جنرل ضیاء الحق کا دور انتہائی پرآشوب اور پرفتن تھا۔ پاکستان کے تقریباً تمام ہمسایہ ممالک جنگ و جدل اور معاشی تباہ حالی کا شکار تھے۔ ایران خمینی انقلاب کی راہ پر گامزن تھا۔ ایرانی انقلاب نے پاکستان کے اندر انقلابی ہلچل پیدا کر رکھی تھی۔ حتیٰ کہ پاکستان کا مرکزی سیکرٹریٹ تقریباً تین دن معطل رہا۔ ایران عراق جنگ شروع ہوگئی۔ سارا مشرق وسطیٰ مذکورہ جنگ کی لپیٹ میں آ گیا۔ عربوں کے ذرائع آمدنی کم اور جنگی اخراجات بڑھ گئے۔ اجناس مہنگی ہو گئیں اور کرنسی کی قدر کم ترین سطح پر آگئی۔ مہنگائی اور غربت بڑھ گئی۔ دریں تناظر امریکہ و اسرائیل‘ روس‘ برطانیہ اور بھارت نے مشرق وسطیٰ میں اپنے آہنی پنجے گاڑ لیے۔ امریکی دشمنی نے انقلابی ایران کو بھارت کے قریب اور پاکستان سے دور کر دیا۔ 27 دسمبر 1979ء کو روس نے افغانستان پر حملہ کیا اور پاک افغان سرحد پر آ بیٹھا۔ اس وقت کا روس‘ امریکہ و نیٹو ممالک سے کئی گنا زیادہ طاقتور تھا۔ روسی استعماری تاریخ میں شکست نام کا لفظ نہیں تھا جبکہ پاکستان سے سات سمندر پار امریکی استعماری تاریخ میں جیت اور کامیابی نام کی چیز نہیں پائی جاتی تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے عسکری و سیاسی تدبر سے روسی و بھارتی مذموم عزائم کو خاک میں ملایا۔ برزلنسکی امریکی صدر جمی کارٹر کے مشیر برائے قومی سلامتی تھے اور جنرل ضیاء الحق سے ذاتی دوستی کا دعویٰ بھی رکھتے ہیں۔ برزنسکی ریڈرز ڈائجسٹ دسمبر 1988ء (امریکی ایڈیشن) میں لکھتے ہیں کہ جس وقت میں پہلی بار صدر ضیاء الحق سے ملا تو اس وقت پاکستان انتہائی خطرات میں گھرا ہوا تھا۔ یہ ایسا وقت تھا جب روسی جارحیت نے پاکستان کی سلامتی کو بالخصوص شمال مغرب کی جانب سے کھلے خطرات میں مبتلا کر دیا تھا۔ شاہ ایران کے زوال نے ایران کی صورت حال کو خاصا غیر یقینی بنا دیا تھا۔ پاک بھارت تعلقات خاصے کشیدہ تھے جبکہ پاک امریکہ تعلقات بھی پچھلے چند برسوں سے روبہ زوال تھے۔ یہ وہ حالات تھے جب پاکستان عالمی سیاست میں یکسو تنہا رہ گیا تھا‘ ماسوائے چین کے ،جس کے ساتھ پاکستان کے روابط بہتر تھے۔ جہاں تک معاملہ روسی یلغار کے خلاف افغان جنگ کا ہے تو یہ اصولی‘ اخلاقی‘ سفارتی اور مزاحمتی پالیتی کی بنیاد رکھنے اور سرپرستی کا فیصلہ جنرل ضیاء الحق کا تھا۔ امریکہ و اقوام متحدہ کا نہیں تھا۔ پاکستان کے معروف کالم نگار اور سینیٹر طارق چہدری نے صدر ضیاء الحق سے اپنی ملاقات 29 دسمبر 1979ء کی تفصیلات اپنے کالم میں لکھا ہے کہ صدر ضیاء الحق نے کہا کہ ہم نے آج یہ فیصلہ کیا ہے کہ امریکہ کا مشورہ کچھ بھی ہو ہم روس کو افغانستان میں پران قیام کا موقع نہیں دیں گے۔ ہمارے لیے آسان ہے کہ آج افغانستان کے پہاڑوں میں ایک لاکھ روسیوں کا سامنا کریں بجائے اس کے کہ دس برس بعد ایک ملین روسی فوجیوں کے خلاف پنجاب کے میدان یا بلوچستاان میں لڑنا پڑے۔ آپ کوئی فکر نہ کریں۔ جب تک ہم زندہ ہیں یہی کریں گے۔ جب ہم نہیں ہوں گے تو ہماری ذمہ داری ختم۔ صدر ضیاء الحق نے مزید کہا کہ افغان قوم نے برصغیر کے مسلمانوں کا مرہٹوں‘ ہندو انتہا پسندوں اور سکھوں کے مقابلے میں ہمیشہ ساتھ دیا ہے۔ یہ احسان چکانے کا موقع ہے۔ ایک طرف یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی سلامتی اور دفاع کا فرض۔ ہم دونوں ذمہ داریاں پوری کریں گے۔ امریکی مورخ اور محقق بروس رڈل لکھتے ہیں کہ سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ سی آئی اے کی جنگ نہیں بلکہ ضیاء الحق کی جنگ تھی جس کے لیے آئی ایس آئی نے مجاہدین کو جنگی حکمت عملی اور قیادت فراہم کی۔ یہ چارلی ولسن کی جنگ نہیں تھی۔ یہ صرف اور صرف ضیاء الحق کی جنگ تھی۔ سی آئی اے کبھی افغانستان گئی اور نہ مجاہدین کی تربیت کی۔ جتنی بھی قربانیاں دیں اور اصولی خطرات مول لیے‘ وہ سب افغانستان اور پاکستان کے لوگوں نے مول لی ہے۔ چارلی ولسن تحریر کرتے ہیں کہ جنرل ’’ضیاء الحق اب تک دنیا میں پیدا ہونے والے انسانوں میں بہادر ترین انسان تھے۔‘‘ چارلی ولسن مزید لکھتے ہیں کہ روس نے جنرل ضیاء الحق پر شدید دبائو ڈالا‘ ڈرایا‘ دھمکایا اور للچایا کہ افغان مجاہدین کا ساتھ چھوڑ دیں مگر وہ نہ مانے۔ بہاولپور فضائی سازش 17 اگست 1988ء کے بعد امریکہ نے جنرل ضیاء الحق اور افغان مجاہدین کے ضمن میں خلاف حقیقت سٹریٹجک پالیسی اپنائی جو جھوٹ کا ملغویہ ہے اور جس نے صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح بنا دیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے حملہ آور روس کے خلاف افغان گوریلا جہاد اور جنگ کا آغاز کیا۔ مزاحمتی مجاہدین کو منظم کیا۔ آپس میں الجھنے سے بچایا۔ ضرورت کے مطابق اسلحہ اور وسائل فراہم کئے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ضیاء الحق انتظامیہ روس کے خلاف ابتدائی ڈھائی تین سال تنہا مجاہدین کی مدد کی۔ صدر ریگن کے دور میں امریکہ کا اصولی اور اخلاقی تعاون ملا جو پاکستان شرائط پر تھا۔ نیز ضیاء الحق کی افغان پالیسی کے مطابق کوئی امریکی یا غیر ملکی وفد براہ راست افغان مجاہدین سے ملاقات نہیں کر سکتا تھا اور نہہی غیر ملکی امداد براہ راست دی جا سکتی تھی۔ میجر عامر نے ضیاء دور میں آئی ایس آئی کی جانب سے اسلام کی سکیورٹی کے انچارج تھے۔ انہوں نے ضیاء الحق کی پہلی برسی 1989ء کے ہفت تکبیر میں لکھا کہ ایک بار امریکی سفیر نے پشاور میں افغان مجاہدین سے خفیہ ملاقات کی منصوبہ بندی کی جب جنرل ضیاء الحق کے علم میں آئی تو امریکی سفر کو نوشہرہ سے واپس آنا پڑا۔ انہوں نے نظام مصطفی کی عوامی تحریک کے تناظر میں منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ دور حاضر میں آمریت کی نسبت جمہوریت بہترین نظام حکومت سمجھا جاتا ہے لہٰذا ضیاء الحق جمہوریت کے دشمن اور فوجی استبداد کا نمائندہ کہا جاتا ہے یہ الگ بات کہ مذکورہ منتخب وزیراعظم بھی اقتدار کے لیے جمہوری اصولوں پر شب خون مار کر آئے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دور میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک جاری رہی جبکہ روس نواز پاکستاان کمیونسٹوں کے حلقے بھی منظم اور موثر تھے جو ایشیا سرخ کا نعرہ لگاتے پھرتے تھے بھٹو کی پھانسی کے بعد حالات خراب سے خراب تر کر ہوگئے۔ اس تناظر میں پاکستان کے اندر روس‘ امریکہ‘ اسرائیل‘ بھارت‘ برطانیہ وغیرہ کو پاکستان میں مداخلت کا مضبوط رسوخ حاصل ہوا جو آج خطرناک روپ کی صورت میں جلو گر ہے۔ اس تمام کے باوجود اس حقیقت سے انحراف شکل ہے کہ صدر جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنایا۔