بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اختر خان مینگل نے گزشتہ روز تونسہ میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ڈی جی خان ، راجن پور ، کشمور اور جیکب آباد بلوچستان کا حصہ ہیں ۔ جب تک ان اضلاع کو بلوچستان میں شامل نہیں کیا جائے گا ، ان اضلاع کی پسماندگی و محرومی ختم نہیں ہوگی ۔ عین اسی دن جب اختر مینگل کا تونسہ میں جلسہ تھا تو ڈی جی خان میں پاکستان عوامی سرائیکی پارٹی کے سربراہ سردار اکبر خان ملکانی کی قیادت میں اختر مینگل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ ہو رہا تھا اور ان کا پتلا نذرِ آتش کیا جا رہا تھا ۔ اسی طرح ملتان میں سرائیکستان نوجوان تحریک کے چیئرمین مہر مظہر کات کی قیادت میں بھی اختر مینگل کے خلاف مظاہرہ ہوا ۔ پل ڈاٹ ڈی جی خان پر ہونے والے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے اکبر خان ملکانی نے کہا کہ جب بھی سرائیکی صوبے کی تحریک زور پکڑتی ہے تو تحریک کو سبوتاژ کرنے کیلئے کبھی محمد علی درانی ، کبھی طارق بشیر چیمہ اور کبھی اختر مینگل جیسے لوگ وسیب میں آ دھمکتے ہیں جو کہ وسیب میں بسنے والے افراد کے درمیان تفریق اور تنازعات کی باتیں کر کے اپنے آقاؤں کو خوش کرتے ہیں ۔ اکبر خان ملکانی کے علاوہ سرائیکی رہنما راشد عزیز بھٹہ و دیگر نے اپنے خطاب میں کہا کہ وسیب میں بسنے والے تمام لوگ اپنے صوبے اور حقوق کیلئے متحد ہیں اور ان کے درمیان کوئی تنازعہ یا تفریق نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب سے کائنات بنی ہے ، ہجرت کا عمل جاری ہے اور رہتی دنیا تک جاری رہے گا۔ فطری اور قدرتی جذب پذیری کے عمل کے ذریعے خطے میں بسنے والے لوگ اسی خطے کا حصہ بن جاتے ہیں ، زبان کا تعلق زمین سے ہوتا ہے جیسا کہ جی ایم سید نسلاً عربی ہے مگر وہ سندھیوں کا رہبر کہلایا ۔ اسی طرح ایران سے آنے والے بلوچ قبائل بھی جب وسیب میں آئے تو اسی وسیب کا حصہ بن گئے ۔ وسیب میں بھی صوبے کی لیڈر شپ آج ان افراد کے ہاتھوں میں ہے جو باہر سے آئے اور وسیب کا حصہ بن گئے ۔ اختر مینگل کے دعوے کی کوئی بنیاد نہیں ، وہ کہہ رہے ہیں کہ تاریخی طور پر مذکورہ اضلاع بلوچستان کا حصہ تھے ۔ حالانکہ بلوچستان کبھی صوبہ نہ تھا ، 1969ء میں ون یونٹ کے خاتمے کے بعد جنرل یحییٰ خان نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بلوچستان کو صوبے کا درجہ دیا ۔ اس پر بھی اعتراض ہوا کہ یہ صوبہ غیر جمہوری اور غیر آئینی ذریعے سے وجود میں لایا گیا اور اس کے لئے کوئی صوبہ کمیشن بھی نہ بنایا گیا ۔ موجودہ بلوچستان کی قدیم اور اصل زبان براہوی ہے ، خطے کے لوگوں کا خیال تھا کہ صوبے کانام دریائے بولان اور تاریخی درہ بولان کے حوالے سے بولان ہونا چاہئے تھا ۔ بلوچستان کی اصل ریاست قلات ہے جہاں کی زبان براہوی ہے ۔ 1880ء میں جرمنی کے ماہر لسانیات ڈاکٹر ارنسٹ ٹرمپ نے اپنی تحقیق میں لکھا کہ اس خطے کی اصل زبان براہوی ہے۔ انہوں نے تحفۃ العجائب کے مصنف داد قلاتی میر نصیر خان اول (1750-1793ء ) 1257 اشعار پر مشتمل براہوی نسخہ دنیا کے سامنے پیش کیا ۔ 1959ء میں براہوی ادبی بورڈ قائم ہوا اور براہوی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ مولانا محمد عمر دین پوری نے کیا ۔ بلوچستان کے اضلاع بارکھان ، نصیر آباد اور جھل مگسی ، دیرہ بگٹی، دیرہ مراد جمالی اور ایران کے بارڈر تک سرائیکی زبان بولی جاتی ہے ۔ اسی طرح بلوچستان کے کثیر علاقے کی زبان پشتو ہے جو کہ لورا لائی سے کوئٹہ تک چلی جاتی ہے۔ بلوچی جو کہ فارسی خاندان کی زبان ہے ، کے بولنے والوں کی تعداد بہت قلیل ہے ۔ تمام بلوچ مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بلوچ ایران سے آئے۔ تونسہ میں اختر خان مینگل کا یہ کہنا کہ ڈی جی خان ، راجن پور اس بناء پر محرومی کا شکار ہیں کہ یہ بلوچستان کا حصہ نہیں بن سکے ۔ سوال یہ ہے کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ اختر مینگل کے والد سردار عطا اللہ خان مینگل بھی رہے اور خود اختر مینگل بھی وزیراعلیٰ رہے تو بلوچستان کی کتنی ترقی ہوئی ؟ تونسہ کے عثمان بزدار پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں ، اب ان کو اس علاقے کی ترقی سے کس نے روک رکھا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی پنجاب ، سندھ اور بلوچستان ایک ہی طرح کے حالات کا شکار ہیں اور ان تینوں خطوں کی محرومی کے اصل ذمہ دار خطے کے سردار ، جاگیردار اور وڈیرے ہیں ۔ آج 21 ویں صدی میں بھی ان خطوں کے لوگ پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں اور ان کو بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں ۔ آج بھی ان علاقوں میں موجود غیر انسانی تمنداریوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے ، حالانکہ یہ مراعات ان سب کو انگریز سے غداریوں کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہیں ۔ وسیب کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ سرداری نظام ، جاگیرداری اور تمنداری کا خاتمہ کیا جائے ۔ پاکستان سرائیکی پارٹی کی سربراہ ڈاکٹر نخبہ لنگاہ نے اختر مینگل کے دعوے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اختر مینگل کے تونسہ میں جلسہ کو عثمان بزدار اور ان کے حواریوں نے سپانسر کیا ۔ یہ جلسہ پونم کے بنیادی چارٹر اور محروم خطوں کے عوام کی بنیادی جدوجہد کو سپوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔ ڈی جی خان راجن پور کی اصل حیثیت بارے ڈاکٹر احسان چنگوانی کی تاریخ ڈیرہ غازی خان اور تاریخ راجن پور کے حوالے سے دو الگ الگ کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر احسان چنگوانی نے لکھا ہے کہ ان علاقوں کے قدیم آثار اس بات کے گواہ ہیں کہ ان علاقوں کی قدیم زبان سرائیکی ہے جو ہزاروں سالوں سے اس علاقے میں بولی اور سمجھی جا رہی ہے اور یہ علاقے ہمیشہ ملتان کا حصہ رہے۔ تاریخ راجن پور کے صفحہ 54 پر وہ لکھتے ہیں کہ سکندر نے ایران کی تباہی کے بعد ہندوستان کا رخ کیا ، اس وقت پورے ہندوستان میں سینکڑوں چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں ، جبکہ دریائے سندھ کے مشرقی و مغربی کنارے تمام ریاستیں سرائیکیوں کی تھیں ، جن میں شہر و قلعہ جات، دل رائے ، ہڑند ، سیت پوراور بہت سی دیگر ریاستیں شامل تھیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ بکرما جی جس نے سب سے پہلے بکرمی کیلنڈر تیار کیا ، وہ بھی سرائیکی علاقے ڈی جی خان کے رہنے والے تھے ۔ ابوالفضل کی کتاب آئین اکبری کے مطابق اقلیم ملتان کی سرحدیں ایک طرف اجمیر ، دوسری طرف ٹھٹھہ ، تیسری طرف مکران اور چوتھی طرف کشمیر تک پھیلی ہوئی تھیں ۔ آج وسیب کے لوگ صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو ان کے پاس تاریخی ، ثقافتی ، جغرافیائی جواز موجود ہے کہ وسیب کے لوگوں کی اپنی دھرتی، اپنا خطہ اور اپنی تہذیب و ثقافت موجود ہے اور وہ آئین پاکستان کے اندر رہتے ہوئے صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ مطالبہ بلوچستان کے ان علیحدگی پسندوں کے مقابلے میں نہایت ہی اعلیٰ اور عمدہ ہے کہ اس سے وفاق پاکستان متوازن ہوگا اور پاکستان کو اس سے استحکام ملے گا۔