کہاوت ہے کہ بیٹا باپ کے حکم پر ’’کیوں‘‘ کہنے لگے تو سمجھ لیں وہ جوان ہو گیا ہے۔ جوانی کی پہلی چنگاری کا نام بغاوت ہوتا ہے۔ انسان چیلنج کرنا شروع کرتا ہے۔ ہماری ثقافت کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا‘ بہت سی بغاوتیں ہوئیں جنہوں نے ثقافت کا چہرہ مسخ کر کے رکھ دیا‘ وجوہات کئی ہیں۔ طویل عرصے تک انگریز حکمران رہے۔ بیرونی حکمرانوں کے مقاصد ہم سے مختلف تھے۔ مقامی آبادی کا متحد اور سانجھا ہونا ان کے مفادات کے لیے خطرہ تھا۔ صوفیا کی تعلیمات سے ہماری ثقافت کی بنت ہوئی تھی۔ انگریز نے اس کے تانے بنے بکھیر دیئے۔ پورے ہندوستان کی طرح ان علاقوں میں بھی کلاس کلچر کو فروغ دیا گیا جو اب پاکستان کا حصہ ہیں۔ اپنے کارندوں کو زمینیں‘ جاگیریں اور اعزازی عہدے عطا کئے تاکہ ان کے ذریعے عام لوگوں کو قابو میں رکھا جا سکے۔ گھوڑی پال مربعے الاٹ کئے گئے۔ کلچر ڈے یا پنجاب کے یوم ثقافت کے موقع پر ہم پنجابیوں کی پگ کا شملا اونچا دکھائی دیتا ہے مگر یوم ثقافت لباس کا نام نہیں‘ لباس اس بڑے اور جامع تصور کا ایک حصہ ہے۔ یوم ثقافت ساگ اور مکئی کی روٹی جیسے چند کھانوں کا نام بھی نہیں‘ کلچر آلتی پالتی مار کر ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے وقت میں ساتھ بیٹھنے کا نام ہے ‘اس کا یہ مطلب ہے کہ کسی کے سر یا داڑھی میں سفید بال جھانکنے لگے تو بگے جھاٹے والا یہ شخص سب کے لیے قابل احترام ہو جاتا ہے‘ کوئی بچہ ہے تو اسے پورے گائوں اور محلے کی شفقت میسر ہوتی ہے‘ بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ گھر کسی کا ہو‘ چار دیواری کوئی بھی ہو وہ سب کے لیے حرمت کی علامت ہوتی ہے۔ کسی ایک کی عزت پر حملہ سب کی حرمت پر حملہ ہوتا ہے۔ کلچر ایک جیسی سوچ رکھنے والے ایک جیسے لوگوں کا مل جل کر رہنے کا انداز ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم کلچر ڈے مناتے ہیں لیکن ہماری جو ثقافتی روایات ہیں ان کی بحالی کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ اردگرد دیکھ لیجئے۔ بڑوں کا احترام مفقود ہو گیا‘ کوئی بھی دوسرے کو تسلیم کرنے اور عزت دینے کو تیار نہیں‘ کسی کی عمر‘ تجربے اور مہارت کا کوئی لحاظ نہیں۔ بچوں کے ساتھ شفقت کا کوئی معاملہ نہیں۔ بیٹیاں اب سانجھی نہیں رہیں۔ ہم ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جو صدیوں پر محیط اپنی شاندار پہچان کھو چکا ہے جس کو ہمیں بحال کرنا ہے۔ کالج‘ یونیورسٹی اور ٹی وی شوز میں پنجابی لباس پہن لینا یا پنجابی گانے لگا دینے سے پنجابی ثقافت بحال نہیں ہو سکتی‘ بھانڈ اور مسخرے پن سے اصل مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ میں نے ٹی وی پر مارننگ شو کے دوران بہت سے کلچر ڈے پروگرام کرنے کی کوشش کی۔ ہر صوبے کی ثقافت کو اجاگر کیا‘لوک موسیقی کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ مقصد یہی تھا کہ ہم اپنی جڑوں سے جڑ جائیں۔ ہمارے صوفیا نے اپنی دھرتی کے لوگوں کو جو پیغام دیا ہے وہ کسی بیرونی مفکر اور دانشور سے نہیں ملتا: کالے مینڈے کپڑے‘ کالا مینڈا ویس گناہیں بھریا میں پھراں‘ لوک کہن درویش صوفیا کے پیغامات ہمیں بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں‘ ان پیغامات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ رائے احمد کھرل‘ تحریک آزادی کا وہ مجاہد جس کی تاریخ ہم نے مسخ کردی‘ ان جیسے بہت سے مجاہد بھلا دیئے گئے۔ ان کی جگہ لارڈز‘ سر‘ خان بہادر اور جاگیردار ہمیں کنٹرول کرتے رہے‘ اب ان کی اولادیں یہی کام کر رہی ہیں‘ اس نام نہاد اشرافیہ نے انگریز کی سامراجیت کو ہماری دھرتی پر تقویت اور دوام بخشا۔ اس کام کے لیے اپنی وفاداریاں تبدیل کیں‘ انگریز کے سہولت کار بنے۔ دولت آنے پر یہ طبقہ آگے بڑھ گیا۔ ہمارے ہاں دولت کی بنیاد پر جو طبقاتی نظام پیدا ہوا ہے کلچر اسے مٹانے کا نام ہے۔ آرٹ کو دنیا میں بہت بڑی طاقت تسلیم کیا گیا ہے جو معاشرے دینا پر غلبہ رکھتے ہیں وہ فخر کے ساتھ اپنی زبان بولتے ہیں۔ ہمارے ہاں کبھی مادری زبان کو نصاب کا حصہ بنانے کا اعلان ہوتا ہے‘ کبھی کہتے ہیں اس طرح بچے زمانے سے پیچھے رہ جائیں گے۔ یاد رکھیں ثقافت سکولوں میں نہیں سکھائی جاتی‘ یہ گھروں اور خاندانوں میں پرورش پاتی ہے۔ کسی فرد کی سوچ اور رکھ رکھائو اس کو گھر سے ملی تربیت کا غماز ہوتا ہے۔ کلچر کو ایک ثانوی شے کے بجائے اس کی روح کو سمجھتے ہوئے اس سے پیار کرنا‘ اس کی عزت کرنا ہوگی۔ اولیاں دا کھادا تے وڈیاں دے آکھے دا پچھوں پتہ لگدا ہے۔ (آملے کے کھانے اور بزرگوں کے کہے کا بعد میں پتہ چلتا ہے) جب ایسا کہنے والے سیانوں کو ہم پسماندہ اور پینڈو نہیں کہیں گے تو ہم اس روح کو پا لیں گے جو کبھی اس دھرتی کا خاصا تھی۔ اللہ کرے کہ وہ ثقافت جس کو ہم ’اوپرے ‘دل سے مناتے ہیں اس کا احیا ہو سکے اور ہمارے ہاں چھوٹے بڑے کی تمیز اور پہچان ہو سکے‘ ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کے تحت جی سکیں۔ پنجاب ایسا خطہ ہے جہاں مختلف مذاہب کے لوگ رواداری کے ساتھ اکٹھے رہتے رہے ہیں‘ بابا گورونانک جی کو مسلمان بھی اتنا مانتے جتنا سکھ انہیں مانتے۔ ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے کے بہانے نہیں ڈھونڈے جاتے بلکہ مشترکہ اقدار کو اہمیت دی جاتی ہے۔ تقسیم کی بجائے انسانوں کو جوڑنے کا جو سلیقہ ہمارے کلچر نے سکھایا ہے اسے پھر سے آزمانا ہوگا۔ دیکھ پرائی چوپڑی ہم نے اپنا جی نہیں للچانا۔ ہمارے ہاں ایک دوڑ ہے‘ دوسروں کو ہرانے کے لیے ہم کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ یہ وہ بنیادی چیز ہے جو ہمارے کلچر کے متضاد ہے۔