ہر بات پہلی بار ہونے کی رت ملک میں پہلی بار آئی ہے بجٹ ہی کو لے لیجیے‘ دو باتیں اکٹھی پہلی بار ہوئی ہیں۔ پہلی یہ کہ پہلی بار پاکستان کا بجٹ پاکستان نے نہیں بنایا جنہوں نے بجٹ بنانا تھا‘ انہوں نے تو ہاتھ اٹھا دیے کہ ہمارے بس کی بات نہیں ع لٹ الجھی سلجھا جا رہے بالم میں نہ لگائونگی ہاتھ رے اور آئی ایم ایف نے پھر ایک چھوڑ دو دو بالم بھیج دیے اور ان بالموں نے بجٹ کے بجائے سکائی لیب۔ بنا کر قوم کے اوپر گرا دیا۔ یہ لو سلجھادی لٹ۔ اورسکائی لیب بھی کیسا سبھی کو پیس کر رکھ دیا۔ دوسری بات جو پہلی بار ہوئی وہ یہ تھی کہ خیر سے پنجاب کا بجٹ بھی انہی بالموں نے بنایا اب آپ ان بالموں کے نام پوچھیں گے۔ بھئی نام نہ دیکھو۔ کام دیکھو۔ ٹیکسوں کی ژالہ باری ہوئی ہے۔ کیا لگتا ہے؟ یہی کہ ہر بجٹ بھی آئی ایم ایف والوں نے بنایا ہے۔ اور 16فیصد کا چھرا اس کے علاوہ ہے جو وفاقی بجٹ میں چلا ہے۔ وفاقی بجٹ میں تو یہ چھرا بھی چلا کہ جس دکاندار کی آمدنی ماہانہ 33ہزار کی ہو گی اسے بھی 5ہزار ٹیکس دینا پڑے گا۔ ایک تو پہلے ہی ہر چیز بشمول بجلی مہنگی کر کے یہ 33ہزار مشکل سے 20ہزارکردیے اس میں سے بھی 5ہزار حکومت لے جائے تو بے چارہ نہائے گا کیا اور نچوڑے گا کیا، اور یہ بھی تب جب دکان اس کی اپنی ہو۔ کرائے کی ہوئی تو سوچئے پھر کیا کرے گا۔ ٭٭٭٭٭ پنجاب کے بجٹ کی نظر کرم کی نذر خصوصیت کے ساتھ زراعت بھی ہوئی ہے۔ بے چاری کے پلے رہا ہی کیا ہے جو پنجاب کا بجٹ بھی اس پر چڑھ دوڑا۔ خیر سے عمران خان کا ایک دعویٰ یا وعدہ یاد آ گیا۔ اقتصادی تجزیہ نگار کہا کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں زراعت زیادہ ترقی کرتی ہے اور نواز دور میں صنعت و تجارت۔ عمران خان نے دعویٰ(وعدہ) کیا تھا کہ ایک ہی بال میں دونوں کی وکٹیں اڑا دوں گا۔ دیکھیے! دس ہی مہینے میں زراعت بھی آئوٹ‘ صنعت و تجارت بھی آئوٹ۔ یہی حال صنعت و تجارت کا بھی ہے۔ اتنی چھانٹیاں کارخانوں سے ہوئی ہیں کہ عمارتیں بھوت بسیرے بنتی جا رہی ہیں۔ جو بند ہو گئے ان کا تو ذکر ہی کیا۔ ٭٭٭٭٭ بڑھتی مہنگائی کا اعتراف تو خود خان صاحب نے بھی کیا۔ اپنی ’’مڈ نائٹ سپیچ‘ میں فرمایا کہ بڑی مشکل سے گزارا ہوتا ہے۔ سچ ہے اسی لئے اس سال کے بجٹ برائے ایوان وزیر اعظم میں معمولی سا اضافہ کرنا پڑا۔ پہلے 90کروڑ تھا۔ اس سال ایک ارب 17کروڑ کر دیا گیا ہے دس مہینوں میں جو اضافی خرچہ کرنا پڑا اس کا سپلیمنٹری بجٹ الگ ہے۔ وہ تو غنیمت ہے آٹھ دس ماہ پہلے وزیر اعظم ہائوس کی بھینسیں بیچ ڈالی تھی کچھ یافت وہاں سے ہو گئی ہو گی ورنہ تو ایک ارب 17کروڑ میں کہاں گزارا ہونا تھا۔ مہنگائی نے ایوان صدر کو بھی نہیں چھوڑا۔ پچھلے نو دس مہینوں میں 27کروڑ روپے اضافی خرچ کرنا پڑے جو حالیہ بجٹ میں ادا کئے گئے اور آئندہ کے لئے مناسب سا اضافہ کیا گیا۔ اضافی خرچ کے لئے خبر میں over spendingکے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ ایوان صدر کی کفایت شعاری کا یہ عالم ہے کہ طوطوں کے پنجروں کے لئے 20لاکھ کا ٹینڈر دے کر واپس لینا پڑا۔ گملوں وغیرہ کے لئے بھی 30لاکھ مالیت کا ٹینڈر دیا گیا۔ آہ کفایت شعاری نے یہ دن دکھائے کیا ستم ڈھائے۔ پچھلی بار مشاعرہ ہوا تھا۔ تب بھی صدر صاحب اڑ گئے تھے۔صاف کہہ دیا ‘ پھر بھی ہوا، مشاعرے پر 30لاکھ سے زیادہ خرچہ نہیں کروں گا اور پھر جو کہا وہ کر دکھایا۔ مشاعرے پر تیس لاکھ سے زیادہ ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا۔ ٭٭٭٭٭ کفایت شعاری میں پنجاب کے وسیم اکرم پلس بھی پیچھے نہیں رہے۔ ان کی آرام و قیام گاہ کے لئے بجٹ میں 60کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے۔ مہنگائی زیادہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے قریباً79کروڑ خرچ کر دیے یعنی 19کروڑ زیادہ ۔اب دیکھیے وہ 80کروڑ بھی خرچ کرسکتے تھے لیکن کفایت شعاری کا پاس بھی تو کرنا تھا۔ اس لئے صرف 79کروڑ پر گزارا کیا۔ رواں بجٹ میں ان کے وظیفہ خدمت کے لئے صرف 30فیصد کا حقیر سا اضافہ کیا گیا ہے جو ان کی خدمات کے عوض کچھ بھی نہیں۔ اب خدمات کا مت پوچھیے گا۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ دس مہینے میں پنجاب کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ اتنا بدل گیا کہ سال بھر پرانا پنجاب کہیں نظر ہی نہیں آتا۔ہرکہ خدمت کرو او مخدوم شد!اسی طرح چند کروڑ کا اضافی خرچہ وزراء کے دفاتر کی واجبی سی تزئین و آرائش پر بھی ہوا۔ حکومتی سطح پر محض 90کروڑ کے اضافی خرچے ہوئے۔ ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ ریلوے کا خسارہ 37ارب سے بھی بڑھ گیا ہے اور نئے مالی سال کے آغاز کے بارے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ مزید بڑھ کر 39ارب روپے ہو جائے گا۔ ابھی دو چار ہفتے پہلے یہ خبر تھی کہ خسارہ 29ارب ہو گیا ہے چند ہفتوں میں آٹھ ارب کا اضافہ ۔ برکت کچھ زیادہ ہی تیز رفتار نہیں؟ ایک اور خبر ہے کہ ٹرینیں لیٹ ہونے اور پٹڑی سے اترنے کے واقعات میں بھی ریکارڈ اضافہ ہو گیا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ اس لئے ہے کہ شیخ جی کوئی دوسری وزارت چاہتے ہیں۔ چند دن پہلے ان کا بیان تھا کہ ریلوے کی کارکردگی ٹھیک نہ ہوئی تو خان سے کہوں گا مجھے دوسری وزارت دے دیں۔ جی؟