پاکستان نے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کو امن عمل میں پیشرفت سے ہم آہنگ رکھنے کو کہا ہے ۔دفتر خارجہ نے امرکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے گیارہ ستمبر تک انخلا مکمل کرنے کے اعلان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ذمہ دادارنہ فوجی انخلا کا حامی ہے۔دفتر خارجہ نے امید ظاہر کی ہے کہ امریکہ انخلا سے پہلے افغان گروہوں کو تنازع کے حل کے موقع سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دے گا ۔دفتر خارجہ نے افغان تنازع کے حل اور دیرپا امن کے لئے تعمیر نو کے کام میں عالمی برادری کی با معنی شراکت اور پاکستان میں مقیم مہاجرین کی بر وقت واپسی کو ناگزیر قرار دیا ہے ۔ تین روز قبل امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی نئی تاریخ کا اعلان کیا ۔قوم سے خطاب کرتے ہوئے جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ افغان امن مذاکرات کی حمایت کرتے اور پاکستان کے کردارکو تسلیم کرتے ہیں کیونکہ امن مذاکرات میں پاکستان،روس،چین نے اہم کردار ادا کیا۔اْن کا کہنا تھا کہ یکم مئی 2021 سے افغانستان میں تعینات امریکی فوج کے انخلا کا عمل شروع ہوجائے گا اور 11ستمبر تک افغانستان سے تمام امریکی فوجی نکل جائیں گے۔صدر جوبائیڈن نے کہا کہ ’میں چوتھا صدر ہوں جس کے دور میں امریکی فوج افغانستان میں تعینات ہے، اب یہ ذمہ داری پانچویں صدر کو نہیں سونپوں گا، امریکا نے افغانستان میں اپنے اہداف مکمل کرلیے ہیں‘۔امریکی صدر نے واضح کیا کہ فوجیوں کی واپسی کے دوران اگر افواج پر حملے ہوئے تو اْن کا بھرپور دفاع کیا جائے گا، ہر چیز کے باوجود ہم دہشت گردوں کے خطرے پر نظریں رکھے ہوئے ہیں، یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ افغان سرزمین مستقبل میں کبھی ہمارے خلاف استعمال نہیں ہوگی‘۔جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ ’طالبان اور افغان حکومت نے امریکا کو مستقبل میں پرامن رہنے کی یقین دہانی کرائی اور یہ بھی واضح کیاکہ اتحادی ممالک کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہیں ہوگی، سفارتی اورانسانی خدمت کے کام افغانستان میں جاری رہیں گے‘۔ افغان جنگ کے دوران امریکہ کے اب تک 2 ہزار 488 فوجی مارے گئے۔ افغانستان میں امریکی فوج کی غیر معینہ مدت تک موجوگی کا اب کوئی جواز نہیں ہے لیکن ضروری ہے کہ ماضی کے تجربات کو پیش نظر رکھ کر امن عمل میں سفارش کردہ ان امور کو ترجیح دی جائے جن سے افغان قوم خانہ جنگی سے محفوظ رہ سکے ۔جہاں تک پاکستان سے مزید اقدامات کے تقاضے کی بات ہے تو امریکی حکام کو تنازع کے پر امن تصفئے میں پاکستان کی زبانی کلامی تعریف کی بجائے اس کے واجبات کی ادائینگی کرنا چاہئے جو امریکہ نے کئی برس سے روک رکھے ہیں ۔ پاکستان نے پہلے بھی امریکہ بے رخی کے باوجود افغانستان میں قیام امن کی کوشش کی اور اب بھی اس کی کوشش جاری رہے گی لیکن امریکی مفادات اس وقت تک پاکستان کی ترجیح نہیں ہو سکتے جب تک خطے میں پاکستان کے مفادات پر امریکہ تعاون کا عملی ثبوت نہ دے ۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے امریکی ناظم الامور مسز انجیلا اگلر نے ملاقات کی اور علاقائی سکیورٹی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں افغان امن عمل میں ہونے والی تازہ پیش رفت پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ترجمان پاک فوج کے مطابق آرمی چیف نے کہا کہ صدر جو بائیڈن کے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہیں، پرامن مستحکم اور ترقی کرتا افغانستان پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے۔دوسری جانب امریکی ناظم الامور مسز انجیلا نے کہا کہ خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کی کوششیں قابل تعریف ہیں، افغان مفاہمتی عمل میں پاکستان کا کردار لائق تحسین ہے، افغانستان میں امن کے مشترکہ مقصد کے لیے امریکا تعاون کرتا رہے گا۔بعض یورپی ممالک کو افغانستان میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے تناظر میں اگلے ماہ سے فوجوں کے انخلا پر کچھ تحفظات ہیںتاہم نیٹو نے اپنے سات ہزار فوجی بھی ستمبر تک نکالنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ماضی میں بائیڈن نے ایک چھوٹی انسدادِ دہشت گردی فورس رکھنے کی تجویز دی تھی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان جو پہلے ہی افغانستان میں کسی غیر ملکی فوج کے مخالف ہیں وہ اس بارے میں رضامندی ظاہر کریں گے یا نہیں؟ ہوسکتا ہے کہ یہی معاملہ دوحہ معاہدے کے ٹوٹنے کی وجہ بن جائے۔ ایسی صورتحال میں ناصرف افغانستان میں غیر ملکی افواج کا رہنا مشکل ہوجائے گا بلکہ افغان امن عمل بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔اگرچہ اس نظرثانی کے بعد امریکا کی جانب سے کوئی نئی شرط رکھے جانے کے امکانات نہیں ہیں۔امریکا معاہدے کی اس شق کا استعمال کرسکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ معاہدے کے تمام پہلو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں‘۔ بائیڈن انتظامیہ ’دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کے ذریعے افواج کے محفوظ انخلا پر زور دے گی لیکن ساتھ ہی وہ اس عمل کی حمایت کے لیے سفارت کاری کا بھی سہارا لے گی‘۔امید یہی کی جارہی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ معاہدے کو تبدیل نہیں کرے گی۔ لیکن اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ طالبان پر زور دے گی کہ وہ وعدے کے مطابق دہشتگردوں سے تعلقات منقطع کریں، کشیدگی میں کمی لائیں اور افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کریں۔افغان انخلا کا منصوبہ شروع ہونے سے قبل امن عمل کے دوران طے شدہ امور پر توجہ ضروری ہے ۔ یہ منصوبہ افغانستان کے سیاسی نظام، تعمیر نو، پاکستان اور دوسرے امن پسند ہمسایوں کے لئے خطرہ نہ بننے اور مہاجرین کی واپسی کو یقینی بنانے کا تقاضا کرتا ہے ۔ان معاملات کو ادھورا چھوڑ دیا گیا تو امریکہ کا انخلا اس کی پسپائی سمجھی جائے گی۔