ترقیاتی اور سماجی ترقی کی منصوبہ بندی میں جن دو با توں کا تواتر سے ذکر ملتا ہے وہ پائیداری اور عوامی شراکت ہے۔اکثر ماہرین کی نظر میں یہ دونوں تصورات ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ عوامی شراکت جتنی زیادہ ہو گی اتنا ہی استحکام پا ئیدار ہو گا تو غلط نا ہو گا۔ فیصلہ سازی اور عملی کام کی جتنی زیادہ ذمہ داری کمیونٹی خود لے گی اتنی ہی انکی صلاحیت بڑھے گی۔ اسی طرح این جی اوز یا حکومتی اداروں کا بوجھ بھی کم ہو گا۔لیکن یہ کہنا آسان اورکرنا مشکل ہے، تاہم نا ممکن تو ہرگز نہیں۔ پتن ترقیاتی تنظیم جسکا جنم 1992 کے بڑے سیلاب کے نتیجہ میں ریلیف اور بحالی کا کام کرنے کے باعث ہوا تھا گزشتہ تیس برسوں سے سینکڑوں آفت زدہ آبادیوں کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ جہاں جہاں مقامی آبادی (عورتوں اور مردوں) کی آراء اور مشاورت کو اولیت دی گئی، وہاں وہاں سماجی اور سیاسی پختگی آج بھی قائم ہے۔ مگر یہ تبھی ممکن ہوا جب مقامی اشرافیہ کے غیر ضروری اثرورسوخ کو ہموارکیا گیا۔ مگر ایسی آبادیوں میں جہاں مقامی اشرافیہ ریاستی انتظامیہ کے ساتھ ملکر "ردِ انقلاب" کرنے میں کامیاب ہوئی ،وہاں بتدریج سماجی تنزلی لوٹ آئی۔ لوکل گورنمنٹ کی جو شکل پرویز مشرف کے دور میں متعارف کرائی گئی اور جس کے باعث پسماندہ طبقات بشمول خواتین اور اقلیتیں حکمرانی کا حصہ بنیں، اس کو آنے والی سویلین حکو متوں نے لپیٹ دیااور گزشتہ پندرہ برسوں میں عوامی عدم شراکت کا ڈھٹائی سے مظاہرہ جاری ہے۔ آج سیلابی آفت سے نبرو آزما ہونا آسان ہو سکتا تھا اگر ہمارے ہاں با اختیار لوکل گورنمنٹ اور آر گینک( organic) سول سوسائٹی ہوتیں، بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ آئیے اسکی وجوہات کا جائزہ لیں۔ نیو لبرل ایجنڈاکے تحت درج بالا بیان کیے گے دونوں تصورات ترقیاتی عمل کے دو بنیادی ستون قرار پائے اور انکو عملی جامہ پہنانے کیلئے این جی اوز کا ہونا لازم ٹھہرا۔ اس نظریہ کے مطابق پائیداری جسے ہم انگریزی میں سسٹین ابیلیٹی کہتے ہیں اور عوامی شراکت کے بغیر ایک روپیہ بھی خرچ کرنا ایسے ہی تھا جیسے بنیاد کے بغیر عمارت یا پیندے کے بغیر بالٹی۔ مگر نیو لبرل نظریہ کے معمار ایک بنیادی حقیقت (غالباً جان بوجھ کر) بھول گئے کہ سول سوسائٹی گملوں میں پھل پھول نہیں سکتی ، اس کے ساتھ ساتھ نجکاری اور نام نہاد آزاد منڈی کے نام پر ترقی پذیر ممالک میں مغربی ریاستوں نے طاقتور طبقات کو نہ صرف کھلی لوٹ مار کرنے کی اجازت دی بلکہ اس کے خلاف مزاحمت کرنے والی تحریکوں،خاص طور پر مزدور تحریک کو بھی کمزور کیا گیا۔ مزید برآں لوٹ مار کی دولت کو تحفظ دینے کیلئے مغربی ممالک نے اپنے ہاں زبردست بندوبست بھی کیا ۔ مثال کے طور پر آف شور کمپنیوں کا جال بچھانا، لوٹ کے مال کو اپنے بینکوں میں پارک کرنا وغیرہ۔ مختصراً عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو مضبوط کرنا مقصد ِعظیم ٹھہرا اور یہ سب کچھ چھپانے کیلئے انسانی حقوق اور جمہوریت کا چرچاضروری ٹھہرا۔ نواز شریف صاحب کی حکومت نے جو 2014 میں این جی اوز پر بظاہر بوجہ فیٹف پابندیاں لگادی گئیں وہ تحریک انصاف اور پی ڈی ایم حکومتوں نے برقرار رکھیں۔ نتیجہ کے طور پر سماجی شعبہ میں ایک وسیع خلا پیدا ہو گیا۔ میری نظر میں اس کی بہت بڑی وجہ این جی اوز کی قیادت کی نا اہلی اور مفاد پرستانہ عمل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی شرکت کے فلسفہ کی روح کو اپنے پروگرام کا حصہ نہ بنا نا بھی ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ عوامی شراکت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے عالمی اداروں نے بھی اس عدم توجہی پر سمجھوتہ کر لیا۔ جب این جی اوزپر پابندیاں لگیں تو کوئی بھی فرد یا طبقہ ان کی حمایت میں باہر نہیں نکلا اور نا ہی این جی اوز کی قیادت نے ان کمیونٹی گروپوں کو اپنی مشکلات کے آگاہ یا حمایت کیلئے متحرک کیا۔حالانکہ این جی اوز ہمیشہ انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف متحرک رہی ہیں۔ البتہ جن حکمرانوں نے یہ پابندیاں لگائی تھیں انہی سے رحم کی اپیلیں کی جاتی رہیں۔ افسوس اس بات کا نہیں، بلکہ پریشانی اس بات کی ہے کہ این جی اوز کے درمیان اس کے بارے کسی قسم کا کوئی سنجیدہ بحث و مباحثہ بھی نہیں ہو رہا۔ اس وقت جبکہ سیلابی آفت نے پاکستان کے ہر شہری کے ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے، ہر شخص کسی نہ کسی طرح سیلاب زدگان کی مدد کر رہا ہے یا کرنے کیلئے بے چین ہے، این جی اوز بھی حکومت وقت کی طرح مغربی ڈونرز کے فنڈز کا انتظا ر کر رہی ہیں۔ دوسری طرف رفاہی ادارے، انجمن تاجران، کمیونٹی بیسڈ ایسوسی ایشنز (CBOs) اور مذہبی سیاسی جماعتو ں نے بہت ہی سرعت سے سیلاب زدگان کی مدد کیلئے اشیا اور نقد رقم جمع کرنا اور انکی تقسیم شروع کر دی ہے۔ اسلام آباد میں قائم کیے گئے ریلیف کیمپس کے سروے کے مطابق نوے فیصد کیمپوں کا تعلق مذہبی سیاسی جماعتوں یا فرقہ پرست اداروں سے ہے۔ اس سروے کیلئے پتن ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن نے 24 سے 30 اگست کے درمیان لگائے گئے ریلیف کیمپوں کا وزٹ کیا۔ مجموعی طور پر پتن کی ٹیم نے دارالحکومت میں 15 کیمپوں کا سروے کیا اور ان کا انتظام و نسق چلانے والے افراد کے انٹرویوز کئے۔ سروے ،ہمارے تنظیمی طویل تجربات ومشاہدات اور تحقیق کی بنیاد پر، ایسا لگتا ہے کہ فلاحی تنظیمیں امدا د کی وصولی اورتقسیم کے نظام میں ماضی کی نسبت بہتری لائی ہیں۔ اس کے باوجود ان کے پاس متاثرہ لوگوں کی ضروریات کا اندازہ لگانے کا مناسب نظام نہیں ہے۔ مثال کے طور پر نصف جواب دہندگان نے کہا کہ وہ مقامی رابطوں پر انحصار کر رہے ہیں اور زیادہ تر نے کہا کہ انہوں نے ضرورت مند برادریوں کی ضروریات کی نشاندہی کرنے کا کوئی طریقہ تیار نہیں کیا۔ لہذا امدادی سرگرمیوں میں ایک طرف ارتکازِتقسیم اور دوسری طرف نظرانداز تقسیم کا امکان موجود ہے، جس کے مستقبل میں منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔ پتن نے مشاہدہ کیا کہ تقریباً تمام تنظیمیں کیمپ میں لائی جانے والی یا ان کے حوالے کی گئی ہر چیز کو قبول کر رہی ہیں۔ اس سے اشیا کو چھانٹنے میں رضا کاروں کا بہت زیادہ وقت ضائع ہونے اور اگر جمع کی گئی اشیاء کو ضروریات کی مناسب تشخیص کے بغیر بھیجا جاتا ہے تو سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اشیا کا انبار لگنے کا زیادہ امکان ہے۔ انٹرویو دینے والے تقریبا ہر فرد نے فیڈرل اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کو انتہائی غیر تسلی بخش قرار دیا اور ننانوے فیصد کے نزدیک انسانی خدمت کا جذبہ ریلیف کیمپ لگانے اور سیلاب زدگان کی مدد کرنے کا باعث ہے۔ اس بحث اور موجودہ صورت حال سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ خود انحصاری اور پائیداری صرف اور صرف دھرتی اور اس کے ساتھ جڑے ہوے افراد کو خود مختار کرنے سے جنم لیتی ہے۔ آج رفاہی اور فلاحی ادارے اس لئے ریلیف کی تقسیم میں پیش پیش ہیں کیونکہ انکا انحصار اپنی دھرتی پر ہے اور آج این جی اوزاس لیے پیچھے رہ گئی ہیں کہ انکا انحصار بیرونی قوتوں پر ہے۔ این جی اوز کی کئی دہائیوں پر محیط کاوشوں کو قوت میں بدلنے کیلئے اشد ضروری ہے کہ خود تنقیدی کے ذریعے مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جائے۔ یہ مختصر مضمون اسکی طرف پہلا قدم ہے۔