لاہور سے دور ایک چھوٹے سے قصبے کے بیچوں بیچ میں گاڑی چلاتے ہوئے جا رہا تھا ۔میں یہاں کسی کام سے آیا تھا ۔ شہر میںٹریفک کا رش تھا ۔ اچانک میری نظر میرے آگے جاتے چنگ چی کی پچھلی سیٹ پر پڑی ۔ سیٹ پر تین لوگ بیٹھے ہوئے تھے مجھے درمیان میں بیٹھے صاحب کا چہرہ قدرے جانا پہچانا سا لگا ۔ یہ صاحب عمر رسیدہ تھے سفید داڑھی اور چہرے پہ بڑھاپے کے واضح آثار۔انہوں نے موٹے شیشوں والی عینک لگائی ہوئی تھی جس کے ایک طرف دھاگا باندھ کر اس کی ’’ ایلائنمنٹ ‘‘ درست کر رکھی تھی۔اگلے ہی لمحے مجھے خیال آیا یہ ہمارے سکول کے استاد ماسٹر شرف دین صاحب تھے جو بائیس چوبیس سال پہلے ساتویں جماعت میں ہمارے کلاس ٹیچر تھے ۔ میں نے فوری طور پہ تھوڑا آگے جا کر گاڑی ایک طرف روک دی اورچنگ چی والے کو ہاتھ کے اشارے سے رکنے کا کہا ۔ رکشا رکا تو میں نے بڑے ادب سے ماسٹر صاحب کو سلام کیا ۔ اپنا تعارف کروایا تو انہوں نے بالکل نہیں پہچانا پھر جب میں نے انہیں بتایا کہ میں ان کا وہ شاگرد ہوں جس نے ساتویں میں پاس ہونے پر انہیں موچی کی سلی ہوئی تِلّے والی جوتی تُحفے میں دی تھی تو وہ فوراً پہچان گئے اور کہنے لگے کہ وہ جوتی تو ابھی اگلے دن تک اُن کے استعمال میں رہی ۔ میں نے بڑے احترام سے عرض کیا کہ میں آپ کو گھر چھوڑ دیتا ہوں ۔ وہ مان گئے اور میں نے انہیں گاڑی میں بٹھایا اور ہم روانہ ہو گئے ۔ ہم ماسٹر جی کے گھر کی طرف جا رہے تھے ۔ میری نظر اُن کے چہرے پر پڑی تو میرے سامنے ایک منظر ابھرا۔ یہ ہماری ساتویں جماعت کا سین تھا ۔ کلاس حاضر ہے ۔ ماسٹر شرف دین جو ہمارے کلاس انچارج تھے اور جن کے پاس ہماری انگریزی ، اردو اور سائنس مضامین کے علاوہ ہماری زندگی کے کئی دیگر معاملات تھے ، وہ کلاس کے سامنے کُرسی پہ براجمان ہیں ۔جان نکلی جارہی ہے ۔ کلاس کے ایک طرف طلباء بھاری تعداد میں کان پکڑے مُرغا بنے کھڑے ہیں ۔دوسری طرف اصلی جان ان کی نکل رہی ہوتی تھی جو کلاس میں سزا سے بچے بیٹھے ہوتے تھے لیکن شدید ڈر رہے ہوتے کہ کسی وقت بھی ان کی باری آ سکتی تھی ۔ماسٹر صاحب کا تکیہ کلام تھا ، ’’ کن پھڑ لے او بے ایمانا ‘‘۔ وہ ہر روز یہ خوفناک جملہ کئی دفعہ بولتے ۔ہر تھوڑی دیر بعد کلاس کے کسی کونے سے اُن کی وہی آواز آتی ’’ کن پھڑ لے اوبے ایمانا ‘‘ اور اس کے بعد مذکورہ طالب علم فوراً اس جانکاہ حکم پر عمل کرتا ۔ ماسٹر جی کے ہاں سزا دینے کے اپنے ہی معیار تھے ۔ یہاں کئی اچھے خاصے سمجھدار اور محنتی طلباء کو محض اس لیے سزا ملتی کہ انہیں سزا ملے کچھ دن گزر گئے ہوتے ۔بچوں کی سسکاریاں آہوں میں بدل جاتیں اور یہی وقت ہوتا جب ماسٹر شرف دین ’ جگنی ‘ گایا کرتے۔ سکول کے چھ گھنٹے کے دورانیے میں کوئی ساڑھے چھ گھنٹے قبلہ ماسٹر صاحب پر یہی کیفیت ہی رہتی۔ اس خاکسار نے خود کئی دفعہ سبق یاد ہونے کے باوجود محض اس اذیّت سے بچنے کے لیے خود ہی مُرغا بننے کو ترجیح دی۔ ماسٹر صاحب نے ہماری زندگیوں پہ انمٹ نقوش ثبت کیے ۔دو چیزیں خاص طور پہ ماسٹر صاحب نے ہمیں عنایت کیں ! ایک خوف اور دوسری اپنی ذات پہ شدید عدم اعتماد۔وہ پورے وثوق سے کہا کرتے کہ نالائقو ! تم میٹرک نہیں کر سکتے اور ہمارے پچانویں فیصد کلاس فیلوز کے لیے یہ بات درست ثابت ہوئی ۔ایف، بی اے کو تو وہ ہمالیہ سر کرنا سمجھتے تھے ۔ہمارے سامنے وہ کبھی بڑے سے بڑا Goal بھی رکھتے تو وہ یہ تھا کہ ہم سات آٹھ جماعتیں پڑھ کے کسی پٹواری کے منشی لگ جائیں ۔وہ دو چار لوگ جو اُن کے شاگرد ہونے کے باوجود بھی زندگی میں کسی قدر کامیاب ہوئے ہیں اُن سے اگر اس کی وجہ پوچھی جائے تو وہ بر ملا کہیں گے کہ اُن کی کامیابی کے پیچھے کسی کا بھی ہاتھ ہو سکتا ہے سوائے ماسٹر شرف دین کے۔ ماسٹر صاحب کے تقرب خاص کے حصول کا طریقہ بڑا سادہ ساتھا۔ وہ خالص آرگینک غذا دیسی مُرغی ، مکھن دیسی گھی وغیرہ پسند کرتے۔ہم اکثر طلباء دیہات سے تھے ۔ چنانچہ ہمارے ذمے یہ اشیاء لگتی رہتیں۔طابی کمہار ہمارا کلاس فیلو اور پرلے درجے کا شرارتی تھا وہ ہمارے گائوں سے تھا ۔ اُس نے اس مسئلے کا حل نکالا ۔ سردیوں میں دیہاتوں میں دیسی مُرغیاں بہت مرتی ہیں ۔ طابی نے ایک طریقہ پکڑا کہ وہ ہر دوسرے چوتھے روز ایک ایسی ہی مری ہوئی لیکن پلی پلائی دیسی مُرغی کہیں سے اٹھاتا، ا سے اچھے طریقے سے صاف شاف کرتا شاپر میں ڈالتا اور قبلہ ماسٹر صاحب کو پیش کردیتا ۔ اسی بنا پر تعلیمی لحاظ سے اپنی مثالی نالائقی کے باوجود وہ ہمیشہ ناصرف سزا سے بچا رہتابلکہ کلاس میں ہونے والے ٹیسٹ وغیرہ میں نمایاں پوزیشن حاصل کرتا ۔ ماسٹر جی کے گھر جاتے ہوئے راستے میں ایک جگہ سے میں نے ان کے لیے دیسی مُرغی اور کچھ پھل لیے۔گھر پہنچے تو دیکھا کہ یہ ایک چھوٹے سے کباڑ خانے کا منظر پیش کر رہا ہے ۔ نفاست نام کی چیز ، خیر سے ، نہ آپ کی طبیعت میں تھی نہ گھر میں۔ایک طرف ایک ٹوٹی پھوٹی پرانی سائیکل کا انجر پنجر گرا پڑا تھا ۔مجھے یاد آگیا یہ وہی سائیکل تھی جسے کئی دفعہ ہم اپنی قمیضیں اتار کر صاف کیا کرتے ۔انہوں نے کمال شفقت سے میرے لیے سامنے کھوکھے سے چائے منگوائی ۔ چائے پیتے ہوئے مجھے مسلسل ایک دھڑکا سا لگا ہوا تھا کہ ابھی ماسٹر جی کی گرجتی ہوئی آواز آئے گی ، ’’ کن پھڑ لے او بے ایمانا‘‘۔میں نے جلدی جلدی چائے ختم کی ، استاد محترم سے اجازت لی اور ذہن میں کئی یادیں لیے روانہ ہوگیا۔