گزشتہ روز قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے بلاول زرداری نے کہا کہ جب تک عمران خان کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ کر نے پر معافی نہیں مانگتے ہم ان کے ساتھ انتخابات کی تاریخ پر مذاکرات نہیں کریں گے جب کہ عمران خان کا مؤقف ہے کہ جب سکیورٹی اداروں نے انہیں ہائی کورٹ کے احاطے سے غیر قانونی طور پر پر اٹھا لیا گیاتو اس پر ردعمل تو آنا تھا انہوں نے سوال اٹھایا کہ کہ بغیر کسی تحقیقات کے سرکاری عمارتوں کی آتشزدگی کا ذمہ دار تحریک انصاف کے کارکنوں کو کیسے ٹھہرا یا جا سکتا ہے اس بات کی انکوائری غیر جانبدار جج کر سکتا ہے کہ ہمارے احتجاجی مظاہروں میں بندوقوں کے ساتھ تخریب کاروں کو کس نے بھیجا اور ان کے پاس ایسے لوگوں کے ویڈیو ثبوت ہیں جن کو وہ انکوائری کمیشن کے سامنے پیش کر دیں گے ۔ چلیں عمران خان قصور وار ہیں یا نہیں اسکا فیصلہ وقت کر دے گا وگرنہ تاریخ کے کٹہرے میں کون سرخرو ٹھہرے گا ۔بلاول صاحب سے زیادہ کون جانتا ہے کہ عمران خان بھی آج بھٹو کی طرح سربکفن میدان کارزار میں جان کی بازی لگا نے کے خبط میں مبتلا ہے کیونکہ اس کے دل ودماغ میں یہ سما گیا ہے ع " جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں " کاش بلا ول صاحب اپنے والد محترم سے بھی اس بیان پر معافی مانگنے کا کہتے جو انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے کا بارے میںدیا تھا ہمارے ہاں طاقتور ریاستی جرائم پر کبھی معافی نہیں مانگتا بلکہ وہ اور ان کے حواری ہمیشہ اپنے آپ کو درست ثابت کرنے پر لگے رہتے ہیں اور ان طاقتور افراد نے جن کو نوازا ہوتا ہے اور وہ ان کے بعد ان کی جگہیں سنبھالتے ہیں وہ بھی انہیں قانون اور انصاف کے کٹہرے میں نہیں لانے دیتے ۔کاش ہمارے ہاں کوئی غیر جانبدارانہ Truth Commission قائم ہو اور ریاست پاکستان کے ساتھ ظلم وستم کرنے والے اپنے حصے کے جرائم پر معافی مانگیں اور جو شخصیات اس دنیا سے رخصت ہو گئی ہیں ان کا بعد از مرگ ٹرائل کیا جائے انہیں علامتی سزا ضرور دی جائے تاکہ آنے والی نسلوں کو پتہ چلے کہ اگر وہ اعلیٰ مناصب پر پہنچیں تو انہیں پاکستان کے مفاد کو اپنی انا اور مفاد سے بالاتر سمجھ کر فیصلے کرنے ہیں۔ انہیں آ ئین او ر جمہوریت کے صرف انہی اصولوں پر عمل کرنا ہے جس کے خدوخال قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمداقبال کے تصور ریاست سے کشید کئے گئے ہیں۔ اگر بلاول کو معافی کا مطالبہ کرنا ہے تو ان سے بھی کریں جو بھٹو کی پھانسی میں شریک کار تھے وہ نہیں تو ان کے والدین اس گناہ عظیم میں شریک تھے بے نظیر کا نام سن کر کس کا خون کھولتا تھا کس نے ان کی فوٹوشاپ تصاویر ہیلی-کاپٹر ز سے پھینکوائی تھیں، کون عورت کی حکمرانی کے خلاف تھا ،کون زرداری کا پیٹ پھاڑ کر کرپشن کی دولت نکال رہا تھا ۔ وار آن ٹیرر پر پاکستان کے 50 ہزار شہدا کے ذمے داروں نے نہ اپنی غلطی کو تسلیم کیا اور نہ ہی اپنے موقف کو غلط تسلیم کرتے ہوئے اس پر معذرت کی اسحاق ڈار نے، اسد عمر، شوکت ترین اور مفتاح اسماعیل نے ہماری معیشت سے کھلواڑ کیا کیا کوئی ایک بھی اپنے قصور پر معافی کا طلب گار ہے۔اختر مینگل یہ سوال کرتا ہے کہ جو مہرومحبت پنجاب کے سیاست دانوں سے کی جاتی ہے وہ ہم سے کیوں نہیں رکھی گئی نوروز خان سے لیکر اکبر بگتی تک ہزاروں بلوچوں کو مارا گیا مگر کسی کو بھی پشیمانی نہیں۔ آج بھی ہزاروں بلوچ غائب ہیں اور ان کی واپسی کے لیے کوئی بھی ان کے اہل خانہ کو امید نہیں دلاتا ہے اور نہ ہی اعلیٰ عدالتیں ان کے لیے کوئی عملی قدم اٹھاتی ہیں۔ ہمارے ہاں لاکھوں غریب افراد بے گناہ جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں اکثر تیس تیس سال کے بعد رہا ہوئے ہیں یا پھر جب انہیں بے گناہ قرار دے کر اعلی عدلیہ نے رہا کیا تو پتہ چلا کہ ان کو تو کب کی پھانسی دے دی گئی ہے۔ آج تک بھٹو کے بے گنا ہ قتل پرسوائے جسٹس نسیم کے کسی نے نہیں معافی مانگی۔ ہمارے ہاں مذہب، سیاست، قوم پرستی، شخصیت پرستی اور لسانیت کے نام پر سادہ لوح کارکنوں اپنے مفادات کی بھٹی میں جھونک دیا جاتا ہے عمران خان، نواز شریف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے بچے تو عیشِ وعشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں یا اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔چاہے کوئی بھی پارٹی ہو مر کون رہا ہے غریب کا بچہ، جیلوں میں کون مصیبتیں برداشت کر رہا ہے غریب کا بچہ، ایوب خان کے خلاف جو عوامی تحریک چلی اس میں بھی غریب عوام ہی کام آئے۔ پاکستان قومی اتحاد کی تحریک جو بھٹو کے خلاف چلائی گئی اس میں بھی غریب عوام کو ہی مصائب کا سامنا کرنا پڑا ۔ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک میں بھی غریب کارکنوںکا خون ہی خاک نشین ہو ا۔جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے وہ "دیوتا" ہے۔دیوتا انسانی غلطیوں پر معافی نہیں مانگتے ہیں۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی غلطی نہیںنسمجھتا اور دوسرے کے ہر عمل میں اسے برائی نظر آ جاتی ہے ھالانکہ اپنی غلطی کو تسلیم کرنا کسی کے صاحب حوصلہ اور بڑا ہونے کی علامت ہے۔ عمران خان کے متعلق یہی کہا جا سکتا ہے۔ میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوںکہ بس خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں