میجر جنرل سکندر مرزا وطن عزیز پاکستان کے چوتھے گورنر جنرل تھے‘ان کے دادا نوابزادہ منصور علی مرزا بنگال کے آخری نواب تھے‘ نواب سراج الدولہ کیساتھ میر جعفر نے غداری کی تھی‘ جس کے نتیجہ میں انہیں زندگی اور تخت دونوں سے ہاتھ دھونا پڑا‘ میجر جنرل سکندر مرزا میر جعفر کی اولاد میں سے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہیں ملک کا پہلا سیکرٹری دفاع مقرر کردیا گیا۔سکندر مرزا کی ایوب خان سے بہت زیادہ دوستی تھی۔ مشرقی پاکستان سے مہاجرین کی محفوظ منتقلی میں ناکامی پر بریگیڈیر ایوب خان کیخلاف کورٹ مارشل کا فیصلہ کیا گیا لیکن سکندر مرزا نے انہیں بچالیا۔ایوب خان سکندر مرزا کے تعاون سے چیف آف آرمی سٹاف تعینات ہوئے۔ ایوب خان کی مدد سے سکندر مرزا اقتدار پر قابض ہوئے کیونکہ ان سے پہلے یعنی ملک کے تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد فالج کا شدید اٹیک ہونے کے باوجود مسند اقتدارسے الگ ہونے کیلئے تیار نہیں تھے۔ سکندر مرزا‘ ایوب خان کی مدد سے ملک کے چوتھے گورنر جنرل تو بن گئے لیکن جب ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا اور فیلڈ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر جلوہ گرہوئیتو انہوں نے سکندر مرزا کو جلاوطن کردیا۔ سکندر مرزا برطانیہ چلے گئے‘ ان کے حالات بھی زیادہ اچھے نہیں رہے‘وہ بیمار رہنے لگے اور بالآخر جب اپنے خالق حقیقی سے جا ملے‘ان کے ماضی کے دوست ایوب خان کو تب بھی ان پر رحم نہیں آیا۔سکندر مرزا کی دوسری اہلیہ ناہید بیگم کا تعلق ایران سے تھا،لہذا ان کو ایران کے شاہی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا بعد ازاں ایران میں جب آیت اللہ خمینی کا انقلاب آیا تومظاہرین نے ایران کے اس شاہی قبرستان کو مسمار کردیا۔آج میجر جنرل سکندر مرزا کی قبر کا نام و نشان موجود نہیں۔سکندر مرزا نے اسٹیبلشمنٹ کو سیاست کا راستہ دکھایا‘ وہ خود جمہوری روایات کی پاسداری نہ کرسکے اور ان کے ساتھ بھی غیر جمہوری سلوک ہوا۔ شاید تاریخ نے برسوں بعد نواب سراج الدولہ کا بدلہ بھی لے لیاتھا۔ ایوب خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ روز اول سے سیاست میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے‘ ملک کے دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے انتہائی قابل اعتماد ساتھی تھے‘ان کے گورنر جنرل کے دور میں بہت محلاتی سازشیں ہوئیں۔ملک غلام محمد جو خواجہ ناظم الدین کے بعد پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل بنے‘ وہ‘ میجر جنرل سکندر مرزا اور ایوب خان تینوں کردار ان سازشوں کے محرک رہے۔ اقتدار کی ہوس نے تینوں سے اپنا باری باری انتقام لیا‘ ملک غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو ان کی کرسی سے ہٹایا تو وہ آنکھوں میں آنسو لئے خاموشی سے چل دئیے، عرصہ دراز منظر سے غائب رہے‘ پھر محترمہ فاطمہ جناحؒ کی تحریک بحالی جمہوریت میں منظر عام پر نمودار ہوئے۔ ملک غلام محمد اقتدار سے رسوا ہو کر اس لئے علیحدہ ہونے پر مجبور ہوئے کہ ان کاساتھ ایوب خان اور سکندر مرزا نے چھوڑ دیا تھا۔ ایوب خان 11سال اقتدار پر براجمان رہے۔اقتدار سے علیحدگی کے بعد پیپلز پارٹی کے بانی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی وفات کی خبر کی بھی زیادہ تشہیر نہیں ہونے دی۔ملک میں اس کے قیام سے اب تک لولی لنگڑی جمہوریت کا دور دورہ ہے‘ہر آنے والا وزیر اعظم جاتے ہوئے ایسے ایسے الزامات اور سوالات اٹھا کر جاتا ہے کہ ہمیں لولی لنگڑی جمہوریت کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تجویز پیش کی ہے کہ نئی حکومت آنے تک آرمی چیف کی نئی تعیناتی موخر کردی جائے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ 80 سیٹوں والا مفرور کیسے آرمی چیف سلیکٹ کر سکتا ہے؟ اگر مخالفین الیکشن جیت جاتے ہیں تو پھر سپہ سالار کا انتخاب کرلیں‘ مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ ہو سکتا ہے۔ عمران خان کے ان خیالات پر طرح طرح کے تبصرے اور تجزیے کئے جارہے ہیں‘ عوامی حلقوں کی طرف سے بھی اپنی مرضی و منشاء کے مطابق آراء کا اظہار جاری ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کا موجودہ بیان کس پیرائے میں تجزیے کا متلاشی ہے؟عمران خان عدم اعتماد کی تحریک سے پہلے ہی اسلام آباد میں ایک جلسہ عام کے دوران اپنے سازشی بیانیے کے خط کو عوام کے روبرو لہراچکے تھے‘ گویا ان کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی عوام کی ایک بڑی تعداد ان کی ہمنوا بن گئی جب کہ دوسری طرف تحریک انصاف اور عمران خان کیخلاف حکومتی کاروائیاں سب کے سامنے ہیں۔اس وقت بھی عمران خان پر متعدد مقدمات درج ہیں‘ مگر عمران خان تا وقت وطن عزیز کے سب سے مقبول لیڈر کے طور پر میدان میں موجود ہیں۔اس صورتحال میں پی ڈی ایم حکمران اور بالخصوص ن لیگ‘پیپلز پارٹی اور جمیعت علماء اسلام ف کسی طور پر عام انتخابات کا رسک لینے کیلئے تیار نہیں۔عمران خان کو سیاسی میدان سے باہر کرنے کی مختلف آپشنز کو استعمال کرنے کیلئے ہر روز پلائنگ کی جارہی ہے۔ عمران خان ان کے قابو نہیں آرہے۔گزشتہ روز فواد چوہدری نے بیان دیا کہ عمران خان کی زندگی کو خطرہ ہے‘ اگر ہم اپنی 75سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس شبہ کو خارج از امکان نہیں کیا جاسکتا۔خود عمران خان کئی مواقعوں پر اس امر کا اظہار کر چکے ہیں کہ ان کی زندگی کو خطرہ ہے‘انہیں منظر سے ہٹانے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ نا اہل حکمران انہیں ٹیکنیکل ناک آؤٹ کرنا چاہتے ہیں‘عمران خان نے شاید اپنی سابقہ حکومت اور پاکستان کی تاریخ سے بہت کچھ سیکھا ہے۔انہوں نے تجویز دی کہ نئی حکومت آنے تک آرمی چیف کی نئی تعیناتی موخر کردی جائے‘ان کے اس بیان سے ایک تو ثابت ہوگیا کہ وہ اداروں‘ اسٹیبلشمنٹ کیخلاف نہیں‘ان کو اداروں سے لڑانے کی پی ڈی ایم جماعتوں کی سازش بھی ناکام ہوتی نظر آرہی ہے‘ جس کے بعد ن لیگ‘پیپلز پارٹی‘ جمعیت علماء اسلام ف کو شدید بے چینی لاحق ہے‘تاہم وطن عزیز اس وقت جس سیاسی دوراہے پر کھڑا ہے‘دیکھنا ہوگا کہ سکندر مرزا‘ایوب خان اور ملک غلام محمد کی تاریخ‘ اقتدار کی ہوس اور انجام سے کس نے کیا سیکھا ہے؟ عمران خان اور پی ڈی ایم اتحاد‘دونوں کا اصل امتحان یہی ہے!! مگر عمران خان کیخلاف مذہب کارڈ کے استعمال سے اخذ ہوا: پی ڈی ایم نے کچھ نہیں سیکھا۔