معزز قارئین!۔ یہ محض اِتفاق ہے یا بھارتی وزیراعظم نریندر مُودی اور مُوذی مچھر ڈینگی میں ’’اِتفاق رائے ‘‘کہ اُنہوں نے پاکستان کے خلاف باقاعدہ اور بے قاعدہ جنگ شروع کردِی ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ’’ خادمِ اعلیٰ میاں شہباز شریف کے دَور میں ڈینگی قوم صِرف پنجاب پر ہی 2010ء میں حملہ آور ہُوئی تھی۔ اِس کے باوجود وہ ، عوامی جلسوں میں خادمِ اعلیٰ کے مختلف راگ ، راگنیوں سے متاثر نہیں ہُوئے تھے ۔ آج مَیں سوچ رہا ہُوں کہ’’ ایک طرف مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف نریندر مُودی ، ایک بہت بڑے مُوذی کی حیثیت سے اپنا کردار ؔ ادا کر رہا ہے اور دوسری طرف پاکستان کے چاروں صوبوں میں مُوذی مچھر ڈینگی اپنا ’’ مُوذی اِزم‘‘ جاری رکھے ہُوئے ہے‘‘۔ مَیں نے اخباری سائز کے اپنے پنجابی جریدے ’’ چانن ‘‘ لاہور کے 10 فروری 2011ء کے شمارے میں ، اپنے کالم میں خادمِ اعلیٰ پنجاب کو مفت مشورہ دِیا تھا کہ ’’ اِس سلسلے میں ’’ماہرین ایک تحقیقاتی کمیٹی ‘‘ مقرر کی جائے جو، پتہ چلائے کہ ،حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دَور میں خُداؔئی کا دعویٰ کرنے والے بادشاہ نمرود ؔکی ناک میں گھس کر اُس کی موت کا باعث بننے والا مچھر ؔ ۔ ڈینگی تھا یا کسی اور نسل کا ؟‘‘۔ مَیں نے خادمِ اعلیٰ کی خدمت میں یہ بھی گذارش کی تھی کہ ’’ مجوزہ تحقیقاتی کمیٹی ‘‘ کی رپورٹ کی ایک مصدّقہ نقل ، صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری کی معلومات میں اضافہ کرنے کے لئے اُن کی خدمت میں بھی ارسال کی جائے‘‘ لیکن، میرے اِس مفت مشورے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دِی گئی تو، پھر مَیں کیا کرتا ؟۔ اِس کے باوجود مَیں اپنے کالموں میں ڈینگی کے خاتمے کے لئے تجاویز پیش کرتا رہا۔ ایک دِن ایک ڈینگی سردار ؔنے مجھے خواب میں بتایا کہ ’’ جب بھی پنجاب کے سرکاری، نیم سرکاری یا غیر سرکاری اداروں کی طرف سے ، ڈینگی قوم کو ختم کرنے کے لئے دوائوں کا سپرے کِیا گیا تو کوئی بھی ڈینگی نہیں مرا ۔ اِس لئے کہ ’’ڈینگی کُش دوائیں ‘‘ تو جعلی ہوتی ہیں‘‘۔ مجھے ڈینگی سردار نے یہ بھی بتایا تھا کہ’’ خُود کُش حملہ آوروں کی طرح کوئی بھی ڈینگی اپنے شکار کی جان لینے سے پہلے ، اُس سے اُس کا مذہب، فرقہ یا ذات نہیں پوچھتا ، بس مار دیتا ہے !۔ جس طرح پنجابی میں کہتے ہیں ۔’’ عشق نہ پُچھے ذات صِفات‘‘۔ اِسی طرح ڈینگی قوم کا کوئی بھی فرد ، اپنے شکار سے اُس کی ذات ، صِفات نہیں پوچھتا ‘‘۔ اِس پر مَیں نے کہا کہ ’’ اے ڈینگی سردار!۔ کیا کوئی ’’ مُک مُکا ‘‘ نہیں ہوسکتا؟ ‘‘ تو اُس نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہا کہ ’’دشمن سے ’’مُک مُکا‘‘ تو، اِنسان ایک دوسرے سے کرتے ہیں ، خاص طور پر سیاستدان۔ بھلا ہم ڈینگی کیوں اِنسانوں سے ’’ مُک مُکا‘‘ کریں؟‘‘۔ معزز قارئین!۔ پھر مجھے ایک اور خواب آیا ۔ مجھے اندازہ ہُوا کہ ’’شاید ڈینگی کے خلاف خادمِ اعلیٰ کی مقرر کردہ "Anti Dengue Task Force" اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو جائے ‘‘۔ مجھے خواب میں بتایا گیا کہ ’’ انسداد ڈینگی مہم‘‘ میں اب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی شانہ بشانہ ہیں ۔ پھر مَیں نے (تصّور میں ) ایک بہادری سی لڑکی کو ، مردانہ وار گھر سے نکلتے اور مشہور پنجابی لوک گیت کی دُھن پر یہ شعر گُنگناتے ہُوئے دیکھا اور سُنا ۔ وہ کہہ رہی تھی کہ… کِیہ ہویا ، جَے مَیں ،کلّی آں! مَیں تاں ، ڈینگی مارن ،چلّی آں! …O… 13 اگست 2013ء کو خادمِ اعلیٰ پنجاب نے ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہُوئے ’’ انسداد ڈینگی راگ ‘‘ کا الاپ کرتے ہُوئے اعلان کِیا تھا کہ ’’ 17 اگست کو پنجاب بھر میں ’’ یوم ڈینگی‘‘ (Dengue Day) منایا جائے گا ‘‘۔ پھر شایداُن کے کسی ’’ خادمِ ادنیٰ ‘‘ نے اُنہیں بتایا ہوگا کہ’’ حضور والا! ۔ 17 اگست 1988ء کو تو، شریف خاندان کے محسن اعلیٰ ، صدر جنرل ضیاء اُلحق ہوائی حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے ۔ لوگ کیا کہیں گے ؟ ‘‘۔ چنانچہ 15 اگست کو خادمِ اعلیٰ کی طرف سے اعلان کِیا گیا کہ ’’ اب ’’ یوم ڈینگی ‘‘ 18 اگست کو منایا جائے گا ‘‘ لیکن، یہ تو ڈینگی قوم کی اپنی مرضی ہے کہ وہ نوع انسانی پر کِس دِن حملہ کرتی ہے؟ ۔معزز قارئین !۔ ’’بھٹو اِزم‘‘ کے نام سے قائم ہر حکومت کے سربراہ سے ، غریبوں کی نمائندگی کرتے ہُوئے ’’شاعرسیاست‘‘ نے بار بار کہا کہ … روٹی، کپڑا ،بھی دے، مکان بھی دے! اور مجھے ، جان کی امان بھی دے ! علاّمہ اقبالؒ کی نظم کا ایک مصرع ہے … مارتا ہے تِیر ،صیاد اَجل ! لیکن، ڈینگی قوم کا ہر فرد صیادِ اَجل ؔکی کا رُوپ دھار کر رات کی تاریکی کا انتظار نہیں کرتا۔ دوپہر اور شام نہیں دیکھتا وہ کوئی "Classical Singers"تو نہیں کہ ، مقررہ وقت کے مطابق کوئی راگ الاپے؟ یا راگنی چھیڑ دے؟۔ ’’ ڈینگیا راگ ‘‘ تو ابھی ایجاد ہی نہیں ہُوا۔ وہ کیا گائے گا؟۔ ہمارے کئی شاعر ، ادیب اور دانشور لکھتے اور کہتے ہیں کہ’’ شمال سے آنے والے حملہ آوروں نے پہلے پنجاب پر قبضہ کِیا اور پھر ہندوستان کے دوسرے صوبوں پر ‘‘۔ اب مَیں کیا کہوں ؟ پنجاب کے بعد تو، میرا پورا پاکستان ڈینگی قوم کے نرغے میں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اُن کا کوئی "Political Agenda" ہے یا نہیں؟۔ صِرف ایک ہی ایجنڈا ہے کہ ’’ کسی بھی مذہب کے پاکستانی کو ڈَنگ مار کر اُسے موت کی نیند سُلا دے ؟۔ ڈینگی قوم میں مکمل اتحاد ہے۔ اُس میں فرقہ بندی نہیں ہے ۔ سیاست میں تو وہ حصّہ ہی نہیں لیتے۔ آج تک کسی بھی ڈینگی نے کسی دوسرے ڈینگی کے خلاف کوئی بیان یا انٹرویو نہیں دِیا اور نہ ہی ڈینگیوں کے کسی گروہ نے کسی دوسرے گروہ کو لانگ مارچ یا دھرنے کی دھمکی دِی ہے؟۔ ڈینگی ، نوجوان ہو یا بوڑھا ، مرد ہو یا عورت ، کسی پنجابی فلم کے"Villain" کی طرح بڑھک نہیں مارتا بلکہ "Direct Action" کرتا ہے اور ہاں!۔ ہر ڈینگی کسی بھی خُود کُش حملہ آور سے زیادہ چالاک ہے ۔ خُود کُش حملہ آور تو ، دوسروں کی جان لیتے ہُوئے ، خود بھی مر جاتا ہے لیکن، ڈینگی صرف اپنے شکار کی جان لیتا ہے؟ ۔ اُن دِنوں مَیں اپنے بڑے بیٹے ذوالفقار علی چوہان اور اُس کے اہل و عیّال کے ساتھ نیو یارک میں چھٹیاں منا رہا تھا جب، 24 ستمبر 2014ء کو "The New York Times" میں ایک چھوٹی سی خبر شائع ہُوئی کہ "Brazil" کی حکومت نے مُوذی پرندے ( مچھر ) ڈینگی کے خاتمے کے لئے "Good Dengue" ( اچھا ڈینگی) دریافت یا ایجاد کِیا ہے ‘‘۔ پھر اِس موضوع پر 27 ستمبر 2014ء کو ’’محب وطن ڈینگی‘‘ کے عنوان سے ’’ نوائے وقت‘‘ میں میرا کالم بھی شائع ہُوا۔ مجھے نہیں معلوم؟ کہ خادمِ اعلیٰ پنجاب نے میرا کالم پڑھا یا نہیں اور اُنہوں نے پنجاب میں ڈینگے کے خاتمے کے لئے "Brazil" کی حکومت سے کوئی رابطہ کِیا یا نہیں؟۔ معزز قارئین!۔موجودہ صورتِ حال میں جب نریندر مُودی اور مُوذی ڈینگی نے پاکستانی قوم کے خلاف ایکا کر لِیا ہے تو، مناسب یہی ہے کہ ’’ ہم سب ،خاص طور پر ہمارے سیاستدان اپنے اختلافات ختم کر کے نہ صِرف کشمیریوں سے مکمل یکجہتی کا ثواب کماتے رہیں اور اُس کے ساتھ ہی ڈینگی قوم سے جنگ جیتنے کے لئے متحد ہوجائیں۔ میرے دوست شاعرِ سیاست نے اپنی تازہ ترین نظم میں اِسی طرح کی خواہشات کا اظہار کِیا ہے ۔ پانچ شعر ملاحظہ فرمائیں … میرے سوہنے دیس، پاکستان وِچّ ، ڈینگی نے چُکّی ، اے اَتّ! ایہ ڈنگ ، وساہ کے مار دا ، کرے حملہ ، تت بھڑّت ! جِتّھوں آوے، خُوشبو لہُو دِی، اوتھے جاندا ، تُرت پُھرَت! فیر ، اپنے سنگی ساتھِیاں ، لئی لاوے، سَدا برت! نہیں حملہ کردا ، خُود کُش، جِیوندا پِھر دا اے کُھرمَتّ! ایہدا واسطہ نہیں ، اَخلاق نال، ڈنگ ، مارنا ، ایہدی لَتّ ! نہیں مُڑدا بَھیڑے کمّ توں، جِنّی وِی کرئیے کپَتّ! ایہدے ڈنگ دا، کوئی توڑ،ناں،بھاویں لکھّ دوائیاں گھتّ! اِک دُوجے نُوں ، لِیڈر قوم دے ، پھّٹ لائوندے نیں، اوَ اگت! کوئی ٹونا ٹوٹکا لبِھیئے، ہووے ختم، سیاسی کُڑت! …O…