وزیر اعظم عمران خان اپنے وفد کے ہمراہ اقوام متحدہ جانے کے لئے پا بہ رکاب ہیں۔یقینا ایک ایسے وقت میں جب بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر میں درندگی اور بے رحمی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔اقوام متحدہ کا 21ستمبر سے شروع ہونے والا اجلاس جس میں ہمارے وزیر اعظم ،بھارتی وزیر اعظم کے بعد خطاب کریں گے۔۔ ۔ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔پہلی خوش آئند بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے قائد وزیر اعظم عمران خان کا یہ دورہ اس اعتبار سے منفرد اور قابلِ ستائش ہے کہ اس میں شرکت کرنے والوں کی تعداددرجن بھر سے زیادہ نہیںاوران پر دوران ِ سفر اور قیام کے اخراجات صرف ایک لاکھ 62ہزار ڈالر ہوں گے جو پاکستانی روپوںمیں محض دو کروڑ ہیں۔ سابقہ وزیر اعظم نواز شریف نے جو سال ِ گزشتہ سے پیوستہ اقوام متحدہ کا سفر کیا تھا، اُس میں کوئی ساڑھے چھ لاکھ ڈالر ،100رُکنی وفد پہ خرچ ہوئے تھے۔پاکستانی روپے میں خو د ہی حساب لگا لیں۔ ماضی میں ہمارے حکمرانوں کی ’’نیویارک یاترا‘‘ ، ’’پلیژر ٹرپ‘‘ ہوا کرتی تھی۔جس میں ہمارے وزرائے اعظم کے وزیروں ،مشیروں ،اُن کے بیٹے بیٹیوں ،دامادوں ،بہوؤں ،دوستوں اور اُن کی بیویوں ،بلکہ سالے سالیوں کی ایک پوری فوج ظفر ِ موج ہوتی تھی ۔کوئی تین ہفتے کے ٹرپ میں فور اسٹار ہوٹل میں قیام کے ساتھ چار سو ڈالر روزانہ مشاہرہ ملا کرتا تھا۔شہید بے نظیر بھٹو کا ذکر کرتے ہوئے ہمیشہ احتیاط کا دامن پکڑے رہتا ہوں۔مگر یادداشت میں ایک ایسی بات محفوظ رہ گئی جو اقوام متحدہ کے سالانہ اجلا س کے حوالے سے بے ساختہ یاد آگئی۔محترمہ کی ایک قریبی سہیلی کی نئی نویلی شادی ہوئی تھی۔اُن کے ہنی مون کا پروگرام بن رہا تھا۔بیچ میں اقوام متحدہ کا اجلاس آگیا۔بی بی کی سہیلی کے شوہر ایک اچھے کھاتے پیتے سندھی گھرانے کے نوجوان تھے۔مچل گئے کہ ایک تو اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کا اعزاز بھی حاصل ہوجائے گا۔اور ساتھ میں ہنی مون بھی۔دوستی کے معاملے میں بلکہ بیشتر معاملات میں بی بی بینظیر دل کی بڑی سخی تھیں۔یہ ان کی سخاوت اور دریا دلی ہی تھی نا کہ اُن کے شوہر ِ نامدار ،مردِ حُراقتدار کے دنوں میں یاروں کے یار اس لئے کہلائے جاتے تھے کہ دونوں ہاتھوں سے اپنے دوستوں پہ سخاوت نوازی کا ایسا مظاہرہ کرتے کہ بہر حال یہ یار ہی بُرے دنوں میں ان کا ساتھ نہ چھوڑتے۔یہ لیجئے،ذکر وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ٔ اقوام متحدہ کا تھا ،جس کے لئے ان دنوں وزارت خارجہ کے بابو واشنگٹن میں ہاٹ لائن پر سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کی سفارتی یلغار کا کس طرح مقابلہ کیا جائے۔کہ نیویارک پرواز سے پہلے ہی ،یہ بریکنگ نیوز آگئی کہ تمام سفارتی اور اخلاقی آداب کو بالائے طاق رکھ کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقوام ِمتحدہ کے اہم اجلاس کے موقع پر بھارتی نازی نریندر مودی کی اس ریلی میں شرکت کریں گے جس میں سارے امریکہ اور یورپ سے خاص طور پر بھارتی نژاز کشمیریوں کو نیویارک لایا جارہا ہے تاکہ اقوام عالم کو پیغام پہنچے کہ بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں گولیوں کی گھن گرج کے بجائے کشمیرکی وادی میں چین کی سُریلی بانسری گونج رہی ہے۔ابھی ہفتے بھر پہلے ہی ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے روسی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ تنازعہ کشمیر کا حل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھ میں ہے۔وزیر اعظم کا یہ بھی فرمانا تھا کہ اقوام متحدہ میں امریکی کردار ہمیشہ کلیدی او ر مرکزی ہوتا ہے۔کیا ہمارے وزیر اعظم عمران خان وزارت خارجہ کے بابوؤں،خاص طور پر واشنگٹن میں بیٹھے سو سے اوپر سفارتی بابوؤں سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ سال بھر سے کروڑوں ڈالر کی تنخواہوں اور اُس سے بھی زیادہ ،لابیسٹ کی ڈالروں سے جھولیاں بھرنے کے بعد اُن کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ ساری دنیا میں گجراتیوں اور کشمیریوں کے قاتل کی شہرت رکھنے والے کی ریلی میں امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی شرکت کے بعد خود وزیر اعظم کے پاس دس بارہ ایشیائی ،افریقی ملکوں کے سربراہان سے سائڈ لائن میٹنگ کے بعد بس ایک اُن کا خطاب ہی تو رہ جاتا ہے کہ گزشتہ پچاس برس سے ہمارا ہر صدر اور وزیر اعظم کرتا ہے۔جس کی مثال ’’جنگل میں مور ناچا ‘‘سے زیادہ نہیں ہوتی۔اگر بھارتی وزیر خارجہ کے بابواور واشنگٹن کے سفارت کا ر بنئے امریکی صدر کو مودی کی ریلی میں شرکت کیلئے مجبورکرسکتے ہیں تو کیا جواب میں ہم اپنے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے ولی عہد اور ہمالیہ سے بلند حوصلہ رکھنے والے چینی صدر کو کشمیر ریلی میں نہیں بلا سکتے؟ ابھی گزشتہ مہینے وزیر اعظم عمران خان کے دورے میں زُلفی بخاری اینڈ کمپنی نے نیویارک اسٹیڈیم میں ایک میلہ ٹھیلا لگایا تھا۔تو کیا خان صاحب کے دوست زلفی اور کچھ نہیں تو کشمیر ریلی کے لئے امریکی صدر کی صاحبزادی ایوانکا ٹرمپ کو اس ریلی میں بھی نہیں بلا سکتے جن کے ساتھ اُن کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایوانکا ٹرمپ کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے مودی کی ریلی سے زیادہ بڑا مجمع لگے گا۔وزار ت خارجہ کے بابوؤں اور واشنگٹن میں اپنی دوست سفارت کارڈاکٹر ملیحہ لودھی کی منڈلی سے بصد احترام عرض کروں گا کہ کبھی تنازعہ کشمیر کی کیس ہسٹری پر ہی نظر ڈال لیں ۔کہ دسمبر سن1947ء میں پاکستان کو آزاد ہوئے پانچ ماہ ہوئے تھے۔مگر مسئلہ کشمیر پر ایسی عظیم الشان سفارت کاری کا اس وقت ہمار ے اقوام ِ متحدہ کے مستقل نمائندے سر ظفر اللہ خان نے کیا تھا کہ بین الاقوامی شہرت یافتہ سیاستداں جواہر لال نہرو دونوں ہاتھ سے قلم پکڑ کر اُس قرار داد پر دستخط کرنے پر مجبور ہوگئے تھے جس میں واضح طور پر سنہری حرفوں سے قرار داد محفوظ کردی گئی تھی کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اس کا واحد حل رائے شماری یعنی ریفرنڈم ہے۔ پہلے بھی شیخ محمد عبداللہ کی کتاب ’’آتش ِ چنار‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے تفصیل سے لکھ چکاہوں اور اسے موجودہ حالات کے پیش نظر وزارت خارجہ کے بابوؤں کی یاددہانی کے لئے ایک بار پھر شیخ عبداللہ ہی کی زبان میں یہ پیش کردیتا ہوں کہ : ’’سردار پٹیل کا خیال تھا کہ اقوام متحدہ صرف محفل آرائی کا اسٹیج ہے۔اور وہاں کسی بات کا فیصلہ ہوتا ہی نہیں۔مگر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی رائے غالب آئی ۔معاملہ سلامتی کونسل میں پیش ہوا۔31دسمبر 1947ء کو حکومت ِ ہند نے عالمی ادارے کے نام لکھا :ــ’’ریاست جموں و کشمیر کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے آزاد ہونگے اور وہ فیصلہ جمہوریت کے مسلمہ طریقہ کار ،رائے شماری ،یا استصواب کے ذریعے عمل میں آئے گا۔جس کی غیر جانبداری کو یقینی بنانے کے یہ اقدام بین ا لاقوامی نگرانی میں کیا جائے گا۔‘‘‘‘ شیخ عبداللہ آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’اقوام متحدہ میں بھارت کے نمائندے سوامی آئنگر جو نیو یارک سے واپسی پر ہوائی جہاز میں میرے ساتھ بیٹھے تھے نے ایک کاغذ میرے حوالے کیا اور کہاکہ اسے پڑھ لو۔‘‘ آئنگر کی حقیقت پسندی کی داد دیجئے کہ دسمبر1947ء میں یعنی 72سال پہلے یہ تاریخی جملہ لکھتے ہیں کہ’’ کشمیر کو آزاد رکھنا ہی اس گتھی کا بہترین حل ہوسکتا ہے کیونکہ ریاست کی سرحدیں اتنی لمبی چوڑی ہیں اور کتنے ہی بڑے ملکوں سے ملتی ہیں۔۔۔اس لئے ان سرحدوں کی حفاظت دردِ سر اور بوجھ ہندوستا ن برداشت نہیں کرسکتا۔‘‘ مجھے علم ہے کہ ہمارے وزیر اعظم اقوام متحدہ میں کی جانے والی تقریب کے لئے بڑی تیاریاں کر رہے ہوںگے۔کیا وہ دسمبر1947ء کی قرار داد کو ایک بار پھر اپنی تقریر کے بعد اقوام ِ عالم کے سامنے پیش کرکے اُن کی رائے نہیں لے سکتے؟ کم از کم اتنا تو ہوگا کہ انصاف اور انسانی حقوق کے گُن گانے والے ممالک کے چہرے ہی بے نقاب ہوجائیں گے۔