حُب ِ رسولﷺ ہر مومن بندہ کی زندگی کا جزو لاینفک ہوتا ہے اور ہر قیمت پر ہونا چاہیے کیونکہ انسانیت کے اس محسن سے نعوذباللہ محبت نہ کرنا اور اسے اپنی زندگی کا آئیڈیل نہ سمجھنا ضعف ِ ایمان کے مترادف ہے۔لیکن بدقسمتی ہماری یہ رہی ہے کہ یہاں پرنبیﷺ کی محبت کے دعوے تو کیے جاتے ہیں جبکہ اس محبت کے منشاء کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔رسالت مآب ﷺکے اسوہ حسنہ کا بنیادی تقاضا تو یہ ہے کہ انسانی معاشرے میں امن کا بول بالا ہو، بھائی چارہ اور برداشت ہو، باہمی تنازعات کو احسن طریقے سے نمٹایا جاتا ہو اور ایک انسان دوسرے انسان کی جاں، مال، عزت اور آبرو کو مقدس سمجھتا ہو ۔آپﷺ سے سچی محبت تقاضا کرتی ہے کہ انسانی معاشرے میں زندگی بحال ہو اور در فساد ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہو علی ھذا القیاس۔جبکہ ہمارا معاملہ ان تقاضوں سے یکسر مختلف ہے۔اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی اس ریاست کی تقریبا اٹھانوے فیصد آبادی کلمہ گو مسلمانوں پر مشتمل ہے اس ریاست میں نبیﷺ ہی کی محبت کے نام پرنبی ﷺ کی محبت کے دعویداروں نے اپنی حرکیات سے زندگی کا پہیہ جام کیے رکھا۔کیا اس مقدس نام کے تحت ایک دوسرے کو کاٹنا ، ایک دوسرے سے نفرت ، بغض اور عداوت رکھنا رسول اللہ ﷺ کی محبت کی نفی نہیں ۔ سات دہائیوں پر مشتمل ہماری تاریخ کا اگر کنگال کر جائزہ لیا جائے تو اس لمبے عرصے میں محمدﷺ سے محبت کی پینگیں بڑھانے والوں نے کیا کیا نہیں کیا؟ رسول ﷺ کے عشق کے نام یہاں محبت ایک آنے کی نہیں بانٹی گئی جبکہ اس نام ہی پر ان کی نفرت اور قتل وغارت کی داستانوں کے اوپرکتابیں لکھی جاسکتی ہے۔پہلے طالبان اور اس جیسی بے شمار دیگر تنظیموں کے لوگوں نے اللہ ،رسول اور شریعت مطہرہ کے نام پر کشت و خون کا بازار گرم کیا تھاکہ مسجدوں، مدارس اور مقبروں تک کا امن غارت کر دیا گیا تھا۔ جس کا نتیجہ نہ صرف انسانی جانوں کی ضیاع کی صورت میں نکلا بلکہ اسلام کی سلامتی اور حقانیت کے اوپر بھی لوگوں کوکلام کرنے کا موقع مل گیا ۔اب پچھلے چند سال سے ایک مذہبی جماعت یہ کام بھرپور انداز میں انجام دے رہی ہے یہاں تک کہ ماضی کی تنظیموں کی انتہا پسندی میں اس کے سامنے ہیچ محسوس ہوتی ہیں۔ سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا اشتعال، شورش اور گالم گلوچ میرے رسول ﷺ کی محبت کی نفی نہیں۔ ماضی کے دنوں میں اس تنظیم کے کارکنوں کے ہاتھوں سے کونسا فساد بپا نہیں ہوا ؟ ان کے بپھرے ہوئے احتجاجی مظاہروں کے قرب وجوار میں کس کس راہگیر کو تکلیف اور کس کس پولیس اہلکار کو صدمہ نہیں پہنچا ؟ کیا یہ ایک معمولی بات ہے کہ دو تین دن تک اس کے جنونیوں کے ہاتھوںنہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے او دو معصوم پولیس کانسٹیبلزسمیت پانچ دیگر افراد جان کی بازی ہار گئے ۔کیا اچھا اور کیا بجاکہا ہے استاد افتخار عارف نے : رحمت سید لولاک پر کامل یقین لیکن امت سید لولاک سے خوف آتا ہے المیہ تو یہ ہے کہ جب ایسے جنونی عناصرکی ریاست ہی کی گود میں انتہاء پسندی کی پرورش ہو رہی ہوتی ہے، تو حکومت بے حسی کا مظاہرہ کرتی ہے یہاں تک کہ شرپسند عناصر حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنا شروع کر دیتے ہیںاور بعد میں جب یہ رحمت کے بجائے الٹا زحمت اور دردسر بن جاتے ہیں تو پھر اس سے نمٹنے کا پلان سرکار وقت کے پاس نہیں ہوتا۔ پچھلے سال نومبر میں تواسی حکومت ہی نے معاہدہ کیا تھا ۔کیا حکومت کویہ ادراک نہیں تھا کہ ہوش کے بجائے جوش کا راستہ اختیار کرنا پہلے ملک اور عوام کے مفاد میں ثابت ہواتھا ،نہ ہی آج ایسے پیچیدہ مسائل سے جوش کے ذریعے خود کو نکالا جاسکتا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ ریاست کے اندر ریاست کو للکارنے والوں سے نپٹنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ریاستی مشینری ناقابل شکست قوت ہوتی ہیںلیکن شرط یہ ہے کہ ریاستی حکام کے پاس دوربینی، اعلی ظرفی، خلوص اور اعلی دماغ بھی ہو۔ ہمارے ہاں ریاست کا ڈھانچہ اور طاقت موجود ہے لیکن اس کے استعمال کرنے والے حکمت اور دوربینی سے بھی عاری ہیں اور خلوص اور اعلی ظرفی سے بھی تہی مغز اور خالی ، جس کا نتیجہ لازمی طور پر بھیانک اور تباہ کن نکلے گا۔ ریاست کے علاوہ اس طرح کی مذہبی جنونیت کو رام کرنے کیلئے وسیع تر تربیت کا اہتمام کرنا بھی ناگزیر ہوتا ہے، جس کا بھی ہمارے پاس کوئی پروگرام نہیں۔ جنونیت کو بام عروج پر پہنچانے میں جس طرح ہمارے بعض ناعاقبت اندیشوں کا دانستہ یا نادانستہ طور پر ہاتھ رہا ہے، وہی لوگ ایسے عناصر کو رام کرنے کا فریضہ بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں۔کیا اب وقت نہیں آیا ہے کہ یہ لوگ اس بھیانک تجربے کو مزید دہرانے سے تائب ہوجائیں۔کیا ان لوگوں کا فرض نہیں بنتا ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو حُب ِنبی کے بنیادی تقاضوں سے آگاہ کریں بات بات پر مشتعل ہونے کی بجائے انہیں برداشت اور اعتدال کا فلسفہ ازبر کرادیں؟ جب تک اسوہ نبیﷺ کی حقیقی روح کو سمجھنے کی سعی نہیں کی جاتی، میرا نہیں خیال کہ یہاں پرمثبت سوچ پروان چڑھے سکے گی اور بے لگام شدت پسندی کا در بند ہوگا۔