سلطان عبدالعزیز ال سعود کو جب رب العزت نے اس مقدس سرزمین کی حفاظت اور تعمیر و ترقی کی ذمہ داری سونپی تو انہوں نے خود کو اور بعد ازاں اپنے بیٹوں کو حجازِ مقدس کے خادمین قرار دیا اوریوں سعودی عرب کے سبھی بادشاہ خادم الحرمین الشریفین کہلائے۔ موجودہ خادم الحرمین الشریفین بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز ال سعود شاہ عبدالعزیز کے پچیسویں بیٹے ہیں جنہوں نے اپنے بھائی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز ال سعود کی وفات کے بعد 23جنوری 2015ء کو تخت سنبھالا۔ تخت سنبھالتے ہی اْنہوں نے روایتی طرزِ حکمرانی کو چھوڑتے ہوئے جدید تقاضوں کے مطابق سعودی عرب کو نئے انداز سے ڈھالنے کا آغاز کیا۔ ساتھ ہی شہزادہ محمد بن سلمان نے ولی عہد نامزد ہوتے ہی سعودی عرب کوجدید خطورپر استوار کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا۔ اْنہوں نے کئی ایسے جدید منصوبہ جات شروع کئے ۔ ولی عہد نے جدید سعودی عرب کے لئے کئی ایسے اقدامات کئے جن کی بدولت اْنہیں خود اپنے شاہی خاندان سے مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر اْنہوں نے ہم خیال دوستوں، عزیز و اقارب کی معاونت سے ایسے کئی انقلابی اقدامات کئے جن کی بدولت آج سعودی عرب کا جدید مثبت چہرہ دنیا کے سامنے آرہا ہے۔ ولی عہد نے ویژن 2030ء کے تحت کئی ترقیاتی منصوبے جاری کررکھے ہیں جو آہستہ آہستہ پایہ تکمیل کو پہنچ رہے ہیں اور سعودی عرب کی سماجی، معاشرتی اور معاشی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے دیگر منصوبہ جات کے ساتھ ساتھ ایک ایسا منصوبہ شروع کیا ہے جو آئندہ چند سال میں دنیا بھر میں ہمہ گیر شہرت حاصل کرلے گا۔ اگرچہ شروع ہوتے ہی اس منصوبہ نے عالمی میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی ہے مگر کہا جا رہا ہے کہ پایہ تکمیل تک پہنچتے ہی یہ دنیا کا ایسا کامیاب منصوبہ ہوگا جس کی پیروی ترقی یافتہ ممالک کرنے پر مجبور ہوجائیں گے اور فطرت دوست شہر قائم کرنے اور اْنہیں آباد کرنے پر آمادہ ہونگے۔ یہ تبوک صوبہ کے شمال مغربی علاقہ میں قائم کئے جانے والے نئے شہر ’نیوم‘ کا منصوبہ ہے۔ نیوم کے شمال میں بحیرہ احمر (سرخ سمندر)، اقابہ خلیج کے پار مشرق کی جناب مصر اور جنوب کی جانب اْردن واقع ہیں۔ دراصل یہ نیا شہر بحریہ احمر کی 170کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی پر بنایا جارہا ہے۔ اس شہر کی تعمیر پر کل لاگت کا تخمینہ پانچ سو ارب ڈالرز لگایا گیا ہے۔ اس شہر کی تعمیر میں دنیا کی بہترین کمپنیاں کام کررہی ہیں۔ امریکہ کی ائیر پروڈکٹس اینڈ کیمیکلز سعودی عرب میں دنیا کے سب سے بڑے گرین ہائیڈروجن پلانٹ پر کام کررہی ہے جبکہ بھارت کی لارسین اینڈ ٹیوبْرو کمپنی وِنڈ پاور اور پاور ٹرانسمشن نیٹ ورک پر کام کررہی ہے۔سطح ِسمندر سے پانچ سو میٹر اونچے اِس ’نیوم‘ شہر کا نام رکھنے کے لئے بورڈ نے ابتدائی طور پر دو ہزار ناموں پر غور کیا۔ شارٹ لسٹنگ کرنے کے بعد ایک سو پچاس ناموں پر حتمی غور و حوض کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بورڈ ممبران نے پہلے یونانی اورعربی کے دو الفاظ کو ملا کر NEO MSTACBELنام تجویز کیا۔ ’NEO‘ ٰیونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’نیا‘ کے ہیں جبکہ MSTACBELعربی زبان کا لفظ ’مسَتقبل‘ جو اْردو زبان میں ’مْستقبل‘ کے معنوں میں مستعمل ہے جبکہ بورڈ ممبران نے اس جامع لفظ کے ہر انفرادی لفظ یعنی میڈیا، سپورٹ، ٹیکنالوجی اور اِنرجی کو ساتھ ملا کر’نیا مستقبل‘ تجویز کیا جو شہزادہ محمد بن سلمان کے ویژن کے مطابق تھا۔ بعد ازاں بورڈ ممبران نے سوچا کہ نئے شہر کا نام یا تو مکمل طور پر مغربی ہونا چاہئے یا پھر کلی طور پر مشرقی ہونا چاہئے۔ یوں کئی ناموں پر کئی دِنوں کی سوچ بچار کے بعد اس شہر کا نام ’نیوم‘ رکھا گیا ہے یعنی یونانی لفظ NEOکا مطلب ’نیا‘ اور انگریزی اور عربی زبان کے حرف ’M‘ کو لیا گیا ہے جو بہ یک وقت سعودی عرب کے تابناک مستقبل اور محمد بن سلمان کے نام میں شامل پہلے لفظ ’محمد‘ کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ بالکل امریکی شہر ’نیو یارک‘ کے جیسا نام ہے۔ یہ تمام مسلم ممالک میں سے سعودی عرب کا پہلا شہر ہوگا جس میں کاربن سے بنی روایتی سڑکیں، دھواں چھوڑتی گاڑیاں موجود نہیں ہونگی بلکہ ساری آمدورفت سو فی صد قابل ِ تجدید توانائی سے منسلگ ہوگی۔ اس شہر میں جدید ٹیکنالوجی سے لے کر دورِ حاضر کی وہ ساری سہولیات میسر ہونگی جو دنیا کے ترقی یافتہ اور صف ِ اول کے ممالک میں نظر آتی ہیں۔ گاڑیوں، سڑکوں اور حتی کہ صنعتوں کو بھی اس شہر میں کاربن کی بجائے فطرت دوست قابل ِ تجدید توانائی کے ذرائع سے چلایا جائے گا۔اِس مقصد کے لئے جنگی بنیادوں پر کام جاری ہے۔ ہوادار گھروں کوقدرت اور فطرت کے مناظر سے ایسے ہم آہنگ کیا جارہا ہے کہ شہریوں کو دو منٹ پیدل چلنے کی مسافت پر قدرتی ماحول جبکہ پانچ منٹ پیدل چلنے کی مسافت پر جدید دنیا کی ساری سہولیات میسر ہونگی۔ اس شہر کی بنیاد رکھنے سے قبل شہزادہ محمد بن سلمان نے دنیا بھر سے فن ِ تعمیر کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے بہترین ماہرین، انجینئرز،ماحولیاتی سائنسدان، ٹیکنالوجی کے شعبہ میں یکتا اور عالمی بلڈرز کو مدعو کیا اور نئے شہر کے قیام کی تجویز پیش کی۔ اس لئے یہ دنیا کا پہلا شہر ہوگا جو تقریباََ نوے لاکھ شہریوں کو دنیا کی بہترین سہولیات سمیت فطرتی ماحول،صاف پانی،پارک، سیر و تفریخ کا سامنا لئے کھلی اورآب و ہوا فراہم کررہا ہوگا۔بلاشبہ یہ ایک ایسا تعمیراتی منصوبہ ہے جس کے نتائج دور رس ہونگے جو یقینی طورپر سعوی حکومت کے جدید دور کے آغاز سے منزل مقصود کا تعین کرے گا۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے جہاں تعمیراتی پروجیکٹس پر کام کا آغاز کیا ہے وہیں سیر و تفریح، ثقافت، فلم اور ٹی وی، پارک، سیر و سیاحت سمیت کئی شعبوں پر توجہ دی ہے۔ اْمید کی جارہی ہے کہ چند سال میں دنیا کے سامنے جس سعودی عرب کا چہرہ ہوگا اْس کی بنیادیں جِدت، سماجی و معاشرتی تعمیر و ترقی کی سوچ پر رکھی ہونگی۔ پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک کو بھی سعودی عرب کے اِس کامیاب ماڈل سے استفادہ کرنا چاہئے تاکہ ہم نہ صرف خود کو تعمیری سوچ کے خمیر سے طاقتور بنا سکیں۔