ہٹلر نے کہا تھا کہ جھوٹ اگر تواتر کے ساتھ بولا جائے تو لوگ اس پر یقین کرنا شروع کر دیتے ہیں۔یہ جھوٹ بولنا کس طرح ہے یہ بھی ہٹلر نے ہی بتا دیا تھا ۔ سفید جھوٹ کا عوام کی شدید ترین ضروریات اور خواہشات سے تعلق جوڑنا چاہیے دوسرے اس کو عوامی جذبات کی عکاسی کا مظہر بنا کر مسلسل منظم انداز میں اس طرح دہرایا جائے کہ لوگوں کو جہنم بھی جنت نظر آنے لگے ۔ وہ جاں نثار اختر نے کہا ہے نا: ہم سے پوچھو غزل کیا ہے غزل کا فن کیا چند لفظوں میں کوئی آگ چھپا دی جائے ایڈورڈ برنیز ایسے جھوٹ کو خفیہ حکومتوں کا نظر نہ آنے والا انتظامی ہتھیار بتا کر ’’پراپیگنڈہ ‘‘کا نام دیتا ہے۔پراپیگنڈہ کا جادو کس طرح سرچڑھ کر بولتا ہے اس کا انحصار لوگوں کی ضروریات اور خواہشات سے اس کے تعلق پر ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 75فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر تھا لوگ اپنی ضروریات زمین سے پورا کرتے تھے کسی دوسرے کو ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دینا مشکل تھا اس لئے اس وقت پراپیگنڈہ کے لئے عام آدمی کی ضروریات کی بجائے جذبات کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جذبات میں سب سے طاقتور جذبہ ایمان کا ہوتا ہے۔ جوں جوں آبادی بڑھتی گئی لوگوں کے وسائل سکڑنے شروع ہوئے تو ضروریات نے احساس محرومی پیدا کیا۔ لوگ روزگار کے لئے شہروں میں آنے لگے شہروں کی آبادی لاکھوں سے کروڑوں میں پہنچ گئی۔ بڑھتی آبادی نے بے روزگاری اور غذائی طلب اتنی بڑھا دی کہ غریب خودکشی پر مجبور ہوگئے۔ان حالات میں لوگوں کو جذباتی ہتھیار سے اپنی مرضی کی سمت میں ہانکنا مشکل ہوا تو جذبات کا انتظامی ہتھیار بدلنے کی ضرورت پڑی ۔ حالات کے مطابق استحصال کا منظم پرچار شروع ہوا کیونکہ دنیا کے تمام معاشروں میں کم یا زیادہ استحصال ہوتا رہا ہے، اس لئے استحصال کی مختلف شکلوں میں پراپیگنڈہ کے رنگ بھرے گئے ۔کرپشن، قومی خزانہ لوٹنے کے الزامات لگنے لگے ۔الزامات کے ساتھ کاغذی شواہد کے ساتھ اس طرح پراپیگنڈہ کیا گیا کہ لوگوں کو ایمان کی حد تک یقین ہو گیا کہ ان کی محرومی اور ناکامیوں کی وجہ صرف حکمرانوں کی بدعنوانیاں ہی ہیں۔ رائے عامہ ہموار کرنے والے پراپیگنڈہ مشین کے کل پرزے بن گئے تو عوام کی توجہ مسائل کے حل کے لئے ہاتھ پائوں مارنے کے بجائے پراپیگنڈہ کے تماشے سے محظوظ ہونے پر ہی مزکور ہو کر رہ گئی۔ حکومت یہ تسلیم کرنے کو تیار تھی کہ عوام کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا اور سماجی مساوات قائم کرنا اس کی ذمہ داری ہے نہ ہی پاکستانی یہ تسلیم کرنے پر آمادہ تھے کہ ان کی محرومی کسی اور نے نہیں ان کی محنت اور توجہ نے دور ہونی ہے۔ عام ذہن تو پہلے ہی اپنی محرومی اور ناکامی کا ملبہ ڈالنے کے لئے جواز تلاش کر رہا تھا۔ جن میں سوچنے سمجھنے کی کچھ صلاحیت تھی ان کی یہ صلاحیت بھی کاغذی ثبوتوں اور عدالتی فیصلوں سے صلب کر لی گئی۔ پراپیگنڈا کرنے پر مامور بہت سے میڈیا پرسنز بھی اس کو ’’کلی سچ‘‘ سمجھ کر یقین کے ساتھ پرپیگنڈہ مشین کا حصہ بننا شروع ہو گئے ۔ اپنی بات کو لوگوں کے ذہنوں میں اتارنے کے لئے ناقابل تردید ثبوتوں اور قابل بھروسہ ذرائع کا حوالہ دینے لگے ہیں اس طرح پاکستان کے بحرانوں کا تمام تر ملبہ پالیسی سازوںکی نااہلی کے بجائے کرپٹ حکمرانوںپر ڈالاجانے لگا ۔ عوام میں کرپشن کے خلاف نفرت بڑھی اور کرپٹ عناصر کو سزا دینے کا مطالبہ شروع ہوا۔ پراپیگنڈا کا ہتھیار بننے والے عوام کے ہیرو بن گئے اور 2018ء کے انتخابات میں پاکستانیوں نے احتساب کے نام پر ووٹ دیا اور لوٹی ہوئی قومی دولت خزانے میں واپس آنے اور محرومیوں کے خاتمے کا انتظار کرنے لگے۔ انتظار بڑھنے سے عوامی صبر جواب دینے لگا تو پھر ایڈورڈ برنیز کی خفیہ ریاست کی ضرورت بدل گئی۔ نظر نہ آنے والے ہاتھوں نے احتساب کرنے والوں کا ہی احتساب کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کام کے لئے جن کو مجرم بنا کر قوم کے سامنے پیش کیا گیا تھا ان کو ہی منتخب کر لیا۔اس تبدیلی پر عوام ہکا بکا اور پراپیگنڈہ کا ہتھیار بننے والے مزاحمت پر اتر آئے اور یہ کہہ کر پراپیگنڈہ مشین کا حصہ بننے سے انکار کر دیا کہ جن لوگوں کو اقتدار میں لایا گیا ہے ان کے بارے میں لانے والے ہی ان کو ثبوتوں کے پلندے مہیا کرتے رہے ہیں عوام کے تیور بھی بدل گئے ضمنی انتخابات کے نتیجے اس امر پر گواہ ہیں کہ پاکستانی جہنم کو جنت ماننے کو فی الحال تیار نہیں ۔ پاکستانیوں کو آج اس قسم کی صورتحال کا سامنا ہے کہ لندن میں عدالت وزیر اعظم اور ان کے بیٹے اور داماد کو جواب جمع نہ کروانے پر مزید مہلت دینے سے انکار کرتی ہے اورجواب میں تاخیر کی صورت میں مقدمے کے اخراجات ادا کرنے کی بات کرتی ہے تو پاکستان میں عدالتی ریمارکس کو جرمانہ قرار دیا جاتا ہے۔ عمران خان اور ماضی میں کرپشن کے پرچار میں ہتھیار بننے والے دانشور لندن میں چوری پکڑے جانے کا واویلا شروع کر دیتے ہیں۔ حکومت اس پراپیگنڈہ کے توڑ کے عمران خان کے خلاف واحد مبینہ کرپشن، توشہ خانہ سے خریدی گھڑی کا پراپیگنڈہ شروع کر دیتی ہے۔ یہ پراپیگنڈہ کا ہی اثر ہے کہ کسی کو فرصت ہی نہیں کہ سچائی جاننے کی کوشش کرے۔ کسی دانشور نے یہ سوچنے اور سوال کرنے کی زحمت ہی نہ کی کہ توشہ خانہ سے گھڑی خریدنا جرم ہے تو اس جرم کے ماضی میں نواز شریف اور زرداری بھی مرتکب ہو چکے، جہنوں نے اربوں کی گاڑیاں اور تحائف بیس فیصد ادائیگی پر حاصل کئے جبکہ عمران خان نے پچاس فیصد رقم جمع کر توشہ خانہ کے تحائف خریدے۔ یہ سوال اس لئے نہیں اٹھائے جا رہے کیونکہ پرپیگنڈہ مشین کا مقصد سچ کی تلاش نہیں بلکہ عمران کو نواز شریف اور زرداری کی صف میں لا کھڑا کرنا تھا۔ یہ سب کچھ اس لئے کیا جا رہا ہے کہ عام آدمی کے پاس اصل مسائل اور ان کی حقیقی وجوہات جاننے کا وقت ہی نہ ہو ۔پراپیگنڈہ کا توڑ اور زیادہ اور طاقتور پراپیگنڈہ سے کیا جا رہا ہے۔ مگر بظاہر لگتا ہے کہ پاکستانی اب رات کو مزید دن کا اجالاماننے کے لئے تیار نہیں اور پاکستانیوں کیاکثریت بقول شاعر یہ دوہائی دے رہی ہے: آنکھیں جھوٹ نظارہ جھوٹ یعنی جو ہے سارا جھوٹ ہم کو آج کہو پھر اپنا بولو آج دوبارہ جھوٹ!