غالباً حالیؔ کا ہی شعر ہے۔ حملہ اپنے پہ بھی اک بعد ہزیمت ہے ضرور رہ گئی ہے یہی اک فتح وظفر کی صورت ہزیمت اور شکست، ذاتی زندگی میں ہو یا پھر قوموں کی اجتماعی زندگی میں ااس کی فتح وظفر میں بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی کمیوں، کوتاہیوں اور خامیوں کا دیانتدارانہ اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے۔ اپنی انائوں اور مفادات کے حصار سے نکل کر دیکھا جائے غلطی کہاں اور کیسے ہوئی؟ اپنے قبیلوں، گروپوں اور کمیونٹی کے خیموں سے باہر نکل کر حالات کا جائزہ لیا جائے۔ غلطی کو تسلیم کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے اور سچ کو ماننے کا ظرف۔ اگر یہ دونوں ہنر نہ ہوں تو پھر مسلسل ناکامی اور تباہی ہی مقدر ہے۔ اپنی ناکامیوں کو دوسروں کے سر الزامات تھوپنے والے ہی ہمیشہ ناکامی کے راستے پر رہتے ہیں اور پھر بھی انہیں سمجھ نہیں آتی کہ اپنی ناکامیوں کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ ہماری ذاتی زندگیاں ہوں یا پھر قوم کی اجتماعی زندگی، غلطیوں کا بوجھ خود اٹھانے کا ہنر ہمیں سیکھنا چاہیے۔ بہتری کا راستہ اسی جنگل سے ہو کر گزرتا ہے۔ ہماری حالت مگر یہ ہے کہ حکمرانوں سے لے کر عام آدمی تک، ہم الزامات اور دشنام کے پتھر دوسروں کے گھروں پر برساتے رہتے ہیں۔ 16مہینے ہونے کو آئے ہیں ہم ابھی تک تحریک انصاف کی حکومت سے یہی سن رہے ہیں کہ یہ ساری تباہی ان سے پہلے والے کر کے گئے۔ مہنگائی قابو میں نہیں آ رہی تو پہلے والے ذمہ دار، غربت بڑھتی چلی جا رہی ہے تو بھی ان کا قصور، پولیس کی شرمناک نا اہلی بھی ان کا قصور، ٹھیک ہے۔ جو اب تک حکمرانی کرتے رہے، جنہوں نے اس سسٹم کے اندر سیاسی مفادات کی نقب لگا کر اسے ناکارہ کیا وہ اپنی جگہ قصور وار ہیں لیکن صاحب اب تو آپ کی حکومت کو آئے ہوئے کافی دیر ہو گئی۔ آپ تو 100دن کے اندر پورے سسٹم کو بدل کر نیا پاکستان بنانے کے دعویدار تھے۔ اپنے کیے ہوئے کی لاج رکھیں۔ اب اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ خود اٹھائیں اور اپنی غلطیوں اور انتظامی نا اہلیوں کو پچھلی حکومتوں کے کھاتے میں ڈالنا چھوڑ دیں۔ اس حکومت کا المیہ یہ ہے کہ ابھی تک گزشتہ حکومت پر الزام تراشی کے فیزسے باہر نہیں نکلی اور حالات پر اس کے گرفت کمزور پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کا بدترین عملی مظاہرہ ہمیں 11دسمبر 2019ء کو نظر آیا۔ پنجاب پولیس نے وکیلوں کی ہنگامہ آرائی سے پیدا ہونے والی صورت حال کو شرمناک حد تک بھونڈے اندازسے ہینڈل کیا۔ پہلے چار پانچ سو وکیلوں کا جلوس ایوانِ عدل سے چل کر دل کے ہسپتال تک نعرے لگاتے، ٹک ٹاک پر دھمکی آمیز ویڈیوز بناتے، شہر کے عین بیچوں بیچ دندناتے ہوئے ڈنڈے لہراتے ہوئے آتا ہے اور پولیس کی ہائرز اتھارٹیز اس سے بے خبر رہتی ہیں کہ بپھرے ہوئے یہ جتھے جو ایک انتہائی حساس ہسپتال کی جانب مارچ کرتے ہیں۔ مگر کسی قسم کی حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے۔ اینٹی رائٹ فورس(anti riot force)اسے ہم انسداد ہنگامہ آرائی فورس کہہ سکتے ہیں۔ وہ وہاں پہلے تعینات کرنی چاہیے تھی جو کہ نہیں کی گئی۔ سپیشل برانچ سے یہ اطلاعات آ چکی تھیں کہ وکلاء ہسپتال میں ہنگامہ آرائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود ہسپتال کو حفاظتی حصار میں نہ لینا اور اور جتھوں کو وہاں پہنچنے سے نہ روکنا پولیس انتظامیہ کی فاش غلطی ہے اور پھر اس سے بڑی نا اہلی یہ ہوئی کہ ہنگامہ پھوٹ پڑنے پر پولیس نے مظاہرین کو تتر بتر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ اس میں استعمال ہونے والا کلوروبینزل ملینو نائٹرل عنصر ایک طرف آنکھوں سے پانی جاری کرتا ہے تو دوسری طرف سانس کی شدید جکڑن پیدا ہو جاتی ہے۔ آنسو گیس نے فضا میں شامل ہو کر ہسپتال میں موجود بیسیوں دل کے مریضوں کے سانس لینے میں شدید دشواری پیدا کی۔ آنسو گیس کے سائڈ ایفکٹ میں لکھا ہوا ہے کہ اس سے Heart arrhythmiaلاحق ہوتا ہے۔ اس میں دل کی دھڑکن یا تو بہت آہستہ ہو جاتی ہے یا بہت تیز۔ اندازہ لگائیے کہ اس روز آنسو گیس نے دل کے مریضوں پر کیا قیامت ڈھائی ہو گی۔ جس جگہ پر آنسو گیس استعمال کرنے کا حکم دیا گیا وہاں صرف پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال ہی نہیں۔ بلکہ اس کے دائیں طرف پہلو میں سروسز ہسپتال واقع ہے اور بائیں جانب آگے چلتے جائیں تو پرائیویٹ ہسپتالوں کی ایک قطار ہے۔ جہاں انتہائی حساس بیماریوں میں مبتلا مریض زیر علاج تھے اور مریضوں میں بزرگوں سے لے کر نومولود بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ سارا علاقہ ہی ہسپتالوں کا ہے۔ ایسے حساس علاقے میں آنسو گیس کے استعمال کا حکم دینے والا خود ایک مجرم ہے۔ مظاہرین کو تتر بتر کرنے کے لیے و اٹر کینن کا استعمال کرنا چاہیے تھا۔ تہذیب یافتہ ملکوں میں جہاں سسٹم انسان کی قدر کرتا ہے۔ وہاں تو ہسپتالوں کے ایریا میں گاڑیوں کے ہارن بجانے، پرہی پابندی ہوتی ہے۔ کجا کہ جتھے ہسپتال میں گھس کر قیامت ڈھا دیں اور امن و امان کی ذمہ دار انتظامیہ ہسپتال میں ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو بروقت روکنے میں ناکام ہوتی ہو۔ آج ہی کے اخبار میں ایک خبر ہے کہ ڈولفن پولیس کے ایک اہلکار کو ڈاکوئوں نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا اور اس کا ساتھی پولیس اہلکار بروقت ہاتھ میں موجود اسلحے کا استعمال نہ کر سکا۔ وجہ یہ ہے کہ اس نے گولیاں پستول سے نکال کر جیب میں ڈالی ہوئی تھیں۔ یہ واقعے سے زیادہ ایک لطیفہ لگتا ہے۔ ایسی پولیس کیا خاک عوام کے جان و مال کی حفاظت کرے گی جو خود ڈاکوئوں کے ہاتھوں دن دیہاڑے لٹ جائے۔ وہی بات کہ حالات کو سدھارنا ہے تو ترجیحات اور سمت درست کرنا ہو گی۔ غلطیوں کا بوجھ اپنے سر پرلے کر اپنی کوتاہی کو قبول کرنا ہو گا جب تک اپنی خامیوں کا دیانتدارانہ تجزیہ نہیں کریں گے ہم بہتری کے راستے پر نہیں چل سکتے۔ اگر ہم نے 11دسمبر والے سانحے سے بھی کچھ نہ سیکھا تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے!