کالم کے ساتھ رشتہ کب اور کیسے جڑا؟اب مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھتا ہوں تو دھندلے سے نقوش نظر آتے ہیں۔ یاد نہیں کہ چھٹی ساتویں یا پھرآٹھویں کلاس کے زمانے سے کالم پڑھنے کی چاٹ لگی۔عمرگیارہ بارہ سال ہی ہوگی کہ میں نے پورے چودہ سال کی عمر میں میٹرک کر لیا تھا۔مجھے یاد ہے کہ ستائیس جون کو میٹرک کا نتیجہ آیا اور تین دن بعد یکم جولائی کو میری چودھویں سالگرہ تھی۔میٹرک کے بعد اخباری کالموں میں دلچسپی بڑھ گئی ۔ ایک اخبار گھر میں آتا تھا،دو تین کالج لائبریری میں پڑھ لیتا۔ ارشاد احمد حقانی کے عروج کا زمانہ تھا۔ حقانی صاحب کا کالم مجھے بہت پسند تھا۔ لاشعوری طور پر ذہن میں ان کی طرح کالم نگار بننے کا خیال مستحکم ہوگیا۔ کتابیں پڑھنے کا ان دنوں جنون سوار تھا۔ کرائے کی لائبریریاں رفتہ رفتہ دم توڑ رہی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ ہماری وہ آخری نسل ہے جس نے کرائے پر ڈائجسٹ، رسالے، ناول لے کر پڑھے۔فائدہ یہ ہوا کہ پڑھنے کی سپیڈ بہت تیز ہوگئی۔ ایک رات میں کتاب پڑھ لینے کی عادت بن گئی۔ ان دنوں طلبہ مڈل، میٹرک اور ایف ایس سی کے بورڈ امتحانات کے بعد دو ڈھائی ماہ کی چھٹیوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ہم لوگ چھٹیوں ہی میں جی بھر کر ناول ، رسالے، کتابیں پڑھتے۔خیر انہی دنوں یہ سوچا کہ مستقبل میں اخبارنویس بننا ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ کالم نگار بننے کا سپنا دیکھا۔ تصور سے دیکھتا کہ ارشاد احمد حقانی کی طرح اخبار میں میرا کالم شائع ہو رہا ہے۔ کئی سال بیت گئے۔ سائنس کے ساتھ گرایجوائشن کر کے ایل ایل بی کر لی ۔ لاء کے دوران ہی اپنا پہلا اخباری کالم لکھا ،جو خوش قسمتی سے ملک کے ایک بڑے اخبار کے ادارتی صفحے پر شائع ہوگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میرا پہلا کالم ارشاد حقانی صاحب کے ساتھ ہی اس اخبار کے اپر ہاف پر شائع ہوا۔ایک دانا نے مشورہ دیا کہ مستقل لکھنا چاہتے ہو تو صحافت کو پیشہ بنائو ۔ قدرت نے راستہ نکالا اور لاہور کے ایک جریدے سے وابستہ ہوگیا۔ لاہورصحافت کی غرض سے آیا اور اب اس شہردلداراں نے اپنے سحر میں گرفتار کر لیا۔ پچیس برسوں سے لاہور میں مقیم ہوں۔ ارادہ یہی ہے کہ سفر زندگی کا اختتام بھی ادھر ہو، آگے جو رب کو منظور۔ ماہانہ جریدے میں تین چار سال کام کیاپھر جس اخبار میں پہلا کالم چھپا، وہاں نیوز روم میں بطور سب ایڈیٹر ملازمت مل گئی۔ ڈھائی تین برسوں بعد ایک بڑا گروپ جو کراچی سے اپنا اخبار نکال رہے تھے، انہوں نے پنجاب اور صوبہ سرحد(کے پی)سے اپنی لانچنگ کی تو میں اس کا حصہ بن گیا۔ میگزین انچارج کے طور پر ذمہ داری مل گئی۔ سال ڈیڑھ بعد ایک دن ایڈیٹر نے بلا کر کہا کہ کالم لکھنا شروع کرو۔ دل کی کلی کِھل اٹھی ۔ یار دیرینہ غلام محی الدین نے مشورہ دیا کہ’’ زنگار‘‘ رکھا جائے ۔ یہ نام غالب کے ایک شعر سے لیا گیا ۔ زنگار وہ مادہ ہے جو شیشے کے پیچھے لگایا جائے تو وہ آئینہ بن جاتا ہے۔ یوں زنگار ہی ہمیں ’’آئینہ‘‘دکھانے کا باعث بنتا ہے۔ غالب نے کہا تھا؛ لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی چمن زنگار ہے آئینہ باد بہار ی کا مجھے شعر یاد نہیںرہتے، یہ شعر اس لئے یاد کیا کہ اکثر زنگار کے معنی بتانے پڑتے ہیں اور پھر سند کے طور پر استاد الشعرا کا یہ شعر سنانا پڑتا ہے۔ ابتدا میں جو کالم لکھے، ان میں ارشاد حقانی صاحب کی پیروی تھی۔ ان کی طرح ہم کا صیغہ استعمال کیا جاتا۔ جلد سمجھ گیا کہ اپنی طبع کے مطابق ہی لکھنا چاہیے۔ تربیت اردو ڈائجسٹ میں ہوئی تھی، جہاں ہر موضوع پر لکھتے ہوئے ابتدا میںکہانی کا رنگ جمانا پڑتا۔ واقعاتی انداز میں آغاز کیا جاتا۔ میگزین کی تربیت کو کالموں میں استعمال کیاتو اچھا ریسپانس ملا۔ پھر مسئلہ آیا کہ ایک معروف کالم نگار یہی اسلوب برتا کرتے۔ کہانی کے انداز میں لکھے ان کے کالم مقبول تھے۔ لگا کہ اس اسلوب میں لکھتا رہا تو نقل کا تاثر ملے گا۔ انداز کو بدلا اور موضوعات میں تنوع پیدا کیا۔ جن موضوعات پر ان دنوں کم لکھا جا رہا تھا، ان کی طرف متوجہ ہوا۔ایک نکتہ ہمیشہ ذہن میں رہا کہ بطور قاری سوچا جائے۔ اردو اخبارات کے قاری کے طور پر مجھے محسوس ہوتا تھا کہ زیادہ تر کالم سیاست کے اردگرد گھومتے ہیں، چند ایک فکاہیہ یا گپ شپ کالم تھے ۔ نائن الیون کے بعد کی دنیا میں عسکریت پسندی کی لہر آ چکی تھی۔ افغانستان میں افغان طالبان، القاعدہ وغیرہ کی مسلح جدوجہد جبکہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کی شورش شروع تھی۔ اردو اخبارات میں اس پر بہت کم لکھا جا رہا تھا۔ میں نے اس پر لکھنا شروع کیا۔ مشکل کام تھا، پشتو جانتا تھا نہ قبائلی علاقوں اور افغانستان کا کبھی سفر کیا ۔ طے کیا کہ اس موضوع پر چھپنے والا ہر لفظ پڑھا جائے۔ بے پناہ محنت کی، گھنٹوں دنیا بھر کے اخبارات کھنگالا کرتا۔، انٹرنیٹ کا زمانہ آ گیا تھا، متبادل نقطہ نظر جاننے کے لئے جہادی ویب سائٹس دیکھا کرتا۔ اردو قاری کی تفہیم کے لئے عسکریت پسند گروپوں اور ان کی حکمت عملی پر لکھنا شروع کیا۔گوریلا تحریکوں اور انٹیلی جنس اہلکاروں کی لکھی کتابیں پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ جو پلے پڑتا، اسے آسان، عام فہم انداز میں لکھ ڈالتا۔ اس پر بہت ہی اچھا ردعمل ملا۔برسوں بعد جناب ہارون الرشید کے صاحبزادے کی شادی پر انٹیلی جنس دنیا کے اساطیری کردارمیجر عامر نے میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ اٹک پل کے پاراس ایک شخص نے عسکریت پسندی کو درست طریقے سے سمجھ کر لکھا۔ دل شاد ہوا۔ کالم نگاری میں متنوع تجربے کئے۔ ٹائم میگزین میں ہر سال سو موثر ترین افراد کی فہرست شائع ہوتی، اسے تفصیل سے پڑھ کر کالم لکھتا، فوربز میگزین میں سالانہ دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست آتی ، اس پر لکھتا۔ نوبیل انعام یافتگان کا اعلان ہونے پر کالم لکھتا۔ مختلف عالمی موضوعات پر گھنٹوں بلکہ درجنوں گھنٹے صرف کر تا ، تھنک ٹینکس کی ریسرچ رپورٹ پڑھتا۔ روزانہ ستر اسی صفحات کے پرنٹ نکال کر گھر لے جاتا اور رات گئے تک پڑھتا رہتا۔ ایک قاری کے طورپر مجھے اردو کالم نگاروں سے دو تین شکوے تھے ۔ وہ ہر ایشو پر اپنی رائے تو تھوپ دیتے ہیں، مگر ایشو سمجھانے کی کوشش نہیں کرتے ۔دوسرا مجھے لگتا کہ بیشتر تحریریں جذباتی آہنگ میں ہیں،ان میں دلیل اور تجزیہ کا عنصر کم رہ جاتا۔ بعض کالم نگار اپنے کالم میں کوئی دلچسپ واقعہ تو لکھتے ،مگر کالم کا اختتام پاکستانی قوم پر لعنت ملامت سے کرتے۔ پڑھنے والے کے دل ودماغ پر مایوسی اور قنوطیت چھا جاتی۔ مجھے لگتا کہ لکھنے والے کو امید جگانی چاہیے۔ بہت کچھ مثبت بھی ہو رہا ہے، اس کا ذکر ہو۔ اپنے کالموں میں شعوری کوشش کی کہ مایوسی یا منفی تاثر دینے کے بجائے مثبت چیزوں پر لکھا جائے۔ موٹیویشنل تحریریںکے ساتھ ساتھ تلخ واقعات میں بھی جو مثبت اشارئیے نکالے جا سکتے ہیں، انہیں لیا جائے۔ادب خاص کر فکشن سے بڑی دلچسپی تھی۔ نئی کتابیں خریدتا، پڑھتا اور ان پر کالم لکھتا۔ میرا خیال ہے کہ کتابوںاور مصنفین پر پچھلے پندرہ برسوں میں مجھ سے زیادہ کسی نے کالم نہیں لکھے ہوں گے۔ کتاب میلوں کا رجحان بنا تو ان پر تواتر سے لکھتا رہا۔ خوش قسمتی سے ہمارا زمانہ آنے تک کالم کی زمین خاصی وسیع ہوچکی تھی۔ اپنی بساط کے مطابق اسے مزید کشادہ کرنے کی کوشش کی۔ سپورٹس، تصوف وغیرہ کو بھی شامل کیا۔ زندگی کی امید جگانے والے کالم بہت لکھے، ایسے جو مایوسی سے نکلنے اور زندگی کو سینگوں سے پکڑ کر لڑنے کی ترغیب دیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ خط ، ٹیکسٹ میسج یا ای میل کے ذریعے کسی قاری نے بتایا کہ خودکشی سے نکلنے میں آپ کے کالم نے مدد کی۔تب اللہ کا شکر ادا کرتا، جس نے یہ توفیق بخشی۔یہی رویہ سوشل میڈیا پر بھی اپنایا۔ تین سال پہلے اپنے کالموں کا انتخاب’’ زنگار‘‘ کے نام سے تیار کیا۔ یہ سوچا کہ ایسے مثبت، تعمیری اور زندگی بدلنے والے کالم اکٹھے کئے جائیں جن کی مستقل حیثیت ہو اور چند سال بعد کسی کو پرانی کتابوں کی دکان سے یہ کتاب ملے تو کھول کر پڑھنے سے اسے خوشگوار تاثر ملے کہ ہر تحریر پہلے کی طرح تروتازہ ہے۔ دوسری کتاب’’ زنگار نامہ ‘‘کے نام سے پچھلے سال شائع ہوئی۔ اب دسمبر کے خنک دنوں میں پہلی کتاب ’’زنگار ‘‘کا نیا ایڈیشن شائع ہواہے۔ جہلم بک کارنر کے گگن شاہد، امر شاہد نے اس کتاب کو اتنے خوبصورت انداز میں شائع کیا کہ یقین نہیں آتا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پندرہ سولہ سال کے اس پورے سفر پر یقین نہیں آتا۔ چھوٹے دور افتادہ شہر سے تعلق، صحافت میں کوئی واقفیت نہیں ۔کسی صحافتی گاڈ فادر کی مدد کے بغیر رب کریم نے ہاتھ پکڑا اور سب راستے ہموار کر ڈالے۔جوخواہش تھی، جس طرف جانا چاہتا تھا، وہی کرنے کا موقعہ ملا۔کبھی سوچا نہیں تھا کہ اخبار میں ایک کالم بھی شائع ہوگا، اللہ کی مہربانی سے ڈھائی ہزار کے قریب شائع ہوگئے۔ مالک کی مرضی رہی تو سلسلہ چلتا رہے گا۔ اسی نے بھرم رکھا، وہی آئندہ بھی سنبھالے گا۔ ہماری کیا اوقات ، ہم کہاں سے لکھنے والے۔ توفیق اور عمل کی قوت آقا نے دی۔ ہمارا کام چل گیا۔خواب سے تعبیر کا سفر رب نے یقینی بنایا۔ الحمد للہ رب العالمین۔ (کالموں کے انتخاب ’’زنگار ‘‘کے نئے ایڈیشن کے حوالے سے لکھی تحریر)