے تنگ آکر مفاہمت کی طرف گامزن ہوچکے تھے ، جس کے لیے انہوں نے عبداللہ بن ابی بن سلول خزرجی کو اپنا سردار اور حاکم مقرر کرنے پر اتفاق کیا، تاکہ امور باہمی نزاع۔۔۔۔ جنگ کی بجائے افہام و تفہیم سے نپٹائے جا سکیں، جس کے لیے اس کی تاجپوشی کی رسم کے انتظامات بھی شروع ہوگئے، اسی اثنا میں ، یعنی نبوت کے گیارہویں سال ، حج کے موسم میں ، عقبہ کے مقام پر بنو خزرج کے ایک گروہ کی نبی اکرم ﷺ سے ملاقات ہوئی ، نبی ﷺ نے انہیں اسلام کی تعلیمات پیش کیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے دل نورِ ایمان سے منور کر دیئے، اگلے سال یعنی 12نبوی میں یہ سلسلہ اور زیادہ مضبوط ہوگیا، اور اوس اور خزرج کے تہتر مردوں کے علاوہ دو خواتین میں بھی مشرف بہ اسلام ہوئیں، اس موقع پر نبی اکرم ﷺ نے ، حضرت جبرئیل کے مشورے سے، بارہ نقیب نامزد فرمائے، جن میں نو کا تعلق بنو خزرج اور تین کا تعلق بنو اوس سے تھا۔ بنو خزرج کی ذیلی شاخ بنو ساعدہ کے نقیب حضرت سعد بن عُبادہ ؓتھے۔